اُچے ٹِبّے پنڈ بسوہلی
نیڑےجموں شہر سُنیندا
کِسےکُڑی دی گوری ہک تے
کالے تِل دے وانگ دسیندا
ـــ
اگوکی کی کہانی 12
پنڈت کلہن کی راج ترنگنی میں سرینگرکی گرمیوں کی دوپہروں میں وِتاستا کےٹھنڈےمیٹھےپانیوں میں گھُلتی بہتی برف کی سِلوں کاذکرہے، وِتاستاجسےہم آپ دریائےجہلم کےنام سےجانتےہیں۔
کشمیرکی دلربا وادی کی تاریخ اور جغرافیے کی ضخیم اور منظوم کتھا راج ترنگنی اپنی روایتوں کی صحت ساتویں آٹھویں صدی میں میں ترتیب دیے ہندومت کے مذہبی کم تاریخی صحیفے نیلمت پران سے جوڑتی ہے۔
توصاحبو نیلمت پران کے اشلوک ہمیں بتاتے ہیں کہ گئے وقتوں میں شِو دیوتا کی اوما دیوی نے ایک پوترتا میں پانی کا روپ دھار چندربھاگ (چناب) اور اراوتی (راوی) کے دریاؤں کے بیچ کی زمینوں کو دیویکا ندی بن سیراب کیا۔ جموں اور ادھم پور کے پہاڑوں کی ترائی سے بہتی یہ دیویکا ندی وہی ہے جس کے پانی پنجاب کی زمینوں کو پلٹتے ڈیگھ ندی کا روپ دھارتے ہیں۔
وہی ڈیگھ جو سیالکوٹ کے سرحدی قصبے ظفروال کے پاس پاکستان میں داخل ہوتی ہے تو اس کے بل کھاتے پانی جبکہ مون سون میں ان پانیوں کے بہنے کا موسم ہوتا ہے کھڑی چاول کی فصل کے نموکی نوید لاتے ہیں۔
برطانوی راج کے افسر شاہی روزنامچے (گزیٹیئر) بتاتے ہیں کہ لاہور کی سرحد کے پاس اس ندی کے خونخوار پانیوں کی نسبت سے اس کا نام باگھ بچہ مشہور تھا کہ اس کے پانی کوٹ پنڈی داس کی آبی گزرگاہ کے پاس پنجابی محاورے کے مطابق ہرسال بندہ بلکہ بندے لیتے تھے۔ اسی گاؤں پنڈی داس کے پاس سیر اور شکار سے پلٹتے ہمارے مغل شہنشاہ جہانگیر کے کارروان کو مون سون کی بارشوں میں ڈیگھ کے سیلاب نے آلیا تھا اور شاہی قافلہ تین دن تک ڈیگھ ندی کے کنارے پڑاؤ ڈالے پانی کے بہاؤ کے ٹھہر جانےکا انتظار کرتا رہا۔ شاہی قافلے پر پڑی افتاد کے سبب جہانگیری فرمان کی رو سے کوٹ پنڈی داس کی آبی گزرگاہ پر ایک پُل تعمیر کیا گیا۔
اگر آپ آج کی تاریخ میں لاہور سے جی ٹی روڈ کے مسافر ہیں تو کالا شاہ کاکو کے ٹال پلازے پر ایک اکتائے ہوئے بُوتھ آپریٹر کو تاوان بھر لینے کے بعد تھوڑا آگے جاتے ہیں تو داہنے ہاتھ چک نمبر 44 کے سٹاپ سے تھوڑا اندر ہوتے ہی باہمن والی پُل کی باقیات آج بھی کھڑی ہیں۔
ہم جموں کے پہاڑوں کی ترائی سےچلتی ڈیگھ کےمسافرہوئےتواس کےپانیوں کی رومیں بہتےلاہوراورشیخوپورہ کی سرحدتک چلےآئے۔ ڈیگھ کےپانی توچلتےچلےجائیں گےاورکل کےمنٹگمری اورآج کے ساہیوال کی حدود میں انجام کار راوی کےبہاؤ کاحصہ بنیں گےمگر ہماری آج کی داستان ڈیگھ کے پانیوں کے بارے میں نہیں ہے۔
