ہمارے ان قابلِ احترام جید علمائے کرام اور مشائخِ عظّام کا مذہبی فریضہ ہے کہ قوم کو گومگو کی کیفیت سے نکالیں۔ طالبان حق پر ہیں یا غلط ہیں… دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہو سکتی ہے۔ اگر وہ حق پر ہیں تو علما ان کا ساتھ دیں‘ قوم بھی ساتھ دے گی۔ اگر علما سمجھتے ہیں کہ ان کے مطالبات جائز ہیں لیکن طریق کار غلط ہے‘ تب بھی یہ موقف کھل کر سامنے آنا چاہیے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے محترم علما و مشائخ اس ضمن میں کوئی واضح رائے نہیں رکھتے اور اگر رکھتے ہیں تو اس کا بوجوہ اظہار نہیں کرتے۔ بقول احمد ندیم قاسمی ؎
مجھے تسلیم ہے تم نے محبت مجھ سے کی ہو گی
زمانے نے مگر اظہار کی مہلت نہ دی ہو گی
طالبان صرف ڈرون حملوں یا امریکی موجودگی کی بات نہیں کر رہے‘ وہ پاکستان کے آئین اور پاکستان کی حکومت کو بھی نہیں مانتے۔ اگر یہ موقف مبنی برحق ہے تو ہم ادب کے ساتھ علمائے کرام سے درخواست گزار ہیں کہ وہ کھل کر طالبان کے اس موقف کی تائید کریں۔ اس کالم نگار کی طرح لاکھوں کروڑوں پاکستانی جو دین کا علم نہیں رکھتے‘ مولانا تقی عثمانی کی طرف دیکھتے ہیں۔ کاش جسٹس صاحب یہاں بھی اُسی وضاحت سے کام لیتے جس کے ساتھ انہوں نے عبدالرشید غازی صاحب کے طریقِ کار کو شرعی اور اخلاقی لحاظ سے غلط قرار دیا تھا۔
پاکستانی ریاست کے پہلے سربراہ‘ قائداعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس مکتبِ فکر کے کسی عالم نے پاکستانی آئین کو شریعت کا مدِمقابل قرار نہیں دیا۔ طالبان نے کئی بار کہا ہے کہ ’’وہ شریعت کی جب کہ حکومت آئین کی بات کرتی ہے‘‘۔ ہمارے علما و مشائخ سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ آئین‘ شریعت کے مدِّمقابل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ شریعت اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام پر مشتمل ہے جب کہ آئین ملک کا نظم و نسق چلانے کے متعلق ہدایات دیتا ہے۔ شریعت آسمانی ہدایت ہے جس میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ آئین ایک قانونی دستاویز ہے جس میں ایک نہیں‘ ہزار ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ تعجب ہے کہ علمائے کرام اس نکتے پر اپنا موقف واضح کرنے سے گریزاں ہیں!
قوم اس نازک مسئلے پر بھی رہنمائی کی طلبگار ہے کہ کیا ڈرون حملوں کا انتقام اُن بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور مردوں سے لینا جائز ہے جن کا امریکہ سے تعلق ہے نہ پاکستان کی پالیسی سازی سے! شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جو ڈرون حملوں کا دفاع کرتا ہو۔ امریکی ڈرون حملے وحشت اور بربریت کی بدترین مثال ہیں‘ لیکن کیا علمائے کرام کے نزدیک ڈرون حملوں کا انتقام سید علی ہجویریؒ کے مزار کے زائرین یا بازاروں میں خریداری کرنے والی عورتوں یا مسجدوں میں سربسجود اور جناز گاہوں میں مصروفِ دعا باوضو مسلمانوں سے لینا جائز ہے؟ حافظ سعید صاحب نے کل کے اخبارات میں دھماکوں کو غیر مشروط طور پر حرام قرار دیا ہے۔
سرورِ کائناتؐ نے اپنے آخری ایام میں شام پر حملہ کرنے کے لیے لشکرِ اسامہؓ کی تیاری کا حکم جاری فرمایا تھا‘ لیکن آپؐ کی علالت اور پھر وصال کی وجہ سے لشکر روانہ نہ ہو سکا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ مسند آرائے خلافت ہوئے تو سب سے پہلے لشکرِ اسامہؓ کی روانگی کا حکم دیا۔ امیر المومنین لشکر کو رخصت کرنے مدینہ سے باہر اس حال میں تشریف لائے کہ پیدل چل رہے تھے اور اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔ لشکر کو الوداع کرتے وقت خلیفۂ رسولؐ نے فرمایا: ’’اس موقع پر میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں۔ غور سے سنو اور انہیں یاد رکھو۔ ان پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔
