میں بہت کم ٹی وی ڈرامے دیکھتا ہوں مگر میری محترمہ دن میں دو کام بہت لگن سے کرتی ہیں ایک نماز پڑھ کر قران کی تلاوت کرنا ،لوگ تو صرف پانچ نمازیں پڑھتے ہیں محترمہ کو شک ہے کہ لوگ نماز نہیں پڑھتے لہذا یہ ان کے حصے کی نمازیں بھی پڑھتی رہتی ہیں اور دوسرا کام ٹی وی کے ڈرامے دیکھنا اور پھر ساتھ ساتھ برے کام کرنے والے کرداروں پہ تبصرے کرتے رہنا۔۔ خاص طور پہ ایسا خاوند جو باہر سیر پہ بہت جاتا ہو ۔۔ وہ وقت مجھ پہ بہت برا وقت ہوتا ہے جب کسی ڈرامہ میں اس وقت کوئی خاوند کسی اور کے ساتھ ایسی سیر کرتے ہوئے پکڑا جا رہا ہو اوراگر میں بد قسمتی سے اپنے کمرے سے چائے لینے باورچی خانے جاتے ہوئے دو منٹ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاوں ، بس پھر ڈرامے میں دوسرے کردار جو جو اس خاوند کو کہہ رہے ہوتے ہیں میری محترمہ وہی مکالمے اونچی اونچی آواز میں دہرا رہی ہوتی ہیں اور میں چائے لے کر اپنے کمرے میں جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہوں
آج کل دو ڈرامےہماری پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتی ہے ایک ( کون کرے میری رفو گری ) کیونکہ اس میں میری دوست عصمت طاہرہ کی بیٹی مرکزی کردار ادا کر رہی ہے اور دوسری وجہ اس میں عثمان پیرزادہ ایک ایسے باپ کا کردار ادا کر رہا ہے جوخاندان جھوٹی کی عزت کے نام پہ اپنی بیٹی پہ بے انتہا ظلم و تشدد کرتا ہے
دوسرا ڈارمہ ( اُڈاری ) اس کی پہلی قسط نے ہی ساری فیملی کو ہی اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور سب نے مجھے بھی مجبور کیا کہ میں بھی یہ ڈرامہ ان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھوں ۔۔ اس میں تمام کرداروں نے بہت ہی زبردست کام کیا ہے ۔۔ میرے اس ڈرامہ دیکھنے میں دو دلچسپیاں ہیں ایک تو اس میں لکھے گئے مکالمے اداکاروں کی اداکاری اور دوسری یہ معاشرہ جو نچلی سمجھی جانے والی ذاتوں سے وابستہ لوگوں سے سلوک کرتا ہے اور جو ان لوگوں کے بارے خیالات رکھتے ہیں ۔۔ جو آخری قسط میں نے دیکھی اس میں ایک خالو اپنی بھتیجی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایک سوتیلا باپ اپنی بیٹی پہ بری نظر رکھتا ہے ۔۔ میں نے گھر والوں کو اسی وقت کہہ دیا تھا کہ مجھے نہیں لگتا یہ ڈرامہ چل پائے گا اور آج ہی پتہ چلا کہ پیمرا نے اس پروڈکیشن بنانے والوں کو نوٹس جاری کر دیا ہے کہ اس ڈرامے سے والدین غصہ کا شکار ہو رہے ہیں کیوں نہ اس ڈرامے کو بند کر دیا جائے ۔
میرا خیال ہے اس بات پہ اب مزید بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ افسانہ ، ناول ڈرامہ یا فلم نہ تو سو فیصد حقیقت پہ مبنی ہوتا ہے اور نہ سو فیصد خیالی
ہمارا معاشرہ ایک منافق معاشرے میں تبدیل ہو چکا ہے ہم ہر ایک کو ہر وہ کام کرنے کی اجازت دیتے جو انسانیت کہ منہ پہ ایک بد نما داغ ہو مگر ہم کہتے ہیں دروازہ بند کر کے اس کے آگے موٹے ٹاٹ کا پردہ ڈال کر آپ کرتے رہیں ۔۔
لہذا دروازہ اور روشندان بند کر کے موٹے ٹاٹ کا پردہ دروازے پہ ڈال کر باپ اپنی بیٹیوں کے ساتھ بھائی اپنی بہینوں کے ساتھ سسر اپنی بہووں کے ساتھ اپنی جنسی تسکیں کا پانی نکال رہے ہوتے ہیں ۔۔ اور اگر یہ پانی کوئی گوشت کا لوتھڑا بن جائے تو اسے گندی نالی میں بہادیتے ہیں یا اس گوشت کے لوتھڑے کو کسی مسجد کی سیڑھیوں پہ رکھ آتے ہیں جس کو نمازی دن کی نماز فجر پڑھنے سے پہلے اینٹوں سے سنگسار کر دیتے ہیں ۔ اگر کوئی ایسے کرداروں کو بے نقاب کرنے کے لیے کوئی افسانہ لکھے فلم بنائے تو اس سے ہمارے مذہب ہمارے ملک کی بد نامی ہوتی ہے اور والدین کے ماتھے پہ شکنیں پڑ جاتی ہیں ۔۔
اگر کوئی مرد اپنی بہن ماں محبوبہ یا بیوی کہ منہ پہ تیزاب ڈالے تو اس سے ہماری کوئی بد نامی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی اس کردار پہ فلم بنائے اور دنیا اس کے کام کو سہرائے تو ہمارے اوریا ہمارے عباسی اپنے غیرت نما قلم لے کے اخبارات کے صفحے چیرنے پھاڑنے لگ جاتے ہیں اور اپنی غیرت شدہ زبانیں لے کر ٹی وی شو میں آ جاتے ہیں
مگر اس وقت ان کی غیرت ان کے مذہب کو کچھ نہیں ہوتا جب ایبٹ آباد میں ایک لڑکی کو باندھ کر ویگن میں بیٹھا کر جلا دیا جاتا ہے ۔۔
ہمیں بے حیائی مغرب کے سمندر کناروں میں تو نظر آتی ہے ان کے نائٹ کلبوں میں تو نظر اتی ہے جہاں کوئی کسی کی اجازت کے بغیر آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا
امریکہ میں چرچ کے پادری ، بچوں کے ساتھ جو جنسی زیادتی کرتے تھے امریکہ میں اس موضوع پہ فلم بنی جس کو بہت سے آسکر ایوارڈ بھی ملے یہ فلم بنانے والا امریکی تھا اس کا ہدایت کاربھی امریکی تھا اس میں تمام اداکار بھی امریکی تھے مگر کسی نے نہیں کہا یہ غدار ہیں اس فلم سے امریکہ کی بے عزتی ہوئی ہے ۔
مگر ہمارے ہاں خالو اپنی بھتیجی کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کرتا ہے جو سوتیلا باپ اپنی بیٹی پہ بری نظر ڈالتا ہے جو باپ اپنی بیٹی کے ساتھ ، بھائی اپنی بہن کے ساتھ سسر اپنی بہو کے ساتھ ٹاٹ کے پیچھے گھناونا کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں مگر ان لوگوں کے گھروں کے دروازوں پہ جو ٹاٹ کے پردے لٹکے ہوتے ہیں اگر کوئی ان پردوں کو گرانے کی کوشش کرے تو اس سے ہمارا ملک ہمارا مذہب بدنام ہوتا ہے ہمارے والددین کو بھی غصہ آ جاتا ہے
نوٹ ۔۔ میں مرزا یاسین بیگ کا مشکور ہوں کہ یہ مضمون میں نے ان ہی کی پوسٹ پڑھ کر لکھا ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...