ادھم سنگھ کو اپنی قسم پوری کرنے میں 21 سال لگے
13اپریل، 1919 کو شام ساڑھے پانچ بجے امرتسر کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے دو بکتر بند گاڑیاں جلياں والا باغ کے قریب ایک پتلی سی گلی کے سامنے ركيں۔ گاڑیاں آگے نہیں جا سکتی تھیں کیونکہ وہاں پر صرف دو لوگوں کے ہی ایک ساتھہ گزرنے کی جگہ تھی۔
ایک گاڑی پر بریگیڈیئر جنرل ریجنلڈ ڈائر اپنے میجر مورگن برگز اور اپنے دو برطانوی سارجنٹ اینڈرسن اور پزی کے ساتھہ سوار تھا۔
گاڑی سے اترتے ہی اس نے رائفلوں سے لیس 25 گورکھا اور 25 بلوچ فوجیوں کو اپنے پیچھے آنے کا حکم دیا اور صرف کھکھری سے لیس 40 فوجیوں کو باہر ہی کھڑے رہنے کے لیے کہا گیا۔
جنرل ڈائر نے باغ میں داخل ہوتے ہی میجر برگز سے پوچھا: 'آپ کے اندازے میں کتنے لوگ اس وقت یہاں پر موجود ہیں؟'
برگز نے جواب دیا: 'تقریباً پانچ ہزار۔' بعد میں اس نے پنجاب کے چیف سیکریٹری جے پی ٹامسن کو بتایا کہ گولی چلانے کا فیصلہ کرنے میں اسے صرف ’تین سیکنڈ لگے‘۔ اس وقت سٹیج پر بینک کے کلرک برج بیكال اپنی نظم 'فریاد' سنا رہے تھے۔
اس وقت ایک ہوائی جہاز بھی بہت نیچی پرواز کرتے ہوئے جلسے کے اوپر سے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔ فوجیوں کو دیکھتے ہی کچھہ لوگ وہاں سے اٹھنے لگے۔ تبھی سبھا کے ایک آرگنائزر ہنس راج نے چلا کر کہا: 'انگریز گولی نہیں چلائیں گے اور اگر چلائیں گے بھی تو گولیاں خالی ہوں گی۔'
لیکن اس سے لوگوں کا خوف کم نہیں ہوا اور لوگ بھاگنے لگے۔
جنرل ڈائر نے بغیر کسی انتباہ کے، وہاں پہنچنے کے 30 سیکنڈ کے اندر اندر، چلّا کر حکم دیا، 'فائر'۔
لوگ ڈر کر ہر سمت میں بھاگنے لگے لیکن انہیں باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں ملا۔ سارے لوگ تنگ گلی کے دروازے پر جمع ہوکر باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔
ڈائر کے فوجیوں نے ان کو اپنا نشانہ بنایا۔ لاشیں گرنے لگیں۔ بہت سے لوگ بھگدڑ میں دب کر ہلاک ہو گئے۔ کئی جگہ ایک کے اوپر ایک، دس سے بارہ لاشوں کا انبار لگتا چلا گیا۔
بہت سے لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر فرار ہونے کی کوشش کی اور فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ بھیڑ میں موجود کچھ سابق فوجیوں نے چلا کر لوگوں سے لیٹ جانے کے لیے کہا، لیکن ایسا کرنے والوں کو بھی پہلے سے لیٹ کر پوزیشن لینے والے گورکھاؤں نے نہیں بخشا۔جنرل ڈائر خود دوڑ دوڑ کر اس طرف فائرنگ کرنے کا حکم دے رہے تھے جہاں زیادہ لوگ جمع ہو رہے تھے۔
گولیوں کی بوچھاڑ کے درمیان ہی کچھہ لوگوں نے ایک کنویں کی آڑ لینے کی کوشش کی۔ بہت سے لوگ کنویں میں کود کر پانی میں ڈوب بھی گئے۔
بعد میں پولیس انسپکٹر ریہل اور جواهر لال نے ہنٹر کمیٹی کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا تھا: 'لوگوں کے فرار کی وجہ سے فضا میں پیدا ہونے والی دھول اور خون ہی خون تھا۔ کسی کی آنکھہ میں گولی لگی تھی تو کسی کی انتڑیاں باہر آ گئی تھیں۔ ہم اس قتل عام کو دیکھہ نھیں پائے اور باغ سے باہر چلے آئے۔
ڈائر نے بالآخر فائرنگ تب روکی جب انھیں لگا کہ فوجیوں کے پاس بہت کم گولیاں بچی ہیں۔
