گزشتہ دنوں ہمیں اوچ موغلہ کے گلیوں کوچوں کی طرف جانے کا اتفاق ہوا۔ یا حیرت! شنیدنی مناظر دیدنی ہوئے تو طلسم ہوشربا نگارستان کو اپنے سامنے پایا، پہلے پہر کی رات کے خواب جیسا ماحول، بغداد کی گلیوں کی طرح پراسراریت، مزاروں جیسے پر شکوہ مگر خاموش در و دیوار، درختوں کی شاخوں پر بندھے مٹی کے برتنوں سے بے فکری کے ساتھ دانہ چگتی چڑیوں کی دلپذیر چہچہاہٹ، کوئل کی کوکو، نیند کے ہلکورے لیتے صوفی مزاج کبوتر، گلہریوں کی معصوم شرارتیں، دو رویہ گھنے درختوں کے بیچوں بیچ کچا راستہ، مصنوعی تالاب اور کئی سو سال قدیم لگنے والے برگد کی مہربان چھائوں میں بیٹھ کر ایسے محسوس ہوا جیسے ہم الف لیلوی دھرتی پر آ گئے ہوں کہ شہر زاد کی کہانیوں کو قرات کرتے کرتے نیند کے گھونٹ بھرنا شروع کر دیں گے۔ ہر تاریخی عمارت کی بوقلمونی چومن دیگرے نیست کی معلن تھی، زمین زاد کتنی ہی دیر آثار قدیمہ بن جانے والی خستہ حال مسجد کی بوسیدہ دیواروں کے سائے میں کھڑا رفتگان کو آوازیں دیتا رہا۔۔۔
ملیں گے آئندگان کو تبریز اور حلب میں
گئے ہوؤں کی نشانیاں اصفہان سے لیں گے
اوچ موغلہ ہمیں اس لئے بھی اچھا لگتا ہے کہ اس کی زرخیز دھرتی میں سید مداح حسین رضوی جیسے راہ سلوک کے مسافر اور غلام رسول شاہ جیسے نیک دل شاعر آسودہ خاک ہیں۔ یہ چھوٹا سا قصبہ اس لئے بھی ہمارے دل میں ہمکتا ہے کہ یہاں بھیگے ہوئے دلوں والے نغمہ گر، نے نواز اور معلم سید سلیم مصطفی رضوی قیام پذیر ہیں، جن کے لحن دائودی میں "مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ" سماعت کر کے زیست کی تپتی دوپہروں کا احساس کم ہونے لگتا ہے، اوچ موغلہ اس لئے بھی خوشبو بن کر مجھے مہکائے رکھتا ہے کہ اس کی فضائوں میں خانقاہ جمالیہ کی عظیم علمی و روحانی روایات کے امین سید ارتضی شاہ جمالی جیسے درویش اور سادھو سانس لیتے ہیں۔ سید میثم تمار رضوی جیسے متعلم اور سید فاضل شاہ جیسے بے خانماں فقیر اسی دھرتی کے فراخ سینے پر جی رہے ہیں۔ اوچ موغلہ مجھے بہت عزیز ہے۔۔۔ کیونکہ یہ سرزمین سید اظہر علی رضوی جیسے صحافی کا مسکن ہے۔۔۔ وہ اظہر علی رضوی کہ جن کی نگاہیں پرانے رازوں اور دل مدفون خزانوں جیسا ہے۔
بہاول پور سے براستہ اوچ شریف جنوب مغرب کی طرف 75 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع موضع اوچ موغلہ امتدادِ زمانہ کے بے رحم ہاتھوں کئی بار اجڑا اور کئی بار آباد ہوا، خانقاہ جمالیہ کی عظمت رفتہ اور مغلیہ سلطنت کے دور عروج کی امین یہ سر زمین آج ایک قصبے میں سمٹ چکی ہے۔ ماضی میں اوچ موغلہ اوچ شریف ہی کا ایک حصہ رہا تاہم اب یہ تحصیل احمد پور شرقیہ کے ایک موضع کی حیثیت رکھتا ہے۔
سلسلہ جمالیہ کے عظیم بزرگ حضرت شیخ جمال خنداں رو اور ان کے فرزند گرامی حضرت رضی الدین گنج علم کے مزارات کی وجہ سے اوچ موغلہ کو عہد گم گشتہ میں اوچ جمالی کے نام سے نام پکارا جاتا تھا، تاہم مغل شہنشاہ ہمایوں کے دور میں جب اوچ پر مرزا کامران کی حکومت تھی تو اس مقام کو مغلیہ حکومت کے حکام اور سرداروں کی سکونت کے لئے مختص کیا گیا لہذا آہستہ آہستہ اس کا نام اوچ جمالی سے اوچ مغلاں اور بعد ازاں اوچ موغلہ پڑ گیا۔
