پاکستان میں ملتان ، سیہون ، ٹھٹہ ، اوچ اور مٹھن کوٹ کا شمار ملک کے قدیم ترین تہذیب یافتہ اور اولیاٸے کرام کے شہروں میں ہوتا ہے . قدیم ترین شہروں کے باعث یہ ماضی میں کٸی قدیم ترین تہذیبوں اور ثقافت کا مرکز اور گہوارہ رہے ہیں . ملتان ، سیہون ، ٹھٹہ اور اوچ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں ہزاروں بلکہ لاکھوں اولیاٸے کرام و بزرگانِ دین کے مزارات ہیں . ملتان کو تو اولیاٸے کرام کی کثرت کے باعث مدینت الااولیا ٕ بھی کہا جاتا ہے . اولیاٸے کرام کے مسکن ان قدیم شہروں نے کٸی عروج و زوال دیکھے ہیں اور یہ شہر کٸی بار آباد اور برباد ہوتے رہے ہیں . تاریخ و تہذیب و ثقافت اور علم و ادب کے حامل اولیاٶں کی سرزمین میں سے ایک شہر اوچ شریف کی تاریخ کا مختصر احوال یہاں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے .
پنجاب کے ضلع بہاولپور کا یہ شہر ماضی میں قدیم تہذیبوں ، تمدنوں اور ثقافتوں کا مرکز رہا ہے . علم و ادب اور رشد و ہدایت کا بھی یہ شہر سرچشمہ رہا ہے . اس شہر پر مختلف ادوار میں مختلف قباٸل نے حکمرانی کی ہے جن میں سب سے زیادہ عرصہ تک راجپوت قبیلے کی حکمرانی رہی ہے . جب 325 ق م میں سکندر اعظم نے اس شہر پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں پر راجپوت ہی حکمران تھے جنہوں نے سکندر اعظم کی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا . اس شہر کی خوش بختی اس وقت شروع ہوٸی جب سلطان ناصر الدین قباچہ نے اوچ کو اپنی سلطنت کا دارالحکومت اور تخت گاہ بنایا . اس دور میں اس کی تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا اور اس سے اس شہر کی خوب شہرت ہوٸی اور اس کی یہ شہرت دور دور تک پھیل گٸی . اوچ کی شہرت اور ترقی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رح ٦٤٣ ھ میں بخارا سے بھکر ہوتے ہوٸے یہاں تشریف لاٸے . اس وقت بھی اوچ پر راجپوت قبیلہ ہی یہاں حاکم تھا . راجہ دیو سنگھ راجپوت یہاں کے بادشاہ تھے اور یہ اسی کی نسبت سے دیو گڑھ کے نام سے منسوب تھا . حضرت شیر شاہ سرخ پوش بخاری رح نے راجہ دیو سنگھ کو اسلام کی دعوت دی جو اس نےقبول نہیں کی مگر اس کی راجکماری بیٹی اوچاں رانی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان ہو گٸی . حضرت سرخ پوش رح نے سعادت مند اوچاں رانی کے نام کو دوام بخشنے کی غرض سے دیو گڑھ کو اوچاں رانی کی نسبت سے اوچ کا نام دے دیا جو کہ بعد میں حضرت سرخ پوش رح کی وفات کے بعد یہاں مدفن ہونے اور ان کی نسبت سے اوچ شریف کے نام سے مشہور ہو گیا .
اوچ شریف میں سیکڑوں اولیاٸے کرام کی ابدی آرام گاہیں اور مزارات و مقبرے ہیں جن کی زیارت کی غرض سے ملک بھر سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند اور مریدین آ کر حاضری دیتے ہیں . اوچ شریف میں جو اولیاٸےکرام مدفن ہیں ان میں حاجی سید بہاول حلیم رح ، سید محمود سید بہاوالدین ، سید محمد غوث شاہ بخاری ، سید ابو سعید سلطان سید احمد کبیر ، سید صدرالدین راجن قتال اور سید ناصر الدین محمود رح و دیگر صاحبِ کشف و کرامات شامل ہیں اور اس وقت سب سے زیادہ حضرت سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت رح اوچ شریف شہر کی وجہ شہرت بنے ہوٸے ہیں اور ان کا مزار مبارک مرجع خلاٸق بنا ہوا ہے . اوچ شریف نے کٸی جید علما اور شعرا کو بھی جنم دیا ہے موجودہ معروف شعرا میں سے ایک شاعر ہمراز اوچوی بھی قابلِ ذکر شاعر شمار ہوتے ہیں . اوچ شریف کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں حضرت بلہے شاہ رح نے بھی ایک کلام تخلیق کیا جو بہت مشہور ہوا لیکن مجھے صحیح یاد نہیں ہے تاہم اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے
تساں اوچے تساں ڈا شہر وی اوچا تساں اوچ شہر رہن والے
اساں قصوری اساں ڈا شہر وی قصور والا اساں شہر قصور دے رہن والے