صورت حال دلچسپ ہے۔ قاضی حسین احمد نے ایک روزنامے میں مضمون لکھا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کی ”ملی یکجہتی کونسل“ گیارہ نومبر کو اسلام آباد میں علما اور مشائخ کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ اس میں بڑی بڑی درگاہوں کے سجادہ نشین اور ان کے متعلقین شرکت کریں گے۔ قاضی صاحب کے بقول اس کنونشن کا مقصد یہ ہے کہ…. ”امت مسلمہ کے چہرے سے فرقہ بندی اور تعصبات کے داغ صاف کرکے امت کا ایک متحدہ صاف و شفاف چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے۔“ اس کنونشن میں سعودی عرب، ایران، ترکی، مصر، افغانستان، تیونس، مراکش، ملائیشیا، انڈونیشیا، تاجکستان، فلسطین، کویت، اردن، لبنان، قطر، بوسنیا، سوڈان، نیپال، ہندوستان، بنگلہ دیش، شام اور برطانیہ سے ممتاز اسلامی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ جس روز قاضی صاحب کا یہ مضمون شائع ہوا ہے، ٹھیک اسی روز یعنی 6نومبر کو جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اتحاد کے خواہاں ہیں جبکہ سید منور حسن ”وحدت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں“!
”ملی یک جہتی کونسل“ کا احیا چند ماہ پیشتر ہوا۔ قاضی حسین احمد اس کے صدر اور جے یو آئی فضل الرحمن گروپ کے حافظ حسین احمد سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ قاضی صاحب جماعت اسلامی کی بائیس سالہ سربراہی سے سبکدوشی کے بعد اب بھی اتنے ہی سرگرم ہیں جتنے پہلے تھے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کا فورم ان کی دسترس میں تھا‘ اب وہ کسی فورم کی تلاش میں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے ایک تھنک ٹینک کا ڈول بھی ڈالا جس کے ایک اجلاس میں کچھ ریٹائرڈ جرنیل اور متنوع نظریات رکھنے والے کچھ اصحاب شامل ہوئے لیکن غالباً وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ گویا قاضی صاحب کا حال بقول غالب یہ ہے
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
اگست میں ملی یکجہتی کونسل کا ایک اجلاس جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں بھی منعقد ہوا۔ اس میں اخباری اطلاعات کے مطابق جماعت کے موجودہ امیر سید منور حسن کو بطور خاص مدعو کیا گیا؛ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کونسل میں امیر جماعت کی کیا حیثیت ہوگی اور قاضی صاحب کونسل کی سرگرمیاں جماعت کی طرف سے جاری رکھے ہوئے ہیں یا اپنی نجی حیثیت میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ اس میں ابہام ہے۔ اگر کونسل کا اجلاس منصورہ میں منعقد ہوا ہے تو پھر یہ سرگرمی جماعت کے کھاتے میں پڑتی ہے اور اس کا انچارج امیر جماعت کو ہونا چاہئے اور اگر قاضی صاحب یہ نیک کام اپنی نجی حیثیت سے کر رہے ہیں تو جماعت کا اس سے تعلق سمجھ نہیں آتا۔ اس سے بھی زیادہ پیچیدہ صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو سابق امیر جماعت اور فضل الرحمن گروپ کے حافظ حسین احمد ملی یکجہتی کونسل میں شانہ بہ شانہ کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کا جو احیا کیا ہے اس میں جماعت کو شامل نہیں کیا اور مولانا اور سید منور حسن باہم مخالفانہ بیانات زور و شور سے دے رہے ہیں گویا ع
پا بدستِ دگری، دست بدستِ دگری
مولانا فضل الرحمن نے یہاں تک کہا ہے کہ جماعت کو شامل کیا تو ایسے ہی ہوگا جیسے الکحل کو شامل کر لیا جائے۔ سمیع الحق گروپ نے خود ہی نئی ایم ایم اے میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری طرف جماعت کے رہنما مسلسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کا رویہ اتحاد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس سارے پس منظر میں قاضی صاحب کا دنیا بھر کے ملکوں سے مسلمان رہنماﺅں کو بلا کر اتحاد امت کا پیغام دینا بہت عجیب لگتا ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں علامہ اقبالؒ کی فارسی شاعری سے متعدد اشعار پیش کیے ہیں۔ انہوں نے یقینا سعدی کو بھی پڑھا ہوگا اور اس کا یہ شعر ان کی نظروں سے ضرور گزرا ہوگا
تو کارِ زمین را نکو ساختی؟
کہ باآسمان نیز پرداختی!
