آج – ٢ / ستمبر / ١٩٨٦
پاکستان کے نوجوان ابھرتے شعراء میں نمایاں، منفرد لب و لہجے کے لیے معروف اور مشہور شاعر” عمیر نجمیؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
عمیر نجمیؔ کے نام سے شہرت پانے والے محمد عمیر، ٢ ستمبر ١٩٨٦ کو پنجاب کے خوب صورت شہر رحیم یار خان میں پیدا ہُوئے آپ کی تعلیم بی ایس سی آرکیٹیکچرل انجینئرنگ یو آئی ٹی لاہور سے کی ، ایف ایس سی ایف سی لاہور کالج سے، 2014 سے باقاعدہ اپنے شعری سفر کا آغاز کیا آپ کے پسندیدہ شعرا میں میر تقی میر، مرزا غالب، علامہ اقبال، یگانہ چنگیزی، عرفان صدیقی، شکیب جلالی، جمال احسانی اُور جون ایلیا شامل ہیں آپ کو اپنے ہم عصر شعرا میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ آپ کی شاعری میں تازگی اور پختگی ہے آپ کی شاعری ایک وقت میں مرئی و غیر مرئی طاقتوں کو ساتھ لے کر آتی ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
نوجوان شاعر” عمیر نجمیؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
جہاں بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا
—
ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں
وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا
—
نم کی ترسیل سے آنکھوں کی حرارت کم ہو
سرد خانوں میں کوئی خواب پرانا نہ پڑے
—
مرے بڑوں نے عادتاً چنا تھا ایک دشت
وہ بس گیا رحیمؔ یار خان بن گیا
—
خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے
—
اس کو پردے کا تردد نہیں کرنا پڑتا،
ایسا چہرہ ہے کہ دیکھیں تو حیا آتی ہے،
—
کرنے لگے ہیں جو نظر انداز، ان کی خیر
اتنا تو طے ہوا کہ نظر آ رہا ہوں میں
—
زندگی لمبی تو ہو سکتی ہے، بے انت نہیں
خودکشی کی بھی سہولت ہے، تو مایوس نہ ہو
—
کمرے میں سگرٹوں کا دھواں اور تیری مہک
جیسے شدید دھند میں باغوں کی سیر ہو
—
ٹھیک ہے، ساتھ رہو میرے، مگر ایک سوال،
تم کو وحشت سے حفاظت کی دعا آتی ہے؟
—
میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لئے
شاہ زادی ! یہ ترا حق تھا' تجھے شاہ ملے
—
ابھی بحالی تو خیر ممکن نہیں ہے نجمیؔ
ابھی جو دریا اتر رہا ہے یہی بہت ہے
جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
یہ کل ملا کر بھی ہجر کی رات میرے گریہ سے کم بنے گا
میں دشت ہوں یہ مغالطہ ہے نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ نقشِ قدم بنے گا
ہمارا لاشہ بہاؤ ورنہ لحدِ مقدس مزار ہوگی
یہ سرخ کرتا جلاؤ ورنہ بغاوتوں کا علم بنے گا
تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل
مری چھٹی حس بتا رہی ہے یہ رشتہ ٹوٹے گا غم بنے گا
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیسا
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا
سنا ہوا ہے جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اس رائیگانی سے کچھ اہم بنے گا
کہ شاہزادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اس پر متفق ہیں
یہ جوں ہی حاکم بنا محل کا وسیع رقبہ حرم بنے گا
میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال اس کو شروع سے سن ردھم بنے گا
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا رکو خدا کی قسم بنے گا
عمیر نجمیؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