1۔ خیانت نہ کرنا۔
2۔ بدعہدی نہ کرنا۔
3۔ چوری نہ کرنا۔
4۔ مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا۔ بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔
5۔ کھجور کے درخت نہ کاٹنا نہ جلانا۔ کوئی بھی پھل والا درخت نہ کاٹنا۔
6۔ بھیڑ‘ بکری‘ گائے یا اونٹ کو کھانے کے سوا ذبح نہ کرنا۔
7۔ تمہارا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوگا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیے گرجوں اور عبادت خانوں میں بیٹھے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر رہے ہوں گے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ان سے کوئی تعرض نہ کرنا۔
8۔ تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے۔ تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردو۔
9۔ تم ایسے لوگوں سے ملو گے جنہوں نے سر کا درمیانی حصہ تو منڈوا دیا ہوگا لیکن سر کے چاروں طرف بڑی بڑی لٹیں لٹکتی ہوں گی۔ انہیں تلوار سے قتل کر دینا۔
10۔ اپنی حفاظت اللہ کے نام سے کرنا۔
یہ دس ہدایات اسلامی تاریخ میں پتھر پر کھدی لکیر بن گئیں۔ سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے لوگوں کا خون بہانے والے بادشاہوں کی بات اور ہے‘ لیکن جب بھی مسلمان خدا کے دین کی سربلندی کے لیے برسرِ پیکار ہوئے تو ان نصیحتوں پر سختی سے کاربند رہے۔ پاکستان میں ثمردار درخت اور فصلیں تو دور کی بات ہے‘ بے گناہ بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور نہتے مردوں کا خون اس کثرت اور اس تواتر سے بہایا گیا ہے کہ تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ 30 ستمبر کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ: ’’اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کو خانہ جنگی سے نکالنے اور امن و
امان کے قیام کے لیے مدارس اور خانقاہوں سے باہر آ کر عملی طور پر اپنا کردار ادا کیا جائے‘‘۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ع
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے
دلچسپ امر یہ ہے کہ جہاں بے لوث اور فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے علمائے کرام موجود ہیں‘ وہاں کچھ ایسے اصحاب بھی ہیں جن کا فقر و درویشی سے دور دور کا علاقہ نہیں۔ ایک حضرت ایسے بھی ہیں جو کچھ عرصہ قبل امریکہ تشریف لے گئے۔ علاج معالجہ سے لے کر سفر خرچ تک تمام تفصیلات ’’پیکیج‘‘ کا حصہ تھیں!!
پھر بھی اکثریت اُن علمائے کرام پر مشتمل ہے جو اُجلی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اکلِ حلال کے لیے کمال درجے کی احتیاط برتتے ہیں۔ دن قال اللہ و قال الرسول اور رات عبادت و استغفار میں گزارتے ہیں۔ طالبان کی اکثریت ان علما کا دل سے احترام کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ علما ’’بزن‘‘ کا حکم دیں تو طالبان کی یلغار کو کوئی نہیں روک سکے گا لیکن اگر یہ ’’قِف‘‘ کہہ دیں تو طالبان کی تلواریں حیرت انگیز سرعت سے نیاموں میں چلی جائیں گی۔ علما اور مشائخ جانتے ہیں کہ علامہ اقبال‘ مولانا انور شاہ کاشمیری سے متاثر تھے۔ آج اس سرزمین پر ہر طرف سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں اور ان بادلوں کے پیچھے سے علامہ اقبال علما و مشائخ سے مخاطب ہیں: ؎
ہمہ افکارِ من از تُست چہ در دل چہ بلب
گہر از بحر برآری نہ برآری از تُست
گلہ ہا داشتم از دل بہ زبانم نرسید
مہر و بی مہری و عیاری و یاری از تُست
http://columns.izharulhaq.net/2013_10_01_archive.html
“