اردو زبان کے ممتاز دانش ور اور صاحب طرز شاعر اصغر یگانہ 12 فروری 1938ء کو موضع دھم، ریاست کپور تھلہ ہندوستان میں میاں مختار احمد کے گھر میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر ہی حاصل کی ۔پاکستان آکر راوی روڈ قلعہ لکشمن لاہور میں رہائش اختیار کر لی ۔بعد ازاں ننکانہ صاحب آ بسے اور یہیں سے آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔اس کے بعد آپ نے مکینیکل انجینئرنگ کا ڈپلومہ کرکے روزگار کے سلسلہ میں ابوظہبی ،دوبئی ، بحرین ، قطر ، حمبو ، سعودی عرب میں چلے گئے ۔
اصغر یگانہ ان شعراء کی صف میں شامل ہیں جو اپنے سینے میں درد مند دل رکھتے ہیں اور غم جاناں سے آگے بڑھ کر غم انسان کی بات کرتے ہیں۔ایسے لوگ اپنی ذات کے خول میں بند نہیں رہتے بلکہ اپنی ذات کو ایک آئینہ بنا کر اس میں حیات و کائنات کے مظاہر دیکھتے ہیں ۔ان کے باطن کا ایک محکم رب دکھا دیں اول مسائل سے رہتا ہے اور وہ کائنات کے اندر بکھرے ہوئے سارے آشوب ،سارے کرب سمیٹ کر اپنی ذات میں اس لیے جذب کر لیتے ہیں کہ انہیں باطن کی تجربہ گاہ میں بعض آفریدن کے فنی عمل سے گزاریں اور ایسے اشعار ، ایسی غزلوں کو تخلیق کریں جو روح عصر کی آئینہ دار ہوں۔
ہر شخص سے نہ جوڑیے رشتہ خلوس کا
ضائع متاع شوق و مروت نہ کیجیے
اصغر یگانہ نے اپنی فنی صلاحیتوں کے بل بوتے پران دونوں اصناف (غزل گوئی و نظم گوئی) میں خوب نام پیدا کیا ۔انہوں نے نظم کی تنگدامنی اور نظم کی وسعت دامانی پر حاوی ہونے کے عزم کو جواں رکھا ہے ۔ان کی نظمیں مختلف عنوانات پیغام بیداری ، گل رنگ کنول ، ہلال عید ، تاج محل ،شہیدوں کا لہو ، کشمیری عوام کی آواز ، یہ آج کا اخبار ہے ، اسلام کو خطرہ ہے ،نوائے وطن وغیرہ نظمیں جو ان کے جذبات کی بھر پور عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔
ان کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ ان کے ہاں جذبات محض جذباتیت تک محدود نہیں جسے کھوکھلے نعرے سے زیادہ وقعت نہیں دی جاتی ۔اور ایک کھوکھلا نعرہ وقت کی آواز تو کہلاتا ہے جو صرف سیاسی شعور کی ترجمانی کرتا ہے مگر وہ وقت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور فضا میں تحلیل ہو کر اپنا وجود اور سماعتی قوت کھو بیٹھتا ہے۔اس کی حیثیت ایک طوفانی نالہ سے بھی شاید کم ہوتی ہے مگر اصغر یگانہ کے ہاں ایسی صورت نہیں ہے ۔ان کے جذبات میں احساسات کی شدت شامل ہے جسے دل کی آواز اور شعور کی پیداوار کہا جا سکتا ہے جس کی تعمیر میں مشاہدات اور تجربات کی باوصف حقائق اور روزمرہ کے واقعات پوری طرح سمو دیے گئے ہیں۔
اصغر یگانہ نے “ہلال عید” کے عنوانات سے جو نظم لکھی ہے اس کا انداز مختلف ہے اس میں طنز و مزاح کے پس پردہ پند و پند و نصائح کے اظہار کو نہایت لطیف پیرائے کا ذریعہ بنایا گیا ہے ان کی نظم “تاج محل” مختصر سہی مگر انفرادیت کے حامل ہے ۔ساحر لدھیانوی نے بھی اس عنوان سے نظم لکھی ہے ۔ساحر لدھیانوی کا زور بیان سحر خیزی کا عمل رکھتا ہے ۔وہ نظم آج بھی تاج محل کی طرح خوبصورت اور مرصع ہے ۔اس لیے کہ مذکورہ نظم میں فنی محاسن اور مناقب عروج پر ہیں مگر ساحر کی سوچ یک رخی کا شکار نظر آتی ہے ۔اس کی نظم طبقاتی سوچ کو جنم دیتی اور نظریاتی فکر کا پرچار کرتی ہے ۔اصغر جگر کی نظم اس خامی سے مبرا ہے اس نے اپنی نظم “تاج محل” میں جان ڈالنے کی کدوکاوش کو کامیابی سے ہمکنار کیا ہے ۔”شہیدوں کا لہو” وہ بیگانہ کی خوبصورت اور اثر انگیز نظم ہے۔یہ نظم رجایت کا اعلی نمونہ ہے ۔اس میں حوصلگی کی بلندی اور حقیقت آفرینی کے امتزاج نے حسن پیدا کر دیا ہے ۔۔
