آپ ایک پرندے کو اڑتا دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ جیسے یہ فزکس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ پھر جب آپ کی فزکس کی سمجھ کچھ گہری ہوتی ہے تو پھر پتا لگتا ہے کہ یہ تو فزکس کے اصولوں کا ہی نتیجہ ہے۔ اڑنے کی صلاحیت زندگی کی ارتقائی تاریخ میں تین الگ مرتبہ دریافت ہوئی۔ ایک صورت کیڑوں کی تھی، ایک ڈائنوسارز کی (جو آج پرندوں کی شکل میں ہیں) اور تیسری چمگادڑ۔
کسی جاندار کا معاشرتی ہونا بائیولوجی کے اصولوں کے خلاف لگتا ہے۔ پھر جب آپ کی بائیولوجی کی سمجھ کچھ گہری ہوتی ہے تو پھر پتا لگتا ہے کہ یہ بائیولوجی کے اصولوں کا ہی نتیجہ ہے۔ معاشرتی جانداروں کو دیکھیں تو یہ ارتقا چار جگہ پر الگ ہوا۔ ہائیموینوپیٹرا (چیونٹیاں، شہد کی مکھیاں اور بھڑیں)، دیمک، نیکڈ مول ریٹ اور انسان۔ ان میں پہلے تین طریقے ایک ہی طرح کے ہیں اور یہ طریقہ جینز کی شئیرنگ سے نکلتا ہے۔ انسان ان میں منفرد ہے۔ اس کا سوشل سٹرکچر اور تعاون کا طریقہ کسی بھی دوسرے جاندار کی طرح نہیں۔ انسان کے تعاون کی بھی باقی سب جانداروں سے ممتاز ہیں۔ اس کی وجہ اخلاقیات ہیں۔
چودہ ارب سال پہلے بنگ بینگ ہوا۔ اس سارے عمل میں بننے والی چیزوں میں اخلاقیات نہیں تھیں جو بنیں اور بیگ گراوٗنڈ ریڈی ایشن کی طرح ہر طرف پائی جاتی ہیں اور ہم سے چپک جاتی ہیں۔ بڑے ہی طویل عرصے میں ہمارے آباء اور ان کے آباء اور ان کے آباء نے یہ سب سیکھا ہے۔ اخلاقیات کے بغیر معاشرت نہیں بن سکتی۔
اخلاقی آلہ اس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر معاشرت نہیں چل سکتی۔ ہمارے اندر اس قدر گہرائی میں رچا بسا ہے کہ کچھ لوگ اس کے ہونے کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اس قدر گنجلک والا کہ اس کو سمجھنے میں بڑی دشواری ہوتی ہے۔ اس قدر ناقابلِ اعتبار کہ سب سے بڑے اور ضرررساں غیراخلاقی کام اسی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس کے کچھ اوزاروں میں شرم، احساسِ جرم، کراہیت، محبت، ایثار، غیرت، حمیت جیسے جذبات ہیں۔ انسان کو ان سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تناظر میں تشدد کو کیسے سمجھا جائے؟ اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ اس سے ہونے والی الجھن کو ایک طرف رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے کہ یہ آتا کہاں سے ہے۔ اس کا پہلا مسئلہ مقابلہ ہے۔ اگر میری بقا میں اور میری فلاح میں کوئی رکاوٹ آتی ہے تو اس کا ہٹایا جانا مجھے فائدہ دیتا ہے۔ خوراک ہو یا زمین۔ اس کا حصول میری چاہت ہے۔ نہیں، یہ کسی غار میں رہنے والے شخص کی ہی نہیں، جدید ریاستوں کی بھی کہانی ہے۔ پولیٹیکل سائنٹسٹ بروس مسکوئیٹا نے پچھلے دو سو سال میں ہونے والی 251 جنگوں کا تجزیہ کیا۔ نتیجہ یہ نکالا کہ ان میں سے بڑی اکثریت ان جنگوں کی تھی جس میں جارح نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا کہ ایک کامیاب جنگ اس کے قومی مفاد میں ہو گی۔ یہ کرنے کے لئے اپنے پاس وسائل کی کمی ہونا شرط نہیں۔
