1965ء میں روزنامہ امروز میں میری ان سے جان پہچان ہوئی اور بہت جلد ایک کبھی نہ ٹوٹنے والے تعلق میں بدل گئی۔ ٹریڈ یونین الیکشنوں کے معرکوں اور ہڑتالوں کے ہنگاموں میں قدم قدم پر میں ان کے ساتھ رہا۔ یحییٰ دور میں پی پی ایل کی ہڑتال ناکام ہونے پر عبداللہ ملک، آئی اے رحمن، اے ٹی چودھری مرحوم، منہاج برنا، حمید اختر، محمود بٹ اور میرے علاوہ 6 پریس ورکر برطرف ہوئے تھے۔ وہ دن اس وقت بڑے اذیت ناک لگتے تھے اور اب دلچسپ یادوں میں بدل گئے ہیں۔ رحمن صاحب ، ملک صاحب اور میں دن میں اپنے بیروزگار ساتھیوں کیلئے چندہ جمع کرتے تھے اور رات گئے تک اپنے وکیل کے دفتر میں گھنٹوں ڈیوٹی بھی دیتے تھے۔ وکیل صاحب ہمیں چائے تک نہیں پوچھتے تھے اور ہم مسلسل پانی پلا پلا کر بھوک سے بے حال جاتے تھے۔ 1970ء کا روزنامہ ’’آزاد‘‘ حمید اختر صاحب،عبداللہ ملک صاحب، آئی اے رحمٰن صاحب اور میں نے مل کر نکالا تھا۔ ملک صاحب پراُمید تھے کہ ملک دو ٹکڑے نہیں ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں ان کی خواہش تھی کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن میرا خیال بلکہ اصرار تھا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ والی سرخی پر مرحوم مجھ سے بہت ناراض ہوئے اور میں معروضی حقائق اور واقعات کو گواہ بنانے کے باوجود انہیں اپنے دلائل سے قائل نہیں کر سکا کہ پاکستان دو حصوں میں بٹ جائے۔
میری یہ سرخی نہ صرف ملک کی صحافتی تاریخ کا حصہ بنی بلکہ بھٹو صاحب کیلئے اس طعنے کی بنیاد بن گئی کہ انہوں نے ’’ادھر تم، ادھر ہم‘‘ کہہ کر ملک کو دو ٹکڑے کروا دیا۔ یہ سرخی میں نے نشتر پارک کراچی کے جلسہ میں بھٹو صاحب کی ایک تقریر کے چند جملوں کی تشریح اور تاثر میں سے اخذ کی تھی۔ اس میں میرا اپنا یہ تجزیہ بھی شامل تھا کہ پاکستان دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ ملک ٹوٹنے کے بعد میری یہ سرخی بھٹو صاحب پر فرد جرم بن گئی۔ الشمس اور البدر جیسی تنظیموں کی سرپرستی کرنے والی جماعت اسلامی کے لیڈروں سمیت پیپلز پارٹی کی تمام مخالف جماعتوں نے ایوب خان کی ناانصافیوں سے پیدا ہونے والی محرومیوں اور آخر میں نہتے مشرقی پاکستانی شہریوں پر ٹینکوں اور توپوں سے فوج کشی، قتل عام اور نسلیں بدلنے جیسے جرائم سمیت اس سانحہ کے اصل محرکات ایک طرف رکھ دئیے اور میرے جوڑے ہوئے چار الفاظ کو ملک ٹوٹنے کا سبب بنا دیا۔ یہ لفظ بھٹو صاحب نے کہے ہی نہیں تھے۔ اس سرخی کا پس منظر یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمن سرحد اور بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ مل کر اپنے 6نکات پر مبنی آئین بنانا چاہتے تھے جس کا مطلب پاکستان کو 5ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا۔ میں اس قصے کو آئندہ کبھی پوری تفصیل سے لکھوں گا لیکن فی الحال میں پیپلز پارٹی میں بھٹو صاحب کے سیاسی وارثوں کو جو میری سرخی کا طعنہ سن کر چپ ہو جاتے ہیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ مجیب الرحمٰن کے 6نکات اور 70ء کے عام انتخابات سے لیکر شکست مشرقی پاکستان تک کے اخبار پڑھ لیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ بھٹو صاحب نے ملک کے دو ٹکڑے نہیں کروائے اسے 5ٹکڑوں میں بٹنے سے بچا لیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی شکست کے بعد اندرا گاندھی مغربی حصہ کو بھی ٹکڑوں میں بانٹنے پر تلی ہوئی تھیں لیکن پاکستان روانگی سے پہلے بھٹو صاحب نے صدر نکسن کو اس باقی ماندہ پاکستان کے وجود کی اہمیت کا قائل کیا اور امریکہ نے سخت ترین کارروائی کی دھمکی دیکر بھارتی فوج کو جنگ بندی پر مجبور کردیا۔ بھٹو صاحب ہماری تاریخ کے مقبول ترین اور مظلوم ترین لیڈر تھے۔ شورش کشمیری مرحوم نے اپنے رسالے میں ان کا ایک فرضی شجرہ نسب چھاپا جس میں ان کی والدہ کو ہندو کہا تھا اور بھٹو کو مرحومہ کے پہلے شوہر کی اولاد قرار دے کر یہ بھی لکھا تھا کہ ان کا پیدائشی نام گھاسی رام تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھٹو صاحب نے شورش کاشمیری مرحوم سے یہ ’’انتقام‘‘ لیا کہ انہیں غیر معمولی مالی فائدے دئیے۔ دوسرے لفظوں میں شورش صاحب نے جو مانگا، دے دیا اس کے باوجود بھٹو صاحب کو منتقم مزاج کہا جاتا ہے۔