یونس امرہ (ایمرے) جو کہ درویش یونس کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، 1238ء میں اناطولیہ کے علاقے سِورِیہائیسر (جو اس وقت سلطنتِ روم کے ماتحت تھا) میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک سنی مسلم اور صوفی شاعر تھے آپکی شاعری نے ترکی ادب و ثقافت کی اتالیقی میں مبِین اثرات مرتب کیے۔ آپکی شاعری عربی اور فارسی زبان کی بجائے مقامی زبان میں ہے جس کے باعث مقامی لوگوں کی زبانوں اور دلوں پر آپکے تحریر کردہ اشعار جلد رواں ہوگئے۔ آپکی اسی روح پرور اور مقامی زبان (قدیم اناطولی ترکی زبان جو آج کی جدید ترکی زبان کی ابتدائی شکل ہے) میں کی گئی شاعری کی وجہ سے اہلیانِ ترک آپ سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ ترک زبان کے مشہور و معروف شعراء حضرت احمد یسوی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سلطان بہاوالدین محمد ولد کے بعد یونس امرہ ہی وہ صوفی شاعر ہیں جن کا نام ترکی شاعری کے خواص میں زبان زد عام ہے۔ انکی متصوفانہ موضوعات پر لکھی گئی شاعری ہی کی بنا پر انہیں ‘رومی ثانی’ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آپکے شعری کلام میں رسالۃ النصوحیہ ہے جس کے معنی نصیحتوں کی کتاب کے ہیں۔ اسے مثنوی طرز پر لکھا گیا ہے۔ اسکے علاوہ آپ کا تقریباً چار سو نظموں پر مشتمل دیوان موجود ہے جس میں سے اکثر ترکی کتب میں ادب کا حصہ بھی ہیں۔ ان نظموں میں سے چند ایک کے نام درج کیے ہیں تاکہ شعری موضوعات کا اندازہ لگایا جاسکے۔
* تیری محبت نے مجھے مجھ سے لے لیا
*ایک وقت دل کے ساتھ
*جب وہاں بہار نہیں تھی
*آؤ اور مجھے دیکھو کہ محبت نے مجھے کیا بنادیا
*بالکل میں خود کو جانتا ہوں
*اے بیوقوف دل تو نے پھر کوشش کی
یونس امرہ کا دور حضرت جلال الدین محمد رومی رحمتہ اللہ علیہ کا دور ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ رومی ثانی کہلانے والے درویش یونس ابتداء میں تصوف اور خانقاہی نظام کے بالکل خلاف تھے بلکہ خانقاہوں اور درویشوں کو اسلام کا غیر حقیقی چہرہ تصور کرتے تھے۔ یونس امرہ جب صرف یونس تھے تب انہوں نے 1268ء میں قونیہ کے معروف مدرسے سے اپنی دینی تعلیم مکمل کرکے قاضی کی سند حاصل کی اور پھر آپ کو نالیحان شہر کا قاضی مقرر کردیا گیا۔ یہ وہ اوقات تھے جب شمال سے صلیبی، مشرق سے تاتاری اور باقی سرحدوں سے منگولوں نے مسلمانوں کو خوف و حراس کے دلدل کے اندر گرانے میں کوئی قصر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ نالیحان شہر کا حال بھی ان سب سے مختلف نہ تھا لیکن اس شہر کی فضاؤں میں روحانیت کی خوشبو معطر جھونکوں سے مسلمانوں کی ارواح کو تسکین دئیے ہوئے تھیں۔ یہ فضا کہیں اور سے نہیں بلکہ ایک خانقاہ سے ہی اٹھتی تھیں جسکے شیخ حضرت تاپتُک امرہ علیہ الرحمہ تھے جو خلافتِ عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کے شیخ حضرت شیخ ادہ بالی رحمتہ اللہ علیہ کے ہم مشرب و ہم مسلک اور آہی برادران کے پیش خیمہ تھے۔ حضرت تاپتک امرہ تصوف کے باکمال شیخ اور معرفتِ الٰہی کا ایسا دریا تھے جن سے سینکڑوں متلاشیانِ حق سیراب ہوئے اور پھر دوسرے علاقوں میں جاکر مخلوقِ خدا کو محبتِ الٰہی اور معرفتِ حق تعالیٰ سے منور و مزین فرمایا۔ یونس امرہ بھی حضرت تاپتک امرہ کی نگاہِ کرم کے باعث یونس امرہ بنے۔