اس طرح کے تشدد کرنے کا سائیکل اپنے اخلاقی دائرے کے اندر اور باہر کے لوگوں میں فرق کرنا ہے۔ جارحیت گروپ کرتے ہیں اور یہ “دوسروں” کے خلاف ہوتی ہے۔ یہ اپنا گاوٗں، اپنا قبیلہ، اپنی قوم یا کوئی بھی اور تفریق ہو سکتی ہے۔ اخلاقی دائرے کے اندر کے لوگوں کی تکلیف کو تکلیف سمجھا جاتا ہے، باہر کے لوگ پتھر، دریا یا گوشت کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہ بھی قدیم زمانے سے ہوتا آیا ہے اور نفسیات اور تاریخ کا ہر تجربہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔ واری قبیلہ جو آدم خور تھا، ان کی لغت میں اپنے قبیلے لئے لفظ واری تھا۔ اس لفظ کے متضاد غیرواری کا معنی خوراک تھا۔ اپنے گروپ کے ساتھ اکٹھا ہو کر دوسروں کو انسان سے رتبے سے گرا دینا انتہائی آسان ہے۔ تاریخ میں بہت مرتبہ ہوتا آیا ہے اور بڑی ٹریجڈیاں اس سبب سے ہوئی ہیں (اس ٹاپک پر سابق یوگوسلاویہ کے بارے میں مضمون کو نیچے تفصیل سے دیکھ لیں)۔
ہمیں اس کے برعکس کہانیاں بھی ملتی ہیں۔ جب دوسروں کو انسان سمجھے والا سوئچ آن ہو جائے تو ہمارا اخلاقی آلہ کس طرح سے یہ سب واپس بدل دیتا ہے، اس کی دو مثالیں۔
“جنوبی افریقہ میں 1985 میں سیاہ فام اپنے حقوق کے لئے ڈربن میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ پولیس نے مظاہرین کو کچلنے کے لئے تشدد شروع کیا۔ لاٹھیاں برسنے لگیں۔ ایک پولیس والے نے ایک سیاہ فام خاتون کا دوڑتے ہوئے پیچھا کیا۔ ارادہ لاٹھی رسید کرنے کا تھا۔ اس دوڑ میں خاتون کی چپل اتر گئی۔ اپنی روایات کے مطابق خاتون کو ننگے پاوٗں دیکھ کر ان کو جوتی دینا ان کا فرض تھا۔ چپل پکڑائی، اس دوران جب دونوں کی نظریں ملیں تو ان کے چہرے پر تاثرات دیکھ کر لاٹھی وہیں چھوڑ دی۔ کہتے ہیں، “میں یہ کام کیسے کر سکتا تھا، یہ غلط تھا۔ میری تربیت اچھی ماں نے کی تھی”۔ وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر پیچھے ہٹ گئے”۔
جارج اورویل ہسپانوی خانہ جنگی میں اس طرح کے واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک دشمن جنگجو کو بھاگتے دیکھا، کپڑے پھٹ چکے تھے، ایک ہاتھ سے پتلون سنبھالی ہوئی تھی۔ اورویل لکھتے ہیں، “میں تو “فاشسٹ” سے لڑنے آیا تھا لیکن ایک شخص جو اپنی پتلون سنبھال رہا ہو، فاشسٹ نہیں، میری طرح کا ہی انسان ہو گا۔ وہ میرے نشانے پر تھا، مگر میں گولی نہیں چلا سکا”۔
اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ کسی کو “انسانیت کے دائرے” میں داخل کر لیا جائے تو پھر ہمارا اخلاقی سوئچ رویہ تبدیل کر دیتا ہے لیکن یہ اس کی عام سیٹنگ نہیں ہے۔
کسی فساد اور جھگڑے میں اپنے گروپ سے باہر کے افراد کو انسانیت کے مرتبے سے گرا ہوا سمجھنا ہمارے ڈیفالٹ سیٹنگ ہے۔ کسی فساد میں دوسروں کو قتل کرنے والے یہ کام بوجھل دل کئے ساتھ نہیں کرتے، اس میں انتہائی مسرت محسوس کرتے ہیں۔ یہ کام کرنے والے کوئی اور نہیں، میرے اور آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں۔
جھگڑوں کے درمیان حریف کے لئے بنائے گئے تضحیکی نام، بگاڑی گئی تصاویر یا اس کو مجسم برائی کے طور پر پیش کرنا اس سب کنڈیشننگ کا حصہ ہے۔ اس سے نکلنے والے نتائج انسانی تاریخ میں سب سے بدنما داغ ہیں۔ ایک ہاتھ سے پتلون سنبھالے شخص کو گولی سے اڑا دینا، ننگے پاوٗں خاتون کو لاٹھی مار دینا ہی نہیں۔ ہماری تشدد کرنے کی صلاحیت اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔
ہماری تشدد روک دینے اور ہمدردی کا دائرہ وسیع کر لینے کی صلاحیت بھی کم حیران کُن نہیں۔ تشدد کے چکر کے اس پہلو سے بچنے کے لئے اس کو پہچاننا اور توڑنا ضروری ہے۔
(جاری ہے)