فائرنگ روکنے کے بعد ڈائر اپنی گاڑی تک پیدل چل کر گیا اور رام باغ واپس چلا گیا . اس نے زخمیوں کے علاج کیلئے کوئی اہتمام نہ کیا۔
گولیوں کے خولوں کی تعداد 1،650 پائی گئی۔
ہنٹر رپورٹ کے مطابق، ڈائر نے اندازہ لگایا کہ تقریباً 200 سے 300 افراد ہلاک ہو گئے ہوں گے، لیکن بعد میں اس نے تسلیم کیا کہ مرنے والوں کی تعداد 400 سے 500 کے درمیان رہی ہوگی۔
باغ سے ملحق مکانات میں رہنے والے ایک قصائی محمد اسماعیل اس وقت اپنے گھر کی چھت پر کھڑے تھے۔انھوں نے کانگریس کی تفتیشی کمیٹی کو بتایا: ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ میرے حساب سے تقریباً 1،500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔خیرالدین تیلی بھی مرا پڑا تھا۔ اس کے ہاتھہ میں اس کا چھہ یا سات ماہ کا بچہ بھی تھا۔'
آٹھہ بجے کے بعد پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ اگلی صبح تک زخمی بغیر كسی طبّی مدد کے وہیں پڑے رہے۔انسانی خون کی بو پا کر کچھہ آوارہ کتے جلياں والا باغ پہنچ گئے اور پوری رات انھوں نے ادھر ادھر بکھری لاشوں کو کھایا۔
جب ڈائر، مورگن اور ارون نے رات ساڑھے دس اور آدھی رات کے درمیان شہر کا دورہ کیا تو شہر مکمل طور پر خاموش تھا۔ جی ہاں باغ میں زخمی لوگ آہستہ آہستہ دم توڑ رہے تھے، لیکن پورے شہر میں ایک منحوس سناٹا چھایا ہوا تھا۔
بعد میں نہرو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا: 1919 کے آخر میں میں رات کی ٹرین سے امرتسر سے دہلی آ رہا تھا۔ صبح مجھے پتہ چلا کہ میرے ڈبے کے سارے مسافر انگریز فوجی افسر تھے۔ ان میں سے ایک آدمی بڑھ چڑھ کر اپنی بہادری کے قصے بیان کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی مجھے پتہ چل گیا کہ وہ جلياں والا باغ والا جنرل ڈائر تھا۔وہ بتا رہا تھا کہ کس طرح اس نے پورے باغی شہر کو راکھہ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔
جنرل ڈائر کو کوئی سزا تو نہیں دی گئی، لیکن وقت سے دو سال پہلے ہی ریٹائر کر دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ بھارت میں وہ اب کوئی کام نہیں کر پائے گا۔
20 اپریل، 1920 کو وہ انگلینڈ کے لیے روانہ ہوا، جہاں سات سال بعد 23 جولائی، 1927 کو اس کا انتقال ہو گیا۔
قتل عام کے بعد، سنگرور ضلع کے سنام گاؤں میں پیدا ہونے والے ایک نوجوان شخص نے اس کا انتقام لینے کی قسم کھائی۔
اس نوجوان ادھم سنگھہ کو وہ قسم پورا کرنے میں 21 سال لگ گئے۔ 13 مارچ 1940 کو لندن کے كیكسٹن ہال کے ایک اجتماع میں اس نے اپنی پستول سے ایک کے بعد ایک چھہ فائر کیے۔
دو گولیاں وہاں موجود ایک شخص کو لگیں۔ وہ وہیں پر گر گیا اور پھر کبھی نہیں اٹھا۔
اس کا نام تھا سر مائیکل او ڈائر۔
وہ جلياں والا باغ قتل عام کے وقت پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا اور اس نے جنرل ڈائر کی طرف کی جانے والی فائرنگ کی کارروائی کو ایک صحیح قدم بتایا تھا۔ (BBC)
تصاویر: بریگیڈیئر جنرل ریجنلڈ ڈائر ، امرتسر کے جلیاں والا باغ میں یادگارِ شہدأ اور ادھم سنگھہ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“