شدید بخار کا عالم تھا، ڈاکٹر نے دوائیوں میں ایک نیند کی گولی بھی لکھ دی اور تاکید کی کہ یہ ضرور کھانی ہے۔ رات گیارہ بجے میں نے گولیاں کھائیں اور گھوڑے، اونٹ، ریچھ، بندر وغیرہ بیچ کر سو گیا۔ ٹھیک تین بجے موبائل کی بیل بجی، نیند کے عالم میں تکیے کے نیچے ہاتھ مار کر موبائل بند کرنے کی کوشش کی لیکن انگوٹھا غلط سائیڈ پر گھسیٹ دیا، فون بند ہونے کی بجائے آن ہوگیا۔دل کو اطمینان ہوا کہ فون بند ہوگیا ہے، تاہم ساری خوشی اس وقت غارت ہوگئی جب برادرم اجمل شاہ دین کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔میرے کانوں میں صرف یہی الفاظ پڑے کہ مارشل لاء لگ گیا ہے۔ ظاہری بات ہے اس کے بعد نیند کہاں رہنی تھی۔میں ایک جھٹکے سے اٹھا اوراپنی غلط فہمی کی تصدیق چاہی۔ پتا چلا کہ ترکی میں فوج آگئی ہے۔جھٹ سے چھلانگ لگائی اور ٹی وی آن کیا، ایسا لگا جیسے کسی جنگ کے مناظر دیکھ رہا ہوں۔ ہر ٹی وی چینل چیخ رہا تھا کہ ترکی میں فوج نے بغاوت کر دی ہے، حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے اور فوج کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی یہ بیان آگیا ہے کہ اقتدار فوج نے سنبھال لیا ہے۔
ساتھ ہی یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ طیب اردگان نے عوام کو سڑکوں پر آنے کی درخواست کی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سین بدلنا شروع ہوگیا۔لوگوں کے اکٹھ کے اکٹھ باہر نکل آئے، کچھ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، کچھ ٹینکوں کے اوپر چڑھ گئے اورباغی فوجیوں کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔۔۔اور پھر تاریخ نے یہ حیران کن منظر دیکھا کہ عوامی طاقت کے آگے ہر قسم کا اسلحہ بے کار ہوگیا اورصبح ہونے تک منتخب حکومت دوبارہ اقتدار سنبھال چکی تھی۔
عوام بہت بڑی طاقت ہوتے ہیں، جمہوریت ہو یا آمریت ، سب کو عوام ہی کی حمایت کا دعویٰ ہوتاہے، تاہم اس کی تصدیق اسی وقت ہوتی ہے جب الیکشن ہوتے ہیں یا مارشل لاء لگتاہے۔ترکی میں فوج کشی کے لیے پرانا طریقہ اختیار کیا گیا یعنی سب سے پہلے سرکاری ٹی وی پر کنٹرول حاصل کیا گیا اور پھر ٹینک سڑکوں پر لاکر عوام کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی گئی ‘ تاہم اس لحاظ سے یہ دنیا کا مختصر اور منفرد ترین مارشل لاء تھا جس میں چیف آف آرمی سٹاف کو بھی یرغمال بنا لیا گیا ‘ شائد اسی لیے کافی دیر تک تو سمجھ ہی نہ آسکی کہ مارشل لاء لگایا کس نے ہے؟لیکن ایک بات تو طے ہے، جو کچھ ترک عوام نے کیا ہے اس پر انہیں زوردار سیلوٹ دینا بنتا ہے۔
طیب اردگان کوئی بہت زیادہ مقبول لیڈر نہیں، ان کو پسند اور ناپسند کرنے والوں کی تعداد لگ بھگ یکساں ہے، ان پر کرپشن کے بھی الزامات ہیں ‘ اس کے باوجود جمہوریت مخالف اقدام پر سارا ملک سراپا احتجاج بن گیا‘ وہ لوگ بھی سڑکوں پر نکل آئے جو طیب اردگان کے خلاف تھے لیکن جمہوریت کے حق میں تھے۔باغی فوجی ٹولے کو اندازہ ہی نہیں ہوسکا کہ یہ 2016 ہے اور اب و ہ محض اسلحے کے زور پر سب کچھ ملیا میٹ نہیں کر سکتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رات کی ٹرانسمشن میں ہمارے کچھ اینکرز کے چہروں کی خوشی دیکھنے والی تھی، ان کی باچھیں کھلی جارہی تھیں کہ ترکی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہاں بھی عنقریب برپا ہونے والا ہے لیکن صبح تک ان کے چہرے کی رونق زردی میں تبدیل ہوچکی تھی اور سارے تجزیوں کا بھرکس نکل چکا تھا۔