یہاں سے ہم واپس سیالکوٹ کی سرحدی زمینوں کو پلٹتے ہیں جہاں ہماری مٹیار ظفروال کی کمر کے بل پر ڈیگھ ندی مڑا کرتی تھی اور وہیں کہیں لہڑی بند کے اِس پار کسی کی ہنسی سُن سُن کر کرنل باسمتی کی فصل پکا کرتی تھی۔ وہی لہڑی بند جو ظفروال کی قربت میں اپنے ہم نام گاؤں سے شروع ہوتا سامنےکی پاک بھارت سرحد سےایک محتاط فاصلہ رکھتااسی سرحدکے کھنچےخطِ شکست کی پیروی کرتاشِوکماربٹالوی کےگورےدن کی کرنوں والےچھینبےسپ(سانپ)کی مانندایک نشیلی لچکیلی لہر دارڈگرمیں چلتاشکرگڑھ کی اورمشرق اورجنوب مشرق کی زمینوں کونکل جاتاہے۔ اسی لہڑی بندپرعباسیہ کی ڈائریکٹ سپورٹ پلٹن کےمورچےتھے۔
صاحبو پاک بھارت جنگوں کے تناظر میں اس ڈیگھ ندی کی ایک دفاعی افادیت بھی ہے۔ فوجی نقشوں پر دو ڈویژنوں کو تقسیم کرتی ڈیگھ کے اطراف پینسٹھ اور اکہتر کے معرکوں میں ہندوستانی رسالے نے پیش قدمی کی اور شکرگڑھ بلج (ابھار) نے چونڈہ اور بسنتر کے خون آشام معرکے دیکھے۔
اگوکی کی ایک پچھلی داستان میں ہم اپنے پڑھنے والوں کو 35 فرنٹیئر فورس چارجنگ بلز اور لیفٹیننٹ کرنل اکرم راجہ شہید، ہلالِ جرات کی کہانی سناتے، جرپال بڑا پنڈ کی زمینوں میں لے آئے تھے۔ بڑاپنڈ جرپال کا جڑواں گاؤں ہے۔
لنک
بڑا پنڈ نے اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں آرمرڈ کور (رسالے) کے حملوں کے حوالے سے شہرت پائی اور اگر پاکستان کے نقطۂ نظر سے دیکھاجائےتو جہاں عسکری پنڈت اس جنگ سےسیکھےجانے والےسبق اخذکریں گےہمارا رسالہ بڑا پنڈکوبھول جانےکوترجیح دےگا۔ ہم بھی آج بڑا پنڈ کوجنگ کےروزنامچے کے حوالے سے نہیں بلکہ ایک اور بھلی سی نسبت سے یاد کریں گے۔
بڑا پنڈ جب اس نام سے کم اور لوہٹیاں کے نام سے زیادہ جانا جاتا تھا اور یہاں سے جموں کی صرف روشنیاں ہی نظر نہیں آتی تھیں بلکہ لوگ ظفروال سے براستہ درمان بلا روک ٹوک جموں آتے جاتے تھے تو ہمارے اس گاؤں میں پنجابی زبان کے جواں مرگ شاعر، جسےہمارےدوست محمدحسن معراج پنجابی زبان کاجان کیٹس کہتےاورمانتےہیں، ساڈےبرہاں دےسلطان نےآنکھ کھولی تھی۔ بڑا پنڈلوہٹیاں شِو کمار بٹالوی کا آبائی گاؤں ہےجہاں وہ پیداہوئے۔ بٹوارےکےبعد سرحدپار کےمہاجر ہوئےتو بٹالہ آکےٹھہرے اورشِو کمارکی نسبت سے شہرت کی دیوی بھی بٹالے پر مہربان ہوئی۔