دم نکلتا ہے کہیں جسم تڑپتا ہے کہیں
کہیں چیخیں ہیں’ کہیں آہ ، کہیں کچھ بھی نہیں
آسمانی ننگا ہے اور مہر کی کرنیں ننگی
دھرتی ننگی ہے اور اس دھرتی پہ لاشیں ننگی
ان کے کاندهون نے اٹھایا ہے غم زیست کا بار
ان کے خون اور پسینے سے بنا رنگ بہار
ان کا ہر اشک جلا دیتا ہے ایواں میں کنول
ان کی ہر “آہ “بناتی ہے کی “تاج محل”
دراصل اصغر یگانہ کچھ اس انداز سے نظم کہہ رہا ہے کہ انسانی جذبات و احساسات کی کتنی ہی سچی اور کھری کھری تصویریں تیار ہوگئی ہیں ۔معاشرتی اور نفسیاتی معموں کے کتنے ہی پیچ و خم کھل گئے ہیں ۔ایک یاد سے دوسری یاد کا دریچہ وا ہو گیا ہے ۔ایک نقطے سے دوسرے نقطے نے جنم لیا ہے۔آفاقی صدارتی افشا ہوتی ہیں اور یوں عبرت و غیرت اور بصیرت کے کتنے ہی دروازے کھلے ہیں جس سے اس کی شاعری کو نئی جہت اور نئے زاویے ملے ہیں اور وہ اپنی ہر کیفیت کا اظہار کچھ اس لہجے میں کرتا ہے کہ سچائیوں کے آ۔کس زمین پر کھڑا ہے اور آئینے میں منافقتیں مصلوب ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔اور اسے اپنی شناخت اور پہچان کے سیاق و سباق میں اپنے اصلی خدوخال کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا ہے ۔کس زمین پر کھڑا ہے اور کس معاشرہ میں زندہ ہیں اور یقینا یہی ادراک حقیقت یہی احساس کسی بڑی شاعری کی تخلیق کا باعث بنتا ہے ۔اور اسی حوالے سے اس کی شاعری بڑی شاعری ہے کیونکہ وہ وقت کے ہر دھارے پر ہر زمانے میں زندہ رہنے والی شاعری ہے اور یہ بات سوچنے کی نہیں محسوس کرنے کی ہے اور غالبا محسوسات کے بطن ہی سے بڑی شاعری جنم لیتی ہے ۔۔
وہ چشم یار جس میں رمق تھی شعور کی
ٹوٹے ہوئے دلوں کا وہی آسرا رہی
” نواۓ وطن “میں ان کا جوش و خروش جوبن پر ہے اس نظم میں مقصدیت اور روانی کا اختلاط تاثراتی فضا پیدا کر دیتا ہے یہاں اصغر یگانہ کی بیباکی اور دیدہ دلیری عود کر آتی ہے ۔وہ ایک سچے قلم کار کی طرح جذبات کی صحیح انداز اور راست سمے میں ترجمانی اور رہنمائی کرتے ہیں ۔اصغر یگانہ مجموعی طور پر عصر حاضر کے صداقت پسند شاعر ہیں ۔ان کے کلام میں جلال کی تابناکی اور جمال کا کیف و سرور دونوں کیفیات یکساں طور پر موجود ہیں ان کی آواز گرج دار ، رسیلی اور توانا ہے ۔ان کے دل میں نئی سحر کی روح ، راحت اور تابناک تنویر جلوہ گر ہے ۔اصغر یگانہ نے اکستانی قوم کو عزت ،وقار اور خود اعتمادی کا درس دیا۔ سماج معیشت اور معاشرت کے بدلتے ہوئے معائر کی روشنی میں اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اپنے حال کو بہتر بنانے اور روشن مستقبل کی منصوبہ بندی ہر محب وطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے ۔دیارِ غیر کے مکینوں کے معیارِ زندگی کی جانب للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے قناعت،خوداری ،عزتِ نفس اور شانِ استغنا کے ساتھ درخشاں مستقبل کی جانب پیش قدمی ہی سے قوم کے مقدر میں تبدیلی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ حریت ضمیر سے جینے کی روش اپنانے والے اس جری تخلیق کار نے قوم کو ولولۂ تازہ عطا کیا۔