سید سلیم صدھار ابدال اور جمعہ پیر سمیت کئی بزرگان دین اوچ موغلہ کی دھرتی میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کے مزارات سے متصل ایک قدیم شہر کے کھنڈرات بھی موجود ہیں جو خانقاہ جمالیہ کے دور عروج کی بچی کھچی یادگاریں ہیں، عہد گم گشتہ کی شکستہ عمارات و کھنڈرات میں نانک چندی اینٹوں کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔
اوچ موغلہ کے آثار قدیمہ میں سب سے اہم ایک تاریخی مسجد ہے جس کی باقیات آج بھی معدومی سے پہلے آخری ہچکی کی صورت موجود ہیں، صدری روایات اور مقامی لوگوں کے مطابق یہ مسجد محمد بن قاسم کے عہد فتوحات کی یاد گار ہے لیکن ایسا کوئی کتبہ موجود نہیں جس سے اس کی تعمیر، تجدید، مرمت یا تعمیر نو کی تاریخ پر روشنی پڑ سکے، مٹی سے بنائی گئی یہ مسجد کسی دور میں دیدہ زیبی، عمدگی، نفاست، سادگی و پر کاری کا عمدہ نمونہ رہی ہو گی لیکن اب محض اس کی خستہ حال دیواریں ہی باقی ہیں جو کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہیں، اردگرد مسلسل تعمیرات اور مٹی کی بھرائی سے یہ خوبصورت اثاثہ آہستہ آہستہ زمین برد ہو رہا ہے۔
ملک کے ممتاز محقق زبیر شفیع غوری کے مطابق اوچ موغلہ کی اس مسجد اور اس کے کھنڈرات سے ملنے والی مٹی کے نمونے محمد بن قاسم کے عہد میں بھنبھور اور الور سے ملنے والے آثار قدیمہ سے مطابقت رکھتے ہیں جبکہ اوچ شریف کی ممتاز علمی شخصیت مفتی تنویر احمد نے ہمیں بتایا کہ اوچ موغلہ کی اس مسجد کا طرز تعمیر شاہی مسجد ٹھٹھہ، بادشاہی مسجد لاہور اور اوچ شریف کی جامع مسجد درگاہ حضرت محبوب سبحانی سے مشابہت رکھتا ہے۔
اوچ موغلہ کی اس تاریخی مسجد کی خستہ حال دیواریں نہ جانے کتنی صدیوں کی داستانیں اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ساکت و صامت کھڑی ہیں، ان دیواروں نے حضرت شیخ جمال خنداں رو اور ان کے رفقاء کے قدموں کی چاپ بھی سنی ہے اور محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، ناصر الدین قباچہ، شمس الدین التمش اور ایسے ہی بے شمار سپہ سالاروں اور حکمرانوں کے جاہ و جلال کا منظر بھی دیکھا ہو گا۔ یہ خستہ حال دیواریں اوچ موغلہ کے عروج و زوال کے لاتعداد قصوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے مہر بلب، گوش بر آواز اور چشم براہ ہیں کہ کوئی اس آثار قدیمہ کی حفاظت کرنے والا آئے اور اس عظیم ورثے کو آئندہ نسل تک بہتر حالت میں پہنچائے۔ اس علاقے میں ورثہ اس مقدار میں پھیلا ہوا ہے کہ اسے محفوظ کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر اور بھرپور وسائل سے مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہنامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر
دفن ہے ہر جگہ ، افسانہ، تیرے شہر میں
“