آج کے یوٹیوب ولاگرز سرحد کی ہمسائیگی میں لوہٹیاں کی اپنی یاترا کو فلماتے ہیں تو گاؤں والے ایک مان کے ساتھ شِو کمار بٹالوی کے آبائی مسکن کی کچھ محفوظ یادگاریں دکھاتے ہیں۔ اپنے جس سپوت پر آج کا پنجاب ناز کرتا ہے 75 برس قبل کے بٹوارے میں اس کے خاندان کو پنجاب کی دو نوزائیدہ شناختوں میں سےایک کواپنانےکوہجرت کرنی پڑی تھی کہ سرحدکےاِس طرف کےپنجابیوں نےان بدمذہبوں پرعرصۂ حیات تنگ کردیاتھا۔ لوہٹیاں کاشِوکمارجب شکرگڑھ ٹپ بٹالہ آگیا تب بھی بڑا پنڈ سے دکھتی جموں کی پہاڑیوں کو نہیں بھولا۔ جموں جس کے پہاڑوں کی ترائی سے اوما دیوی پانی کے روپ میں ڈیگھ بن کر اترتی ہے تو دوسری طرف توی کے پانی پیتا پنڈ بسوہلی ہے جس کے اُچے ٹبے ہیں اور جس پنڈ بسوہلی اور جموں کو یاد کرتے بڑا پنڈ اور بٹالے کے شَوکُمار نے اپنی نظم چُمن لکھی تھی
اُچے ٹبے پنڈ بسوہلی
نیڑے جموں شہر سُنیندا
کسے کُڑی دی گوری ہِک تے
کالے تِل دے وانگ دسیندا
روز توی دے پانی پیندا
بارش کھُل کے برسی ہو اور موسم صاف ہو تو لہڑی بند سے جموں کی پہاڑیاں صاف نظر آتی تھیں اور اونچے ٹبوں والا پنڈ بسوہلی جو نظر تو نہیں آتا تھا مگر وہیں کہیں تھا۔ وہی لہڑی بند جہاں ہماری ڈائریکٹ سپورٹ انفنٹری پلٹن کے مورچے تھے۔
اپنے بیٹری کمانڈر میجر علی رضا نقوی کے ساتھ رابطہ سازی ملاقاتوں پر اکثر ہمارا لہڑی بند جانا ہوتا۔ جاتے وقت ہم کمانڈ پوسٹ سے بیٹری کمانڈر ٹیلی سکوپ لیتے جاتے اور لہڑی بند کی نمایاں بلندی سے سامنے کی زمینوں کی دید بانی کرتے نقشوں کو زمین سے اور ہردو کو شمال سے ملاتے۔
مقصد اپنی مار کے علاقے میں دشمن کی متوقع نقل و حمل کے حساب سے چنے گئے ٹارگٹوں کی دہرائی اور ان سے متعلقہ معلومات کی درستی تھی۔
دفاعی افادیت کی زمینی قراولی (قراولی زمینی دیکھ بھال کا فوجی مترادف ہے اور یہ جناتی ترکیب اصل لفظ سے کہیں زیادہ کریہہ الصوت اور مشکل ہے) سے فراغت ملتی تو اکثر پورے چاند کی راتوں میں بی سی ٹیلی سکوپ کا لینس چاند کو فوکس کرتا کہ میجر نقوی کو اجسامِ فلکی ستاروں اور سیاروں سے خاص شغف تھا۔ یہیں ہم نے چاند کے گڑھوں کو فوکس کرکے بہت نزدیک سے دیکھا، اتنا نزدیک کہ جیسے ہاتھ بڑھاتے ہی چھو لیں اور اپنے بچپن کے اس تاثر پر مزید پختہ ہوگئے کہ چاند پر چرخہ کاتنے والی مائی نہیں بلکہ ایک خرگوش رہتا ہے جو ایک مشغولیت سے اپنے پنجوں میں جکڑی گاجر کو کترنے میں مگن ہے۔
ان دنوں ہرمن جیت نے ابھی رانی تت نہیں لکھی تھی اور من پریت نےابھی ان نظموں کو گٹار کے سُروں میں نہیں پرویا تھا ورنہ ہم بھی بی سی ٹیلی سکوپ کے جلو میں لہڑی بند کی رومانوی چاندنی راتوں میں گنگناتے پھرتے
لپیٹاں ریشماں اندر میں تیرے عیب وی سوہنے
کہ چن دے داغ دھوون نوں کسے دا جی نہیں کردا
میجر نقوی تو اقبال کے مومن کی عملی تفسیر تھے کہ یہاں ’ مومن کي يہ پہچان کہ گم اس ميں ہيں آفاق‘ والا معاملہ تھا۔
