جب یہ حکم مجھ پہ صادر ہوا تب میرے پاس انکار کی گنجائش تو کیا خاک ہوتی، سمجھنے کی عمر بھی نہیں تھی
"نبیل حافظِ قرآن بنے گا"
حفظ کراتے ہوئے الٹا قرآن حفظ کرانا شروع کراتے ہیں، سو حفظ کا پہلا سبق تیسواں پارہ تھا. پہلے دن کا سبق ہی ہوش اڑانے کو کافی تھی. زبان تھی کہ نہ کبھی بولی نہ سنی، سمجھنی تو بہت دُور کی بات ہے. اب ایک سطر ختم ہوتی تو دوسری شروع کرنے تک پچھلی بھول جاتی
مولوی صاحب کے پاس جاتے کوئی چوتھا پانچواں دن تھا اور جو پچھلے دنوں رٹا لگایا تھا وہ سناتے ہوئے بار بار گڑبڑ ہو رہی تھی. دو تھپڑ بھی رٹا ہوا سبق یاد نہیں کرا سکے تھے کہ میں نے روتے ہوئے قمیض سے بہتی ناک صاف کرتے تقریباً منت کرتے ہوئے کہا کہ "مولوی صاحب، کوئی قرآن اردو میں نہیں ملتا کہیں سے؟ وہ آسانی سے رٹ لوں گا میں" مولوی صاحب کی داڑھی میں جیسے طوفان آ گیا، میرے سر کے بال پکڑے اور اپنے گوڈے کے نیچے میرا سر دے کے میری کمر پہ تھپڑوں کی موسلا دھار بارش کر دی "معاف کر دیں مولوی صاحب، معاف کر دیں، آئندہ نہیں کہوں گا"
شکایت ابا کو لگائی گئی تو مسجد اور گھر میں فرق ہی مٹ گیا. وہاں خدا کے گھر میں مار کھانے کے بعد اپنے گھر میں خدا نما سے سلیپر کھائے. ابا ایک ہی سانس میں ماں بہن کی گالیاں دے رہے تھے اور اسی سانس میں اللہ رسول سے محبت یاد دلوا رہے تھے اور میں مسلسل مار کھاتے، روتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ ایک نو سال کے بچے کو ایک بات کہنے پہ نہ اللہ اپنے ہی گھر میں بچا سکا ہے نہ میرے گھر میں
ابا قرآن تو کیا، اخبار بھی نہیں پڑھ سکتے تھے، سو ان کا دیرینہ خواب بھی تھا اور مسلسل نو بچے پیدا کرتے ہوئے جانے کب یہ وعدہ بھی خدا سے کر بیٹھے تھے کہ ایک بیٹے کو حافظِ قرآن ضرور بناؤں گا. ابا گھر آتے جاتے ہر بندے کو یہ بات ضرور کہتے تھے کہ میرے باقی بیٹے میرے بڑھاپے کا سہارا ہیں اور میرا بیٹا نبیل میری آخرت کا آسرا ہے کہ ایک حافظِ قرآن روزِ قیامت گیارہ نسلوں کی بخشش کرے گا. اسی لیے میں ابا کے حکم پہ اپنی اگلی پچھلی نسلیں بخشوانے کی مشقت میں پڑا ہوا تھا
ابا کے حکم کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی. کبھی کبھی تو لگتا کہ ابا کے حکم کے آگے تو خدا بھی نہیں چلتی. بہنیں گھر داری میں ابا کے حکم ناموں پہ چل رہی تھیں اور بھائی سب ابا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیے سکول کی کتابوں کے یونہی رٹے لگا رہے تھے جیسے میں قرآن کے
سو گاؤں کی جامع مسجد میں آگے پیچھے، مسلسل ایک ردھم میں، ہلتے ہوئے مولوی صاحب عبدالحق کی ٹاہلی کی چھمکیں کھاتے، روتے دھوتے، رٹے لگاتے، جیسے تیسے کر کے آدھا قرآن تین سال میں حفظ کیا ہی تھا کہ ابا کی ناگہانی موت نے جیسے وقت ہی روک دیا تھا. حکم آنے ایک دم بند ہو گئے. اماں ایک طرف ابا کی لاش کو دیکھتی تو ایک طرف باقی بہن بھائیوں کو. سب ایک طرف سر جھکائے بیٹھے تھے اور میں مسلسل ابا کے سرہانے بیٹھا ابا کے پیار اور مار کے بیچ لڑھکتا ہوا اپنی تین سالہ محنت دہرائے جا رہا تھا