احمد سنجر نے سلجوق سلطنت کے سلطان کے طور پر 1118 میں اقتدار سنبھالا۔ الموت کے حشیشیوں کو کچل دینا ان کے عزائم میں سے تھا۔ ایک صبح احمد سنجر بیدار ہوئے تو خوابگاہ کے فرش پر ایک خنجر گڑا تھا۔ ساتھ ایک رقعہ تھا جو حشیشیوں کی طرف سے تھا۔ “اس خنجر کی نوک اس خوابگاہ میں کہیں پر بھی ہو گاڑی جا سکتی تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ نوک فرش پر ہی رہے”۔ اس کے بعد سلجوق اور حشیشیوں کے درمیان لمبے عرصے کے لئے امن رہا۔ احمد سنجر نے حشیشیوں کو پھر ہاتھ نہیں لگایا۔
حشیشیوں نے ایسا ہی حربہ شام کے ایک کرد بادشاہ کے ساتھ دہرایا۔ جب جنگ بندی پر بات کرنے کے لئے آئے ہوئے مندوب نے شاہ کو لقمہ لینے سے روک دیا کہ یہ زہر آلود ہے۔ حشیشی نمائندے نے کہا کہ اس کو زہر آلود اس نے خود کروایا ہے لیکن وہ کسی کو بھی مارنا نہیں چاہتے۔ امن کے خواہاں ہیں۔ کھانا واقعی زہر آلود تھا۔ امن قائم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مجھے اپنے ہمسائے پر اعتبار نہیں اور وہ طاقتور ہو رہا ہے۔ ٹھیک حکمتِ عملی کیا ہے؟ پیشگی حملہ۔ پولیٹیکل سائنس میں اس کو “ہوبز کا پھندا” کہا جاتا ہے۔ اگر میں یہ نہیں کرتا تواس کا متبادل میرا ختم ہو جانا ہے۔ ہوبز کا پھندا پرتشدد جھگڑوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
دفاع مشکل کام ہے۔ قلعے کی فصیل ہو، میگینوٹ کی لائن یا اینٹی بالسٹک میزائل، ان کے ساتھ بھی دفاع کرنا آسان نہیں۔ اور ان کے بغیر تو بالکل بھی نہیں۔ دفاع کا اس سے آسان طریقہ جارحیت کا ارادہ رکھنے والے دشمن کو طاقتور ہونے سے پہلے مٹا دینا ہے۔ بداعتمادی رکھنے والے ہمسائیوں میں تشدد کا یہ چکر منطقی ہے اور دہرایا جاتا ہے۔ صلح جو افراد بھی اپنا قتل ہو جانا پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ کو یہ لگ رہا ہے کہ ہمسایہ طاقتور ہو رہا ہے تو آپ کو اپنی طاقت پر توجہ دینے پر مجبور کرے گا اور جارحیت پر اکسائے گا۔ دوسری طرف آپ کے ہمسائے کا بھی یہی حال ہے۔
اس کی مثال کے لئے: ایک گھر میں مسلح ڈاکو گھس گیا ہے۔ گھر والا بھی مسلح ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو قتل نہیں کرنا چاہتے لیکن دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر پہلے وار کرنا چاہیں گے۔ دوسرے کو قتل کر دینے کا مقصد اپنی جان کی حفاظت ہے۔ اور چونکہ ہم سوشل نوع ہیں تو یہ حملہ صرف شخص کا شخص پر نہیں۔ گروہوں اور ملکوں کی لڑائی اسی طرح ہے۔ اشخاص کے قتل اور ممالک کی جنگ کا سائیکل ایک طرح کا ہے۔
جن کو نسلی گروپ یا قوم کہا جاتا ہے، وہ ہماری بڑی فیملی ہے۔ خاندان سے وفاداری ہمیں اس خاندان کا حصہ بناتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہم اوزار بنانے میں اچھے ہیں۔ یہ اوزار ہتھیار بنتے ہیں۔ اسلحے کی دوڑ کے پیچھے ہوبز کا یہ پھندا کارفرما ہوتا ہے۔ سٹریٹ گینگ، مافیا وار ہی نہیں، پہلی جنگِ عظیم، عرب اسرائیل جنگ کے چھڑ جانے کی یہی وجہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان محض منطقی مشین نہیں۔ ورنہ جنگ میں کمزور سائیڈ کبھی بھی نہ لڑتی اور ہمیشہ بغیر لڑے شکست تسلیم کر لیتی۔ لیکن انسان ہمیشہ ایسا نہیں کرتے۔ یقینی موت اور شکست کو دیکھ کر بھی کئی بار پیچھے نہیں ہٹتے۔