ایک جونیئر لفٹین ہونے کی رعایت سے ہماری پہنچ ابھی زمین تک ہی محدود تھی۔ موقع ملنے پر ہمارے لیے ٹیلی سکوپ کا عدسہ لہڑی بند کے متوازی ہی رہتا ہاں مگر بھٹکتی پھسلتی چھچھلتی ہوئی نظر سرحد پار نکل جاتی۔ بارش کُھل کے برس جانے کے بعد چھٹتے بادلوں کےساتھ جب فضامیں معلق گردبھی ہوا ہوجاتی تو جو منظر دُھل کے نکلتا اس میں پیر پنجال کے پہاڑ صاف نظر آتے۔ جموں سے شمال کی سمت ایک عمودی چڑھائی چڑھتی دیویکا مندر کو چھوتی ادھم پور جاتی سڑک لشکیں مارتی اٹھلاتی چلتی چلی جاتی۔ جموں سے ہی پوربی دشا کو پلٹتی سامبا کی چھاؤنی سے لگ کر گزرتی سڑک کٹھوا ۔ پٹھانکوٹ کو جاتی۔
یہ میجرنقوی والےلیٹرلز میں سےایک تھی۔ اور وہیں کہیں جموں کی پگ بوسیاں لیتاتوی کاپانی بھی شمال کی دشاسےبہتا نظر آتا، وہی توی روزجس کاپانی پیتا پنڈبسوہلی تھاجو ’کسے کُڑی دی گوری ہک تےکالے تِل دے وانگ‘ دکھتاتونہیں تھامگروہیں کہیں تھا کہ ایسا شِو کمار بٹالوی کی نظم چُمن کا کہنا تھا
ایس پنڈ دیاں کُڑیاں چِڑیاں
وانگ موتیے تڑکے کِھڑیاں
نین اوہناں دے گِٹھ گِٹھ لمے
جیوں بھوراں دیاں لمیاں ڈاراں
چیت مہینے آتھن ویلے
پولھی دے پھُلاں تے جڑیاں
ہونٹھ جویں روہی دے پتر
وچوں مٹھا دُدھ وگیندا
کوئی کوئی کرماں والا پیندا
اُچے ٹبے پنڈ بسوہلی
نیڑے جموں شہر سُنیندا
بڑا پنڈ لوہٹیاں کےشِوکمار کی جموں شہر کےپاس توی کاپانی پیتے پنڈبسوہلی کی بہت سی یادیں ہیں۔ وہ ہمیں جیٹھ ہاڑ کےمہینےمیں اُٹھنےوالے چینے بادلوں، پہاڑوں سے بہنے والے جھرنوں کے پانی جیسے کہ مدینے بیٹھے حاجیوں کے آنسوؤں کی نہ تھمنے والی جھڑی ہو، پنڈ کے آلے دوالے بہتی کسیوں ندی نالوں اور چیت مہینے میں صبحدم نکلتی کُڑیوں چِڑیوں کی بھول بھلیوں سے گزارتےانجام کار جیٹھ کےمہینے میں پیش آئے اپنے معاشقے تک لے آتے ہیں جب پنڈ بسوہلی کی سکینہ انہیں پہلے پہل ملی تھی۔ ہمیں بقیہ شاعرانہ تعلیات جن میں کہ ہمارے شاعر کی محبوبہ کے جسمانی نشیب وفراز اور سکھیوں سہیلیوں کی ٹولی کی طرف اشارہ ہے کو بوجوہ یہاں حذف کرنا پڑ رہاہے کہ ہمارے شاعر جس بے نیازی سے شعر کا گھونگھٹ نکال ذومعنی فقرے کس جاتے ہیں اسی بات کو یہاں نثر میں لکھنے پر تو ہم فی الفور دھر لیے جائیں گے اور ایسے کیسوں میں تو پاک سر زمین میں ضمانت بھی نہیں ہوتی۔
ہم جیٹھ مہینے میں پہلے پہل پنڈ بسوہلی کی جمی جائی سکینہ کے ہمارے شاعر سے ملنے کا ذکر کررہے تھے۔ اس کے بعد کی دوسری مُلاقات میں سکینہ ’دو کو سچے چُمن‘ دے کے جو گئی ہے تو واپس کبھی نہ آئی۔ سکینہ کیا گئی پنڈ بسوہلی کی کُڑیاں چِڑیاں بھی رُوٹھ گئیں اور ہمارا شاعر ان پہاڑوں میں اپنی محبوبہ کو بُلاتا کھو گیا جہاں اونچے ٹِبوں پر پنڈ بسوہلی ہے جو جموں کے پہاڑوں میں یوں دِکھتا ہے جیسے کسی گوری کے شانوں پر کالا تِل چمکتا ہو۔
