کینیڈا کا علاقہ مانٹریال انتہائی پرامن جگہ ہے۔ جرائم یہاں پر نہ ہونے کے برابر رہے ہیں۔ لوگ صدیوں سے امن سے رہتے آئے ہیں۔ مانٹریال میں 17 اکتوبر 1969 کو پولیس تنخواہوں میں اضافے اور ورکنگ کنڈیشن بہتر بنانے کا مطالبہ منوانے کے لئے ہڑتال کی۔ صبح ساڑھے آتھ بجے پولیس نے کام کرنا روک دیا۔ گیارہ بچے پہلا بینک لوٹا گیا۔ دوپہر تک لوٹ مار کے خدشے کے باعث شہر میں دکانیں بند ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اگلے چند گھنٹوں میں ٹیکسی والوں نے لموزمین کی کپنی کو نذرِ آتش کر دیا۔ یہ ٹیکسی والے لیموزین سروس کی اس بات سے خائف تھے کہ ائیرپورٹ میں مسافروں کی آمدورفت صرف یہی کمپنی کر سکتی تھی۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹس میں فسادی عناصر گھس گئے۔ تاک کر دور سے نشانہ لگانے والے ایک شخص نے پرانا بدلہ چکانے کے لئے پولیس افسر کو قتل کر دیا گیا۔ شام تک چھ بینک، سو سے زیادہ دکانیں لوٹی جا چکی تھیں، بارہ جگہوں پر آگ لگائی جا چکی تھی، تیس لاکھ ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا تھا۔ پارلیمنٹ ہنگامی اجلاس میں فیصلے لے رہی تھی۔ بالآخر فوج اور ماوٗنٹی کو طلب کر لیا گیا۔ چند گھنٹوں کے اس ہنگامے میں 180 افراد گرفتار ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تشدد انسانی فطرت نہیں۔ یہ ماحول اور کلچر سے سکھاتا ہے”۔ یہ غلط فقرہ اس وقت کی دنیا میں ایک یقین کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقوامِ متحدہ سے لے کر سیاست اور کلینکل سائیکولوجی میں استعمال کیا جانے والا غلط خیال جس کی کوئی سائنسی بنیاد پر نہیں۔
“تشدد کی وجہ غربت، تعصب اور تعلیمی نظام کی ناکامی ہے۔ سوشل سسٹم کی ناکامی انسانی فطرت بگاڑ دیتی ہے”۔
“ویڈیو گیمز، ٹی وی اور میڈیا پر دکھائے جانے والے مناظر قتل و غارت کی وجہ ہیں”۔
مقبول کتابوں اور دانشوروں کی اس طرح کی گفتگو سے سائنس اتفاق نہیں کرتی۔ ارتقائی نفسیات اور بیہیوورئل جینیات معاشرت کے دوسرے شعبوں کی طرح جرم و سزا، قومی سلامتی اور جنگی دفاع میں بھی روایتی دانشوروں کی باتوں کی مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ خاص طور پر لبرل خیالات ناقابلِ عمل نظر آتے ہیں کیونکہ لاکھوں سال سے تراشی گئی فطرت اور دانشور کے خوبصورت خیالات میل نہیں کھاتے۔
کسی جگہ کے پرامن ملک ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں پر انسان مختلف ہیں۔ جب قانون کا نفاذ ہٹ جاتا ہے تو ہر قسم کا تشدد نظر آنے میں دیر نہیں لگتی۔ لوٹ مار، بدلے، مخالف گروپس کو نشانہ بنانا، گینگ، مافیا۔ اس کی مثالیں صرف یوگوسلاویہ، سوویت یونین اور افریقہ کے کچھ حصوں کی مثالیں تک ہی محدود نہیں۔
تشدد انسانی فطرت کا حصہ ہے اور اس کا مقابلہ اس کو سمجھ کر ہی ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشدد ہر معاشرے کا حصہ رہا ہے۔ طاقتور ہیرو دنیا کے ہر کلچر کا حصہ رہے ہیں۔ میڈیا کو قصوروار ٹھہرانے میں کنزوریٹو اور لبرل اکٹھے مل جاتے ہیں لیکن رئیلیٹی چیک کرنا ہو تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کیا تشدد ٹی وی اور فلموں سے پہلے نہیں تھا؟ یا پھر کینیڈا میں وہی ٹی وی شو دیکھے جاتے ہیں جو امریکہ میں۔ امریکہ میں پرتشدد واقعات کی شرح چار گنا زیادہ ہے۔ یا پھر جب سینٹ ہیلینز میں 1995 میں ٹی وی پہلی مرتبہ پہنچا تو ایسا نہیں ہوا کہ لوگ اچانک قتل و غارت پر مائل ہو گئے۔ قصوروار ٹھہرائے گئے دوسرے عوامل جیسا کہ گن، تعصب اور غربت ۔۔۔ ان کا بھی زیادہ تعلق نظر نہیں آتا۔ گن سے قتل کرنا آسان ضرور ہو جاتا ہے اور لڑائی کا قتل پر متنج ہونا آسان ہو جاتا ہے، البتہ گن سے پہلے کے کئی معاشروں میں قتل و غارت ناقابلِ یقین حد تک زیادہ تھا۔ پچھلی پانچ سے چھ دہائیوں میں اگر جرائم اور قتل و غارت کا گراف بنایا جائے تو عام طور پر مقبول کسی بھی فیکٹر سے کوئی تعلق نظر نہیں آئے گا۔ بہت سے خیالات کی بھرمار نظر آئے گی، جن کی کوئی بنیاد بائیولوجی میں نہیں ہے۔
اگر بائیولوجی سے راہنمائی لینا ہو تو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ کچھ لوگ اپنی بائیولوجی کی وجہ سے تشدد پر زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ تمام ادوار میں، تمام کلچرز میں قاتل کی جینز میں ایک چیز تقریبا ہمیشہ رہی ہے۔ وہ وائے کروموزوم ہے۔ خاتون کے مقابلے میں قاتل کا مرد ہونے کا امکان بیس سے چالیس گنا زیادہ ہے۔ مردوں میں بھی پندرہ سے تیس سال کی عمر میں قاتل ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے اور اس میں بھی کچھ خاصیتوں کے حامل افراد کا۔ ان کی شخصیت میں ذہانت کا کم ہونا، توجہ دینے کی اہلیت نہ رکھنا، فوری ایکشن لینا اور زیادہ ایکٹو ہونا شامل ہیں۔ ان میں وہ جو جذبات سے عاری ہوتے ہیں، بڑی تعداد میں ایسے لوگ قتل کرتے ہیں۔ شخصیت کی یہ خاصیتیں بچپن سے نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ متشدد ہونا بائیولوجی کا حصہ ہے۔ مٹھیاں بھینچ کر، دانت کچکچا کر غراتا انسان ۔۔۔ یہ سیکھا ہوا رویہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی دماغ اور جسم کے ڈیزائن میں یہ تشدد دیکھا جا سکتا ہے۔ مردوں کے بڑے سائز اور قوت میں اور ٹیسٹوسٹیرون میں۔ اس کے علاوہ جب دماغ کے روکنے والے سرکٹ متاثر ہوں، جیسا کہ الکوحل کی وجہ سے یا پھر فرنٹل لوب یا امگڈالا میں کسی نقصان کی وجہ سے یا پھر سیریٹونون کے میٹابولزم میں خلل سے، تو نتیجہ زیادہ پرتشدد ہو جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ لڑکے شروع سے ہی ایک دوسرے سے فزیکل لڑائی کرتے ہیں۔ بڑوں کے مقابلے میں زیادہ کرتے ہیں اور لڑکے لڑکیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کرتے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں ہم غلط سوال پر بحث کر رہے ہیں۔ “بچے تشدد کیسے سیکھتے ہیں؟” کے بجائے سوال یہ ہونا چاہیے کہ “بچے تشدد سے باز کیسے رہ لیتے ہیں؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر کوئی اپنے، اپنے خاندان کے یا مظلوم کے دفاع کے لئے پرتشدد طریقہ اپنانے کو اچھائی سمجھتا ہے۔ ہر جگہ اور ہر وقت کے قصے، کتابیں، فلمیں اسی بارے میں ہوتے ہیں۔ جنگجو، سپرمین، فلمی ہیرو۔ قتل و غارت اور مار دھاڑ کرنے میں ہیرو اور ولن کے درمیان زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ یہ ہمارا رویہ نہیں بناتے، ہمارے رویے کے عکاس ہیں۔ اور کئی بار رابن ہٰڈ اور چور، دشت گرد اور مجاہد، جنرل اور گینگ لیڈر کے درمیان محض نظر کا فرق ہوتا ہے۔ اس لئے وائیولنس صرف بائیولوجیکل یا جینیاتی مسئلہ نہیں، سوشل اور سیاسی مسئلہ بھی ہے۔ یعنی یہ پہچان اور اقدار طے کرنا کہ کونسا تشدد قابلِ قبول ہے اور کونسا نہیں۔
)جاری ہے)