حضرت تاپتک امرہ علیہ الرحمہ کا عاجزانہ انداز، محبت اور خلوص سے لبریز کردار، شیرینی و حق گوئی سے تر زبان نے یونس امرہ کو انکا گرویدہ کردیا تھا۔ یہاں تک کہ یونس امرہ جو خانقاہی نظام کے سخت مخالف تھے ، قاضی کے عہدے سے مستعفی ہو کر آپ علیہ الرحمہ کے حضور پیش ہوگئے اور بیعت ہونے کی عرضداشت کردی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ظاہری علم پر فخر کرنے والے جب مبلغ و مقربِ حق کے سائے تلے آئے تو ان کی تربیت اس انداز سے کی گئی کہ انکے زبان پر ہر سوال کے جواب میں ‘میں نہیں جانتا میں نہیں جانتا’ کا ورد رہتا تھا۔ حالانکہ یہ انکی تربیت کا ایک حصہ تھا جو نفس کی کمر توڑنے کیلئے خانقاہوں میں کروایا جاتا ہے
یونس امرہ کو انکے شیخ کی جانب سے خانقاہ کی صفائی ستھرائی کا بھی ذمہ دیا گیا تھا یہاں تک کہ بیت الخلاء کی صاف صفائی کی زمہ داری بھی انہی کے سپرد کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں، جانوروں کو کھانا کھلانے کا بھی فریضہ دیا گیا۔ ان دوران یونس امرہ اپنے نفس سے سخت جہاد کر رہے تھے بالآخر تزکیہ نفس کے ثمرات ایسے پھوٹے کے یونس امرہ ذکر قلبی و ذکر مخفی سے اپنے قلب و ذہن کی گرہ کھولتے چلے گئے۔ وجود میں عاجزی، روح کی بیداری، محبت کا فروغ انکے کردار کی ضمانت بن گیا۔ حضرت تاپتک امرہ علیہ الرحمہ نے جب یونس درویش کے وجود کا یہ عالم دیکھا تو فرمایا کہ آج سے دنیا تمہیں یونس امرہ کے نام سے جانے گی، امرہ یعنی محبت۔۔۔ أپ نے اپنی زندگی کے چالیس سال اپنے شیخ حضرت تاپتک امرہ علیہ الرحمہ کے ساتھ گزارے۔ آپکی وفات اناطولیہ (ترکی) کے ایک علاقے مہالیک میں 1321ء میں ہوئی۔ یہ مقام اب یونس امرہ کے نام سے منسوب ہے۔
اولیائے کاملین زمین کے کسی بھی خطے میں ہوں ان کا پیغام فقط اور فقط ایک ہی ہوتا ہے یعنی ‘محبتِ الہی۔۔۔ اللّٰہ کی طرف رجوع کرنا۔’ جو تعلیمات ہمیں ترکی کے بزرگوں کی کتب میں ملتی ہیں وہی تعلیمات ہمیں پاکستان کے صوفیائے کرام کی کتابوں میں بھی ملتی ہیں۔ جیسے حضرت تاپتک امرہ علیہ الرحمہ نے یونس امرہ کو فرمایا تھا کہ
” اپنے وجود تک کو فنا کردو اور ذاتِ باری تعالیٰ کی ذات کی بقا پر اپنا اعتقاد کامل کرلو”
بعین یہی پیغام برصغیر پاک و ہند کے مشہور صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف میں بھی ملتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں
‘اللّٰہُ بس ماسوٰی اللّٰہ ہوس’
پھر یونس ایمرے کے مطابق چاروں آسمانی کتب کا علم حرفِ الف یعنی اسم اللہ میں پنہاں ہے اور وہ اپنے کلام میں اس حرف الف کے معارف جا بجا بیان فرماتے ہیں اس طرح حضرت سلطان باهو رح بھی اپنے کلام کی ابتدا اسی الف کی شرح سے فرماتے ہیں۔
‘الف اللّه چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ھو’