کیا زمین کے معاملات نمٹ گئے ہیں کہ آسمان کا رخ کیا جا رہا ہے؟ ان کی آنکھوں کے سامنے نئی ایم ایم اے اور جماعت اسلامی دست و گریباں ہیں۔ مولانا ابو الخیر صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سید منور حسن اتحاد کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہے ہیں۔ یہ ایک سنگین الزام ہے۔ کیا عالم گیر کنونشن منعقد کرنے سے کہیں زیادہ ضروری کام یہ نہیں کہ قاضی صاحب اپنی کوششیں اور اپنے وسائل اپنے ملک کی مذہبی جماعتوں کے اختلافات ختم کرنے پر صرف کریں اور سب کو ایک چھت کے نیچے بٹھائیں؟ ملک کے اندر مذہبی قوتوں کے ”اتحاد“ کا یہ عالم ہے کہ جہاں بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ حضرات کے مدارس الگ الگ ہیں اور ان مدارس کے بورڈ الگ الگ ہیں‘ وہاں جماعت اسلامی کے مدارس اور بورڈ بھی الگ ہیں گویا جماعت بھی ایک الگ فرقہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جماعت کے وابستگان اپنے مدارس الگ قائم کرنے کے بجائے بریلوی یا دیوبندی یا اہل حدیث یا شیعہ مدارس سے استفادہ کر لیتے! اس ضمن میں بھی یہ منتشر قوم قاضی صاحب کی غیر معمولی صلاحیتوں کو آواز دے رہی ہے کہ
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو اِدھر بھی
ہمیں نہیں معلوم کنونشن پر اٹھنے والے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے لیکن اگر اسے گستاخی پر محمول نہ کیا جائے تو عرض کریں کہ محترم قاضی صاحب کے جتنے ملفوظات پرنٹ میڈیا میں مضامین کے طور پر شائع ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ملک کو درپیش مسائل کے متعلق نہیں ہے۔ وہ زیادہ تر اپنی ان خدمات کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے افغان جہاد کے سلسلے میں سرانجام دیں۔ کبھی وہ ان غیر ملکی جنگ جوﺅں کا ذکر کرتے ہیں جو بھیس بدل بدل کر ان کے پاس آتے رہے اور کبھی وہ ترکی، مصر اور دوسرے اسلامی ملکوں کے زعما سے اپنے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ عرب ممالک میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کو بھی انہوں نے موضوع بنایا ہے تاہم پاکستان کو گھن کی طرح کھا جانے والے صدیوں پرانے جاگیردارانہ اور سرداری نظام کے بارے میں وہ کیا خیالات رکھتے ہیں اور ان کے نزدیک زرعی اصلاحات کی کیا صورت ہونی چاہئے، ان کی تحریروں کے شائقین اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اسی طرح ہمارا تعلیمی نظام طبقاتی تقسیم پر مشتمل ہے اور بیک وقت چار پانچ تعلیمی نظام چل رہے ہیں۔ اس کے متعلق بھی ان کے خیالات ان کی تحریروں میں کبھی نظر نہیں آتے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کی ساری دلچسپیاں سرحدوں سے باہر مرکوز ہیں۔ اسی لیے وہ اس انتشار اور تفرقہ بازی پر کوئی توجہ نہیں دے رہے جس کا شکار ملک کے اندر کام کرنے والی مذہبی تنظیمیں ہیں۔
مذہبی گروہوں کی محاذ آرائی نے ایک خطرناک موڑ اس وقت لیا جب مزاروں پر، بالخصوص لاہور میں سید علی ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر، ہلاکت خیز دھماکے ہوئے۔ ایک گروہ دہشت گردوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔ دوسرا گروہ ان کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کے مطالبے کر رہا ہے۔ یہ محاذ آرائی دن بدن زیادہ زور پکڑ رہی ہے پھر ایک ہی مکتب فکر کے اندر تین گروہ (فضل الرحمن گروپ، سمیع الحق گروپ اور جماعت اسلامی) ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونکے کھڑے ہیں۔ تفرقہ بازی کا یہ عالم ہے کہ دستاروں کے رنگ تک الگ الگ ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے کی مسجد میں نماز پڑھنے کا تو خیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ درست ہے کہ ع’نہ افغانیم و نی تُرک و تتاریم‘ لیکن قاضی صاحب کی خدمت میں مودبانہ گزارش ہے کہ ترکوں اور تاتاریوں کو اکٹھا کرنے سے پہلے اپنے سیکرٹری جنرل حافظ حسین احمد کے قائد مولانا فضل الرحمن اور اپنی جماعت کے امیر سید منور حسن کو تو ایک فورم پر اکٹھا کر دیں
شہرت سنی ہے علمِ ریاضی میں آپ کی
طولِ شبِ فراق ذرا ماپ دیجیے