اس وقت شہریت ترمیمی بل C. A. B. اور این آر سی کے خلاف ملک گیر سطح پر زبردست احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں سے لے کر کیرلا تک ، بھوپال سے لے کر دلی تک، ممبئی سے لے کر حیدرآباد تک، ہر طرف گویا انسانی سیلاب آیا ہوا ہے۔
لوگ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر سڑکوں پر اتر آئے ہوئے ہیں اور جان کی پرواہ کئے بغیر حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں
خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ملک پر گیر احتجاج میں مسلمان تنہا نہیں ہیں، بلکہ سکھ، دلت طبقات اور دیگر انصاف پسند وسیکولر غیر مسلم حضرات بھی ساتھ میں ہیں۔ بڑے بڑےوکلا، آئی ایس آفیسرز انجینیئر، پروفیسر اور دانشور حضرات بھی شامل ہیں۔
متعدد یونیورسٹیوں خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونورسٹی؛ جامعہ ملیہ اور جے این یوکے طلبہ و طالبات بھی اپنی اپنی تعلیمی مصروفیات کو ترک کرکے پُر زور احتجاج کررہے ہیں.
کانگریس، ترنمول کانگریس، ایم آئی ایم ۔ ایںس ڈی پی آئی۔ ایس پی اور پیس پارٹی وغیرہ ملک کی بیشتر سیکولر پار ٹیاں بھی میدان میں کوڈ پڑی ہیں اور آر پار کی لڑائی کے لئے تیار ہیں۔ اس مسلم دشمن اور دستور مخالف شہریت ترمیمی بل کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد عرضیاں بھی داخل کی جا چکی ہیں۔
لیکن بڑی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایسے سنگین و ناگفتہ بہ حالات میں بھی علماء ومشائخ بالکل خاموش اور مہر بہ لب ہیں ۔اجمیر معلی سے لے کر مارہرہ تک، بدایوں سے لے کر بریلی تک، بلگرام سے لے کر کالپی شریف تک اور مسولی سے لے کر کچھوچھہ مقدسہ تک، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے مریدین، معقدین اور متو سلین شدید بے چینی کے شکار ہیں۔
ان میں سے ہر خانقاہ سے لاکھوں افراد وابسطہ ہیں اور سبھی محض ایک آواز پر جمع ہوسکتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اس ظلم وزیادتی کے خلاف کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ آخر اس قدر خاموشی اور سرد مہری کیوں ہیں؟؟؟ ایسے نازک ترین حالات میں بھی اپنی اپنی خانقاہوں سے نہیں نکلیں گے تو آخر کب تک نکلیں گے؟؟؟
ملک کو آزاد ہوئے ابھی محض 70سال کا عرصہ گزرا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اس آزادی کے لئے جو قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں انہیں نہیں بھولنا چاہیے۔ دہلی سے پیشاور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا؛جس پر ہمارے بزرگوں کی لاشیں نہ لٹکائی گئی ہوں۔ انہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیئےبغیر آزادی کی لڑائی لڑ یں ارو آج ہم مصلحت کوشی کی چادر تانے ہوئے ہیں۔
یاد کیجیۓ رئیس الاحرار بطل حریت، حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی کو جنہوں نے سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا، جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے کالا پانی بھیجا گیا۔ اور وہیں ان کا وصال ہوا۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ فتویٰ کے بعد مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔ اور جان کی قربانی دینی پڑے گی، لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی۔
ان بزرگوں کی روحیں ہمیں پکارہی ہیں کہ اٹھو اور اپنے حق کی لڑائی لڑو۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرو۔
یاد رکھیں ظلم و زیادتی کے خلاف جس قدر دیر سے قدم اٹھایا جائے گا اتنی ہی زیادہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔
یہ شہریت تر میمی بل صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون ضرورین چکا ہے ۔ لیکن اب بھی ہمارے لئے وقت ہے۔
اگر ہم بر وقت اٹھ کر اس کے خلاف چل رہی ملک گیر تحریک کا حصہ بن جائیں تو انشاءاللہ اللہ الرحمن یہ قانون منسوخ کر دیا جائے گا اور اگر ہم مصلحت کی چادر تان کر یونہی خواب خر گوش میں مبتلا رہیں تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی۔ مستقبل کا مورخ جب تاریخ لکھے گا تو یہ لکھے گا کہ ملک کے عام مسلمان اور دیگر انصاف پسند افراد حق کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ لیکن علماء و مشائخ۔ حالات کو نظر انداز کر کے اپنی اپنی خا نقاہوں اور درسگاہوں میں چھپے ہوئے تھے۔
خدارا اپنی اپنی خانقاہوں اور درسگاہوں سے نکلیئے اور آسام کے مسلمانوں کو دیکھیے کہ وہ ڈی ٹینشن سینٹر میں کس در جہ بر تر زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ جانوروں سے بھی بد تر ان کی حالت ہوچکی ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق محض چند ماہ میں 100افراد لقمئہ اجل بن چکے ہیں۔
یہ دیکھئیے ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے یہ آپ کی کڑوروں مریدین و معقتدین آپ کی قیادت کے منتظر ہیں۔ اٹھییے اور ان کے ساتھ مل کر ظلم کے خلاف آواز بلند کیجئے اور حق کی لڑائی لڑ یئے۔
خدا کرے کہ علماء ومشائخ کی خاموشی ختم ہو ارو وہ اپنی اپنی خانقاہوں اور درسگاہوں سے اٹھ کر ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں۔
یہ خاموش مزاجی تمہیں جینے نہ دےگی۔
اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو۔
اٹھو و گر نہ حشر نہ ہو گا زمانے میں۔
دڑو کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔
____________