آپ کا تو تمام کلام اور نثری تصنیفات اسی اسم اللہ کی شرح پر ہیں۔ آپ اپنی تصنیف لطیف عین الفقر میں اسی اسم اللہ کی شرح لکھتے ہوۓ فرماتے ہیں۔
“سن! توریت، زبور، انجیل اور اُم الکتب یعنی فرقان یہ چاروں کتابیں محض اسمِ “اللہ” کی شرح ہیں۔ اسمِ اللہ کیا چیز ہے؟ اسمِ اللہ عین ذات پاک ہے جو بے چون و بے چگون اور بے شبہ و بے نمون ہے اور جس کی شان میں آیا ہے: قل ھو اللہ احد۔ جو شخص اسم اللہ ذات کو پڑھ کر اس کا حافظ ہو جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے پڑھنے اور اس کے ذکر سے وہ علمِ لدّنی کھلتا ہے کہ جس کی نشاندہی اس فرمانِ حق تعالیٰ میں کی گئی ہے: علم ادم الاسماء کلھا (البقرہ۔31)ترجمہ: ”اور آدم علیہ السلام کو کُل اسماء کا علم سکھا دیا گیا۔”
فرمانِ حق تعالیٰ ہے : مما لم یزکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق (ترجمہ: جس چیز پر اسمِ اللہ نہ پڑھا جائے وہ چیز ناپاک ہے) یاد رکھ کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا عرش و کرسی اور لوح و قلم سے گزر کر حضورِ پروردگار میں قابَ قوسین کے مقام پر پہنچنا اور اللہ تعالیٰ سے بلاحجاب کلام کرنا محض اسمِ اللہ کی برکت سے ہوا کہ اسم اللہ دونوں جہان کی چابی ہے۔ساتوں طبقاتِ زمین اور ساتوں طبقاتِ آسمان جو بلاستون ایستادہ ہیں تو یہ محض اسم اللہ ہی کی برکت ہے۔جو پیغمبر بھی مرتبۂ پیغمبری پر پہنچا اور کفار پر فتح حاصل کر کے ان کے شر سے مامون ہوا تو یہ بھی محض اسم اللہ ہی کی برکت تھی کہ ان کا نعرہ ہمیشہ یہی ہوا کرتا تھا “اللہ ہی ہمارا معین و مددگار ہے۔” بندے اور مولیٰ کے درمیان رابطے کا وسیلہ یہی اسمِ اللہ ہی تو ہے۔ تمام اولیاء اللہ غوث و قطب اہلِ اللہ کو ذکر فکر الہام مذکور غرقِ توحید مراقبہ و کشف و کرامات اور علمِ لدّنی کے جتنے بھی مراتب نصیب ہوتے ہیں اسمِ اللہ ہی کی برکت سے ہوتے ہیں کہ اسم اللہ سے وہ علمِ لدّنی کھلتا ہے کہ جس کے پڑھ لینے کے بعد کسی اور علم کے پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی۔
حضرت سلطان باھُوکی شاعری میں استعمال ہونے والا اسم ’’ھُو‘‘ بھی خدا کی بڑائی اور اس بیکراں ذات سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔
آج ہمیں اولیاء اللہ کی تعلیمات کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی اسرارِ حق کو پاسکیں اور بارگاہِ ایزدی میں قلبِ سلیم لے جاکر سرخرو ہوسکیں۔ اولیائے کاملین کی تعلیمات قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے عین مطابق اور انکی شرح و تفسیر ہوتی ہیں اور وہ مشاہدات ہوتے ہیں جو ان پاک ہستیوں نے ہماری رہنمائی کیلئے تحریر فرمائے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن کریم کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اسکے باطن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے مقبول بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور دینِ اسلام کی اِن نیک شخصیات کی زندگیوں سے ہمیں رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین
“