’سلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں‘
خواتین و حضرات!میں پھاوا ہوگیا ہوں شادیاں بھگتا بھگتا کر۔ہر اتوار کو کسی نہ کسی شادی میں جانا پڑجاتاہے‘ ستم تو یہ ہے کہ کئی اتواریں تین تین شادیا ں بھگتانے میں گذریں۔ سوچا تھا سردیاں آگئی ہیں ‘ بجلی کا بل نہ ہونے کے برابر آئے گا تو کچھ بچت ہوگی لیکن شادیوں نے ساری کسر برابر کردی ہے۔ یکم جنوری کو سٹیشنری کی دوکان سے پچیس لفافوں کا پیکٹ لایا تھا‘ بیس استعمال ہوگئے ہیں۔آپ ہی بتائیں بھلا شادی شدہ بندے کودوسروں کی شادیوں میں شرکت کرنے سے کون سی خوشی مل سکتی ہے؟ستم ظریفی دیکھئے کہ سلامی جتنا کھانا بھی نہیں کھایا جاتا کہ چلو بندہ حساب ہی برابر کرآئے۔اب تو میں نے سوچ لیا ہے کہ جس شادی میں بھی جاؤں گا وہاں لفافہ بند کرکے پیش کرنے کی بجائے کھلا ہی رکھوں گا تاکہ جب میزبان لفافہ کھولیں اور وہ اندرسے خالی نکلے تو اُنہیں یہی لگے کہ شائد نوٹ کہیں گر گئے ہیں۔اذیت کا مقام چیک کریں کہ تین سال پہلے ایک دوست نے شادی فرمائی تھی‘ موصوف کو سب نے لفافے پیش کیے۔ پرسوں انہوں نے ایک اور شادی کرلی اور سب دوستوں کو دوبارہ مدعو کرلیا۔اندازہ لگا لیجئے کہ خوشی کے اس موقع پر دوسری دفعہ سلامی دینے والوں پر کیا گذری ہوگی۔
گھر کی شادی ہوتو مزا آتاہے‘ بندہ ہر ایونٹ میں شامل رہتا ہے لیکن جس شادی میں صرف روبوٹ بن کر مردانہ پورشن میں بیٹھنا ہو وہاں کوئی کس دل سے جائے؟شادی سے پہلے کتنا شوق ہوتا ہے کہ کوئی ہمیں بھی بلائے‘ اور اب خشو ع و خضوع کے ساتھ دُعا مانگنا پڑتی ہے کہ یااللہ کوئی نہ بلائے۔پچھلے دنوں ایک شادی میں جانا ہوا‘ ہر طرف میزیں لگی ہوئی تھیں۔ سامنے ایک بڑی سی میز کے گرد پندرہ بیس افراد تشریف فرما تھے۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعدمیزبان تشریف لائے‘ خوشی سے گلے ملے اور شکریہ ادا کیا۔ میں نے بڑے احترام سے لفافہ نکال کر ان کی خدمت میں پیش کیا جسے انہوں نے کمال عاجزی سے قبول فرمایا اوروہی رٹا رٹایا جملہ بولا’’اِس کی کیا ضرورت تھی‘‘۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں شادیوں پر سب سے زیادہ ضرورت اسی کی ہوتی ہے ورنہ بلاوجہ ڈیڑھ سو بندوں کوکھانا کھلانے کا شوق بہت کم لوگوں کو ہوتاہے۔
میرا خیال ہے دھڑادھڑ شادیوں میں شرکت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بے شک کارڈ پر صرف آپ کا نام لکھا ہو‘ آپ ہر شادی میں اہل و اعیال اور تین چار مفت خورے دوستوں کو لے کر شریک ہوں۔انشاء اللہ تین چار شادیوں میں شرکت کے بعد آپ کی’نیک نامی‘ کی خبرسب تک پہنچ جائے گی اور لوگ خود ہی احتیاط کیا کریں گے۔ اگر پھر بھی کوئی فرق نہ پڑے تو طریقہ یہی رکھیں لیکن سلامی روک لیں۔تیر بہدف نسخہ ہے ۔میرے ایک دوست شیخ ببلی کے بچے چھوٹے ہیں‘ اسے جب بھی کوئی شادی میں بلاتا ہے وہ پہلے حساب کتاب لگانے لگ جاتاہے کہ بچے کب بڑے ہوں گے‘ کب ان کی شادی ہوگی اور کب سلامی کے پیسے واپس ملیں گے۔ موصوف ایسی شادیوں میں جانے سے پرہیز فرماتے ہیں جہاں اگلے ہی سال دوسرے لڑکے کی شادی متوقع ہو۔اگر انہیں ایسی کسی شادی میں مجبوراً پیسے دینے پڑ جائیں تو حساب برابر کرنے کے لیے اگلے ہفتے ہی ایک پاؤنڈ کا کیک منگوا کر بچے کی سالگرہ رکھ لیتے ہیں اور متعلقہ پارٹی کو خاص طور پر مدعو کرتے ہیں تاکہ دیر کہیں اندھیرمیں نہ بدل جائے۔
