اچے برج لاہور دے
لاہور میں آخر ایسا کیا ہے کہ جس کے قدم یہاں پڑے وہیں جم گیے ۔یہ ایک مقناطیسی طلسم کدہ ہے ۔آپ مزہبی ہیں ،لبرل ہیں ،آرٹسٹ ہیں ،اداکار ہیں ،سنگر ہیں ،استاد ہیں ،ادیب ہیں ،ڈاکٹر ہیں،وکیل ہیں ، انجینییر ہیں ،مزدور ہیں ،نای ہیں ،صحافی ہیں،طالبعلم ہیں یا کچھ اور ،داتا کی نگری آپ کی ایسی پہچان بن جاتی ہے جس پر آپ کو فخر ہی نہیں ،پیار بھی ہوتا ہے ۔یہ محبت کا دریا ہے ،رواداری کا چشمہ ہے ،اعلیٰ ظرفی کا سمندر ہے ۔ادھر پختون آے تو اسے اس شہر نے دل سے لگایا ۔محمد سعید کو رنگیلا بنا دیا ،قادر خان کو عبدالقادر بنا دیا ،فردوس کو فردوس جمال کی شہرت دی ،رووف خالد کو رووف خالد اس شہر نے بنایا ۔ساہیوال سے آے منیر نیازی ،ملتان کے اصغر ندیم سید ،ڈی جی خان کے اورنگزیب لغاری ،ملتان کی ریما ،سندھی مصطفیٰ قریشی، پنڈی بواے سلطان راہی ،ملتانی ناہید اختر ،سیالکوٹی فیض ،کراچی کے وحید مراد ،بنگالی شبنم سب اسی شہر کی محبت کے اسیر ہوے ۔اس شہر نے سندھ سے اٹھے وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کو ایسا سینے سے لگایا کہ اس کے نام پر کوڑے کھاے ،قیدیں کاٹیں حتیٰ کہ خود سوزیاں کیں ۔ستر کے الیکشن میں اسی بھٹو کو اقتدار میں لانے والا یہ شہر پیار کا بڑا بھوکا ہے ۔نواسی میں جب بھٹو کے نام پر ووٹ لے کر پیپلز پارٹی نے لٹو اور پھٹو کی پالیسی اپنای تو شہر بھی اس سے ناراض ہو گیا ۔گو اسے مکمل ناراض ہونے میں آٹھ سال لگے جب ستانوے میں اس نے پیپلز پارٹی سے مکمل منہ موڑ لیا لیکن ایک بات ہمیشہ واضح کر کے رکھی ۔اگر پیار سے مانگو گے تو سب عطا ہو گا ۔اگر طاقت ،دھونس دھاندلی کی تو ہمارا سینہ سب سے پہلے سپر ہو گا ۔اسٹیبلشمنٹ نے یہاں سے ہمیشہ منہ کی کھای ۔دو ہزار دو میں جب مشرف کا طوطی بولتا تھا اور شریف برادران کو ملک میں آنے کی اجازت نہیں تھی ،اس شہر نے اسوقت بھی نون کو اپنے ووٹ کا حقدار ٹھہرایا ۔آٹھ میں دو اور تیرہ میں صرف ایک سیٹ نون کے علاوہ کوی اور اس شہر سے لے سکا ۔لاہوری نواز پر برگروں کی پھبتی کہ یہ تو سری پاے کھانے والا ،لسیاں پینے والا ہے ،کا جواب لاہوریوں نے اسے اپنے پچانوے فصد مینڈیٹ سے دیا ۔پچھلے پانچ سال جب سازش اور دھونس اپنے عروج پر تھے اس شہر نے تیرہ جولای کو سخت گرمی میں باہر نکل کر اپنے لیڈر ،ضمیر کے قیدی ،کا جو استقبال کیا ،وہ تاریخ کا درخشاں باب ہے ۔
خریدے اور دھمکاے الیکٹرانک میڈیا ،پیسے کے زور پر مقبوضہ سوشل میڈیا ،سرمایے سے کیے گیے جلسے بھی لاہوریوں کے سیاسی شعور کو متزلزل نہیں کر سکے ۔ان الیکشن میں جب گویبلز کی روح ہر کونے کھدرے میں پھر رہی ہے لاہوریوں نے قومی اسمبلی کی چودہ میں سے دس(گیارہ ہی سمجھیں کہ سعد رفیق کو لاڈلے کے مقابلے میں چھہ سو ایسے ووٹوں سے ہروایا گیا ہے جہاں تین ہزار سے اوپر مسترد شدہ ووٹ ہیں )اور صوبای اسمبلی کی تیس میں سے باییس سیٹیں اسٹیبلشمنٹ کے منہ پر طمانچہ مار کر نون کو نچھاور کی ہیں ۔مجھے اپنے شہر پر بہت ناز ہے ،آج تو اس نے مجھے لوٹ لیا ۔اس نے واضح کر دیا کہ تم جتنی مرضی چالیں چل لو ،ایک چال اللہ کی بھی ہوتی ہے ۔لاہور ہی وہ زمین ہے جس نے پاکستان بنایا ،جس نے پاکستان کی تعمیر کی اور لاہور ہی اس "پرانے پاکستان " کی لاج ہے ،اس کی شان ہے اس کی آن ہے ۔
جیو میرے لاہور ۔داتا کی نگری ہسدی روے ،وسدی روے
اچے برج لاہور دے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“