سوشل میڈیا پر ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی، اکثر احباب نے ترکی میں جمہوریت کی فتح کی مبارکباد دینے والوں کو نواز شریف کا ساتھی ہونے کے طعنے دے ڈالے۔گویا جہاں جہاں کوئی جمہوریت کا حامی ہے وہ نواز شریف کا ساتھی اور عمران خان کا دشمن ہے۔لیکن خیر فیس بک کے تبصروں پر اگر زندگی سدھارنا شروع کردی جائے تو بندہ پاگل ہوجائے۔مجھے تو مبارکباد دینی ہے ان سب کو جو جمہوریت پسند ہیں، جو عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، جنہیں نواز شریف، عمران خان یا زرداری سے زیادہ جمہوریت عزیز ہے‘ جنہیں فوج سے محبت اور آمریت سے نفرت ہے۔بدقسمتی سے ہمیں ہر دور میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جمہوریت بری بلا ہے۔عام لوگ بھی جمہوریت کے فوائد سے لاعلم ہونے کی بنا پر یہی سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ہو یا آمریت ، ہمیں کیا فرق پڑتاہے۔ نہیں حضور۔۔۔فرق تو پڑتاہے۔
یہ جو آج ہم بلاجھجک نواز شریف سمیت ہر سیاستدان کو گالی دے سکتے ہیں یہ آپ ذرا آمریت میں کر کے دکھائیے۔چھوٹی سی مثال لے لیجئے! کوئی بھی سیاستدان بیرون ملک جائے یا کوئی بیان دے تو ہم اس کے بخئے ادھیڑ کے رکھ دیتے ہیں ‘ ذرا آمریت کے دور کے اخبارات نکالئے اور دیکھئے کہ کیا کوئی کسی آمر کے خلاف زبان کھولنے کی ہمت کر سکتا ہے؟آمریت کے تمام فیصلے ٹھیک ہوتے ہیں اور سب کو ماننا پڑتے ہیں۔آمریت میں کوئی تنقید نہیں ہوتی، کوئی خبر نہیں ہوتی ، کوئی سکینڈل نہیں بن سکتا، کوئی کرپشن کی سٹوریاں نہیں چھاپ سکتا‘اسی لیے آمریت کے دور میں سب کو لگتاہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے‘ یہی آمریت کا حسن ہے۔
اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا ہی ہمیں بتاتے ہیں کہ سیاستدان کیا کررہے ہیں، لیکن اگر یہاں کوئی خبر ہی نہیں ہوگی تو پھرکیسی خبر اور کیا تبصرہ؟رہ گیا سوشل میڈیا تو یہ بھی صرف اس لیے آزاد ہے کہ یہاں بھی جمہوریت ہے۔آپ نے کبھی آمریت کے دور میں کوئی بینرز لگے نہیں دیکھے ہوں گے کہ ’مشرف اب جان چھوڑ دو‘۔۔۔صرف اس لیے کہ آمریت کی رخصتی کی خواہش کرنا بھی غداری کے زمرے میں آتاہے۔محب الوطنی صرف یہ ہے کہ سیاستدانوں کو جی بھر کے گالیاں دیجئے، ان کے کارٹون بنائیے، ان کی آوازوں پر ڈبنگ کرکے مذاق اڑائیے اور ان کی رخصتی کے بینر لگوائیے۔
آمریت کے خلاف ہماری اکثریت تب ہی بولتی ہے جب یقین ہوجائے کہ آمر کے پر کٹ چکے ہیں یا اب دیوار گرنے ہی والی ہے۔جس طرح گلی محلوں میں طاقتور لوگوں سے دوستی وہی کرتاہے جس کی اپنی کوئی نہیں سنتااسی طرح جمہوریت میں بھی وہ لوگ جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ جمہوریت کو گالیاں دیتے ہیں اور طاقتورلوگوں کی لیپا پوتی کر کے انہیں آنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ ان کی اپنی بھی کوئی دھاک بیٹھ سکے۔
ترکی نے ایک نیا جنم لیا ہے، کیا تاریخ ساز دلچسپ صورتحال تھی کہ آٹھ باغی فوجیوں کا ٹولہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر یونان فرار ہوگیا اور وہاں جاکر سیاسی پناہ کی درخواست کر دی۔ساری بہادری رخصت ہوگئی اور جان بچانے کی فکر پڑ گئی۔اب کم ازکم ترکی میں مارشل لاء کبھی نہیں لگ سکتا ‘ اس ایک تجربے نے بہت سے ملکوں کا مقدر سنوار دیا ہے۔ترک عوام نے باغی فوجیوں کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر ثابت کر دیا ہے کہ عوام ووٹ کے ذریعے خود حکومت کا احتساب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کے لیے کسی ایسے ادارے کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں جو بندوق ہاتھ میں لے کر عوام سے کہے’’چلو کہو کہ میں بہت خوش ہوں‘‘۔
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“