شکست سے بے نیاز، موت کو سامنے دیکھ کر بھی بہادری کے ساتھ دشمن سے بِھڑ جانے والا، ہار نہ ماننے والا ہیرو ۔۔۔ تاریخ کی یہ اصل کہانیاں ہمارا دل گرماتی ہیں۔ ان پر ناول اور فلمیں بنتی ہیں، شاعری کی جاتی ہے۔ بزدلی ہر وقت اور ہر معاشرے میں معیوب سمجھی گئی ہے۔ شجاعت کی قدر اور احترام ہمیشہ کیا جاتا رہا ہے۔
یہ رویہ واضح طور پر طاقتور دشمن کو بھی کئی بار حملہ کرنے سے باز رکھتا ہے۔ طاقتور ہونے سے زیادہ طاقتور نظر آنا ضروری ہے، دوسرے کو دبا دینے، دھوکہ دینے، دوسرے کے دھوکے کو پکڑ لینے کے ۔۔۔ یہ کھیل انسانی فطرت کے کھیل ہیں۔ ان میں ایک بڑا دھوکہ وہ ہوتا ہے جو ہم خود اپنے آپ کو دیتے ہیں کیونکہ اپنے پر یقین نہ ہو تو پھر دوسرے کو دھوکہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ خودفریبی ایک مفید جذبہ رہا ہے۔ اپنے آپ کو اس سے زیادہ طاقتور سمجھنا، جتنا کہ ہم ہیں، دوسرے کو دھوکہ دینے کے لئے ضروری ہے خواہ اپنے لئے کئی بار خطرناک ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے پر حملہ کر دینا دو دھاری تلوار ہے۔ کیونکہ اس سے خود کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ یہاں پر امن کا طریقہ جو سب سے کامیاب رہا ہے، وہ طاقت، اہلیت اور ارادے کی نمائش ہے۔ اہلیت مقابلہ کر کے نقصان پہنچانے کی، ارادہ پہل نہ کرنے کا۔
اگر دشمن کو یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ آنکھ کے بدلے اس کی آنکھ پھوٹے گی اور دانت کے بدلے دانت ٹوٹے گا اور ساتھ ہی یہ کہ اگرچہ ہم حملہ نہیں کریں گے لیکن اگر کیا گیا تو اس کے لئے اپنے مہنگا سودا ہو گا تو یہ ہوبز کے پھندے کو توڑ دیتا ہے۔ کیونکہ اس سے جھگڑے کے دو محرک ختم ہو جاتے ہیں۔ اول یہ کہ حملہ کرنے میں اس کو فائدہ نہیں ہو گا اور دوسرا یہ کہ حملے میں پہل نہ کرنے کا یقین دلوایا جا سکتا ہے تو یہ جھگڑے کی وجہ ختم کر دیتا ہے۔ دنیا میں کئی جگہوں پر اس وجہ سے طویل امن قائم ہوا ہے۔ حشیشیوں نے دشمن کو نشانے پر لے کر چھوڑ دینے کے حربے سے، طاقتور سلطنتوں سے امن چھینا تھا۔ روزویلٹ کے بقول، بڑا ڈنڈا اور نرم گفتگو کام کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا قدیم اخلاقی جذبہ جو امن کے قیام کا کام سب سے موثر طریقہ سے کرتا آیا ہے، یہ انتقام کا جذبہ ہے۔ انتقام کا خوف کسی کو دوسرے کا فائدہ اٹھانے سے باز رکھتا ہے۔ اگرچہ انتقام ایک مہنگا اور مشکل بزنس ہے۔ نسل در نسل چلنے والے جھگڑے جن کا کوئی اختتام نہیں ہوتا۔ مائیں اپنے بچوں کو پچھلی نسلوں کا انتقام کے لئے بڑا کرتی ہیں لیکن یہ جارح کا کام مشکل بناتا ہے۔ تاریخی طور پر خودفریبی اور انتقام کامیاب طریقے رہے ہیں۔ ایسا انتقام، جو کہ جب لیا جائے تو سب کو نظر آئے۔ یہ آئندہ آنے والے جھگڑوں سے بچا لیتا ہے۔
جدید ریاست میں انتقام کے اس عمل کو نظامِ انصاف کہا جاتا ہے۔
(جاری ہے)