صاحبو اگوکی کی کہانی بھی پنڈ بسوہلی کی داستان ہے۔ چیت مہینے آتھن ویلے ٹھاکر دوارے کے مورچے ہیں جو نکی نکی کنڑیں کے مینہہ کی پھوار میں ملنگی کے ریکارڈ ’نی اک پُھل موتیے دا مار کے جگا سوہنیے‘ کے سُروں پر کھودے گئے تھے۔ آج کی زمین پر تو ان کا نام ونشان تک نہ ہوگا مگر دل کی زمینوں پر وہ کُھدائی ابھی تک تازہ ہے۔ جیٹھ ہاڑ سے پرے لہڑی بند سے آگے لنگڑیال کی قُربت میں ایک طلوع ہوتی رات کی تاریکی میں جاسوس نمبردار اور لانس نائیک امین کی پختو کی کرچیاں بکھری پڑی ہیں۔ انہیں جوڑ کر دیکھیں تو میجر چشتی ایک آنکھ مارکر خوش دلی سے کہہ اُٹھتے ہیں ’چلو شاباش، بہترین ماحول ۔ ہوادار کمرے ۔ فلش سسٹم‘۔
بڑا پنڈ کی قربت میں جرپال کی خون رنگ یادگار آج بھی کرنل راجہ کی شجاعت کی داستان کہتی ہے اور تھوڑا آگے کو چلتے جائیں تو ہرڑ خورد کے پاس ایک ٹیکری پر سوارمحمد حسین، ہمارے ساتویں نشانِ حیدر کی جائے شہادت کی یادگار ہے۔
اگوکی کے افسر میس کی بڑے غلام علی اور ملکہ پکھراج کے سُروں سے رنگی راتوں سے شکر گڑھ بلج میں ظفروال کے محاذ کو پلٹتے نیم لفٹین کو بھی انہی لہردار راہوں میں ملی سکینہ اور اس کے ’دو کو چُمن‘ آج تک یاد ہیں۔ جب یادیں دھاوا بولتی ہیں تو ہم بھی کسی کُڑی کے گورے شانوں پر لشکتے کالے تِل کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ دیکھیے اس دفعہ آپ بھی ہمارے ہم سفر تھے تو خیالوں کا ہنس کیا کیا موتی چُگ لایا۔
صاحبو ناسٹل جیا ایک خطرناک جانور ہے۔ یہ گزرے دنوں کی یاد میں گھات لگا کر بیٹھا ہوتا ہے اور وقت پڑنے پر ایسا جھپٹ کر دبوچتا ہے کہ آدمی ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ اس کی مثال گزشتہ زمینوں پر اُڈاری بھرنے والے ہنس کے جیسی ہے۔
ان ممنوعہ وادیوں کے چمکتے پانی پر اترنے والا پھر کہیں جانے جوگا نہیں رہتا۔
کہنےوالے کہتے ہیں کہ سیالکوٹ کے پانی جیسا پانی کہیں نہیں۔ ہم نے مان سروور جاتے جاتے اگوکی کو آواز کیا دی کہ ان زمینوں کا پانی پی کر وہیں ڈھے گئے، کہیں اور جانے کوئی اور موتی چُگنے جوگے بھی نہیں رہے۔۔۔
کدے کوئی جے ہنس وچارا
مان سروور جاون والا
ایس گراں دا پانی پیندا اے
اوتھے ای اوہ ڈُب مریندا اے
مُڑ نہ موتی اک چُگیندا اے
اُچے ٹبے پنڈ بسوہلی
نیڑے جموں شہر سُنیندا
کسے کُڑی دی گوری ہِک تے
کالے تِل دے وانگ دسیندا
ـــ
تمام شد