نئے زمانے اور نئی صبح و شام دیکھنے کے آرزو مند ادب برائے ادب کے بجاۓ ادب زندگی پر زور دیا۔ نئے خیالات،متنوع تجربات اور نئے مضامین کے انتخاب سے اپنے منفرد اسلوب کو دھنک رنگ منظر نامہ عطا کیا۔ ان کی تخلیقات میں نئی تراکیب ،حسین پیرایۂ اظہار،دل کش استعارات،گہری معنویت کی حامل تلمیحات، حسین تشبیہات اور حسن و خوبی کے مظہر تکلم کے سلسلے نے ان کے اسلوب کو زر نگار بنا دیا ہے ۔ان کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات تاریخ ِادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کے اصلاحی اقدامات کی بنا پر ہر پاکستانی ان کا ممنون و مقروض ہے۔ان کی ایک نظم “یقین کامل ” یقین محکم اور خود اعتمادی کی ایک مثال ہے ۔۔
کفر بڑھتا ہے تو ہو جاتا ہے ایماں پیدا
خار کر دیتے ہیں خود سنبل و ریحاں پیدا
ظلمتیں بڑھ کے ستاروں کو جگا دیتی ہیں سسکیاں نغمہ جاوید سنا دیتی ہیں
عالم تیرگی سورج کے قدم لیتا ہے
موت کی گود میں انسان جنم لیتا ہے
ٹھوکریں کھاتا ہے ہر شخص سنبھلنے کے لیے
آدمی مرتا ہے دنیا کو بدلنے کے لیے
اصغر یگانہ کا انداز بیان اور ڈکشن کافی حد تک کلاسیکی ہے ۔ساحر و فیض اور ندیم و فراز کی شاعری کی طرح ان کا انداز دیرپا ثابت ہوتا ہے ۔
عاصی کرنالی کے کہنے کے مطابق
“اصغر یگانہ ان شعراء کی صف میں ہیں جو اپنے سینے میں درد مند دل رکھتے ہیں اور غم جاناں سے آگے بڑھ کر غم انسان کی بات کرتے ہیں ۔”
ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے اصغر یگانہ نے اپنی ملت، وطن ،اہلِ وطن اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ اپنا مطمح نظر بنایا۔ بے حس معاشرے سے بدلہ لینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے زندگی کے تلخ ،تُند و درشت حقائق کی ترجمانی کرتے وقت کوئی لگی لِپٹی نہ رکھی جائے اور الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے جبر کے ہر انداز کو پائے استقامت سے ٹُھکراتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا جائے۔ اصغر یگانہ کی سوچ ہمیشہ تعمیری رہی ہے اور وہ سب احباب سے اخلاق اور اخلاص سے لبریز برتاؤ کرتے ہیں ۔کسی کی عیب جوئی یا تخریب سے انھوں نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا ۔ بے ہنراورکینہ پرور لوگوں کی سبک نکتہ چینیوں سے بھی وہ دِل برداشتہ نہ ہوئے بل کہ ایک نئے عزم اور بھر پور حوصلے سے اپنے تخلیقی کام کو آگے بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتے ہیں ۔ ان کے احباب کی متفقہ رائے ہے کہ ایسے نازک مواقع پر اصغر یگانہ کی خاموشی بھی تقریر کی ایک نا گزیر صورت کے روپ میں فکر و خیال کو مہمیز کر دیتی ہے ۔ اصغر یگانہ سے مِل کر زندگی سے حقیقی محبت کے جذبات کو نمو ملتی ہے ۔وہ صداقت ،حق گوئی اور بے باکی کو زندگی کے توازن کی امین ایک اہم قدر سے تعبیر کرتے ہیں۔
گم ہے تدبر سوچ میں چشم خرد حیران ہے
اس دور استبداد میں مرنا بہت آسان ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیوریاں جہد مسلسل کا پتہ دیتی ہیں
نظریں اک صبح درخشاں کو صدا دیتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس شخص نے لگائی ہے سارے چمن میں آگ
پتوں میں آگ اور ہے سرو سمن میں آگ
ایسی ہوا چلی ہے کہ شعلے بھڑک اٹھے
پھرتے ہیں گلبدن بھی لیے پیرھن میں آگ
آتش بجاں ہے عالم احساس کی فضا
اب شہر شہر آگ ہے صحرا و بن میں آگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہراہوں اور چوراہوں پہ لوگوں کے ہجوم کیا نظر آتا ہے ان میں کوئی انساں دیکھئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...