شادیوں میں خواتین کی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے‘ مرد بیزار بیٹھے ہوتے ہیں اور یہ انجان خواتین کے ساتھ بھی دو منٹ میں گھل مل جاتی ہیں اور واپسی پر بتا رہی ہوتی ہیں’’وہ نیلی ساڑھی والی موٹی کا نام شکیلہ ہے‘ اس کا شوہر اسے مارتا تھا‘ طلاق لے کرنئی شادی کی ہے‘کہہ رہی تھی کسی دن آپ کے گھر آئیں گے۔‘‘ سخت ترین سردی میں بیچارے مرد کوٹ پینٹ کے نیچے بھی سوئیٹر پہنے ہوئے کانپ رہے ہوتے ہیں اور خواتین ہاف بازو والے کپڑے پہنے کھلکھلا رہی ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ گھر پہنچتے ہی ڈبل رضائی لپیٹ لیتی ہیں۔پچھلے سال انہی دنوں ایک دوست کی شادی ہوئی تو نئے نویلے جوڑے کو ہم نے کھانے پر گھر بلایا۔ 10 ڈگری درجہ حرارت میں موصوف موٹر سائیکل پر آئے تو سر پر مفلر‘ اوپر ہیلمٹ‘ فل جرابیں‘ دو جرسیاں اور ہاتھوں پر دستانے چڑھائے ہوئے تھے۔ تاہم پچھلی نشست پر خاتونِ خانہ ہلکے پھلکے نیم لباس میں بغیر جرابوں کے تشریف فرما تھیں اور حالت یہ تھی کہ جب ان سے سلام لیا گیا تو کسی روبوٹ کی طرح چلتی ہوئی ہیٹر کے پاس پہنچیں اور دس منٹ بعد جب تھوڑی سی ’پگھلیں‘ توانتہائی ہلکی سی آواز آئی۔۔۔وعلیکم السلام۔۔۔!
بات یہیں ختم نہیں ہوئی‘ واپسی پر رات کا ڈیڑھ بج گیا اور درجہ حرارت مزید 2 ڈگری نیچے گر گیا۔ دوست نے اطمینان سے دستانے دوبارہ چڑھائے اور کھلی ہوا میں گہرا سانس لے کر موٹر سائیکل کو کک لگاتے ہوئے بولا’’یارسردی کتنی کم ہوگئی ہے ‘‘۔ البتہ دلہن کی حالت دیکھنے والی تھی‘ بیگم نے پیشکش کی کہ کوئی گرم چادریا جیکٹ پہن لیں لیکن دلہن نے لاپرواہی سے انکار میں سرہلایا اور’’سردمہری ‘‘ سے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھیردی ۔۔۔ پھر گلی کا موڑ مڑنے تک ان کی یہ مسکراہٹ برقرار رہی کیونکہ مسکراہٹ بھی وہیں جم گئی تھی۔۔۔!!!
کتنی غلط بات ہے کہ ایک بندہ جس کے چھ بچے ہوں‘ اسے چھ دفعہ سلامی ملتی ہے اور جس نے سلامی دی ہو‘ اگر اس کے دو بچے ہوں تو اُسے چار سلامیوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتاہے۔وہ بھی خسارے میں رہتے ہیں جن کی اولاد نہیں یا سارے بچے بیاہ چکے ہیں۔ اس حوالے سے بھی ’آئین میں ترمیم ‘ کی ضرورت ہے تاکہ کسی کا حق نہ مارا جائے۔نیز ون ڈش کے ساتھ ساتھ یہ قانون بھی ہونا چاہیے کہ ایک بندہ ایک مہینے میں صرف ایک ہی شادی اٹینڈ کرے۔شادی میں شرکت کرنے والوں کی بائیومیٹرک تصدیق ہونی چاہیے نیز شادیوں میں سلامی کی رقم بھی 200 روپے ہونی چاہیے اور جو بھی اس سے زیادہ سلامی دینے کی کوشش کرے اُس پر’رد الفساد‘ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔اس طریقے پر عمل کرنے سے آپس میں رشتہ داروں سے بھی سرگوشیوں میں نہیں پوچھنا پڑے گا کہ ’’آپ کتنی سلامی دیں گے؟‘‘۔
شادیوں میں یہ سہولت بھی ہونی چاہیے کہ جو بندہ کھانا نہ کھائے اُسے ساتھ پیک کرکے دے دیا جائے۔یقین کریں پیکنگ کی سہولت ہوگی تولوگ سلامی پوری کرنے کے چکر میں بیس بوٹیوں کا کباڑابھی نہیں کریں گے۔عموماً ولیمے کا خرچہ سلامیوں سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کسی حد تک کام چل بھی جاتا ہے لیکن میری تجویز ہے کہ سلامیوں کے پیسوں پر بھی ٹیکس لگایا جائے اورکُل آمدن کا پچاس فیصد لگایا جائے‘سو فیصد بھی لگادیں تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ اگر ہوسکے تو دولہا کو پابند کیا جائے کہ وہ سلامی وصول کرکے اس کی کمپیوٹرائز ڈ رسید بھی جاری کرے۔جن دوستوں بزرگوں کی شادیاں ہوچکی ہیں وہ یقیناًاس تجویز سے اتفاق کریں گے ‘ جن کی نہیں ہوئی وہ شائد اعتراض کریں لیکن اُن کی حیثیت ہی کیا ہے۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“