::: " امبرٹو ایکو : {Umberto Eco} اطالوی ماہر نشانیات، محقق، ناول نگار، فلسفی، ادبی نقد نگار اورادبی و ثقافتی نظریہ دان اور استاد " :::
اطالوی دانشور، محقق، ناقد اور مصنف امبرٹو ایکو کو ماہر نشانیات {semioticss } و جمالیات ،ابلاغی ثقافت اور بشریات کی میدانوں کے علاوہ ان کے دو ناولوں 'گلاب کا نام' اور 'فوکالٹ کا لنگر'کے سبب جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ناول "ایک دن پہلے کا جزیرہ "(1994) بھی ان کی ایک مقبول اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ناولوں میں سے ایک ہے۔ جو قرون وسطی کے تاریخی حوالے سے ہے۔ ان ناولوں میں تصور اور حقیقت کے درمیان ایک فنکارانہ اور فکش کی جمالیات کا اچھا متنی تجربہ دکھائی دیتا ہے۔ ایکو کی دلچسپیاں ادب اور فسفے میں زیادہ ہیں انھوں نے ۱۹۵۴ میں ٹوریں یونیورسٹی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کیا۔ ۱۹۵۹ میں اطالوی ٹیلی وژن سے منسلک ہوئے۔ اس سے قبل وہ مختلف تعلیمی اور تحقیقی اداروں اور درسگاہوں میں علمی، فلسفیانہ اود ادبی موضوعات پر خطبات دیتے رہے لیکن وہ زیادہ تر ٹورین یونیورسٹی سے ہی متعلق رہے۔ ۱۹۶۴ سے ۱۹۶۵ تک وہ میلان یونیورسٹی میں لیکچرار بھی رہے۔ بھر ایکو ۱۹۶۵ سے ۱۹۶۹ تک فلورنس میں " بصری ابلاغ" کے پروفیسر رہے۔ دوسال بعد انھیں میلان پولی ٹیکنیک میں "نشانیات" کے پروفیسر کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ اسی ادارے سے اپنی موت تک منسلک رہے۔ شروع میں انھوں نے تاریخی، ، ادبی اور فلسفیانہ موضوعات پر مقالے لکھے۔ جو ان کی پہلی کتاب میں شامل ہیں۔ ایکو نے فکشن کے متن تاریخی حوالوں کو دریافت کرکے بیں المتنیت کو منفرد اور اور نئے تخلیقی نقد کے ساتھ پیش کیا۔ ان پر جیمس جوائس اور ارجنٹائن کے ادیب، شاعر، فکشن نگار اور حکایت نویس لوئی خورخے بورہس کا گہرا اثر تھا۔ ۱۹۶۶ میں انھوں نے جمیس جوائس کی فکشن کی شعریات ہر کام کیا۔ اور میلان کے ایک ہفت روزہ جریدے " ایسپرسو " { ESPRESSO } میں مضامین، حاشیے لکھنے کے علاوہ ادبا اور فلسفیوں کے مصاحبے بھی لیتے رہے۔ لسانیات کا مطالعہ بنیادی طور پر ان کا مکتبی کار ہائے نمایاں ہے۔ لہذا ان کی کتاب " نشانات کا مطالعہ "{ 1976 A THEORY OF SEMIOMTICS} میں نشانیات کا تجریدی اور تجزیاتی ماڈل فراہم کیا۔ اس کتاب کو لسان کے نشانیاتی میدان میں پہلا " سائینسی رجحان" قرار دیا گیا۔ انھوں نے ۱۹۶۸ میں " غیر حاضر ساخت" { THE ABSENT STRUCTURE} میں نشانیات کا علمیات کے ساتھ تقابل کرکے نئی ساختیاتی مباحث کو چھیڑا۔ اس کتاب کے تراجم سات/۷ سے زیادہ زبانوں میں ہوئے۔ البرٹو ایکو کی یہ کتاب اہرام، ریاضی کے کلیوں، جدول، نوٹس کے حاشیوں سے بھری ہے۔ جس میں گہرے فلسفیانہ مفاہیم پوشیدہ ہیں۔ جو نظریاتی متعلقات اور ممکنات کے پس منظر میں معاشرتی سطح پر تفاعل کی ایک ایسی مشترکہ وحدت بن جاتی ہے۔ جو ہمیں مظاہر میں نظر آتی ہے۔ ان کی ایک کتاب ۱۹۷۹ میں " قاری کا کردار " { THE ROLE OF READER } شائع ہوئی۔ جس میں نو/۹ مقالے شامل ہیں۔ جو ۱۹۶۹ سے ۱۹۷۷ تک مختلف جرائد میں چھپتے رہے۔ جس میں انھوں نے تحقیقی نقطہ نظر سے " بند اور کھلے متن" کے درمیان پائے جانے والی جدلیات سے بحث کی ہے۔ اور متن کی تشریح میں قاری کے کردار/ رول کی شراکت اورمعاونت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ " نشانیات " اور " لسانیات " کی فکریات میں انھوں نے نشان، علامت، رموزیات، استعاروں اور مرکبیات { ISOTOPSY } کو موضوع بنایا ہے. یہ تمام بحثین قاری کے شعور سے متعلق ہیں۔ جو تشریحات کے تجدیدات میں مقید ہیں۔ امبرٹو ایکو کے لسانی مطالعوں میں تاریخ اور نفسیات کے بجائے " نشانیات" کا عمل دخل زیادہ نظر آتا ہے۔ جس پر ولف وانگ اسر اور رابرٹ یوس کا گہرا اثر ہے۔ ان کا مکتبہ فکر " برہ اعظم کا فلسفہ "{ Continental philosophy} ہے۔ وہ جنگ اور امن۔۔۔۔ انسانی حقوق ۔۔۔۔ معاشتی عدل اور عدام مساوات ار مذھبی اور نسلی ہم آہنگی پر بھی اظہار خیال کرتے رہے۔ وہ اٹلی ٹیلی وژن پر ایک " کوئیز شو" کی میزبانی بھی کرتے رہے۔ ایکو نے ناول، غیر فکشن، انتخاب اور بچوں کے ادب پر کل تریپن/۵۳ کتابیں لکھی۔
ان کا انتقال ۸۴ سال کی عمر میں ۱۹فروری ۲۰۱۶۶ میں سرطان کی تشخیص کے بعد میلان، لمباڈی، اٹلی میں ہوا۔ راقم الحروف نے اپنی کتاب " ساختیات"، تاریخ، نظریہ اور تنقید {۱۹۹۹} میں امبرٹو ایکو پر ایک باب قائم کیا ہے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