ترکی سے عشق ِ ترکی تک
روزنامہ جنگ میں 27جون کو ایک کالم بعنوان ’’عوامی رہنما ایردوان کی جیت‘‘ شائع ہوا۔ اس کے لکھاری جناب ڈاکٹر فرقان حمید صاحب ہیں۔ اس کالم کا عنوان تو دوست ملک ترکی کے صدر کے انتخاب کے حوالے سے ہے مگر کالم کا بیشتر حصہ راقم کے حوالے سے لکھا گیا۔ نام لیے بغیر میرے مکمل تعارف اور شناخت کے ساتھ پرانی دوستی اور احسانات کا حوالہ دے کر جس طرح موصوف نے تنگ نظری، حسد، تعصب، کردارکشی، صحافتی نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے، میرے جیسے آزاد قلم کار کے لیے اب لازمی تھا کہ میں اس کا جواب دوں۔ چوںکہ محترم فرقان حمید نے میری اُن تحریروں پر جو انہی صفحات پر روزنامہ نئی بات میں شائع ہوئیں، تنقید کرنے اور اختلافِ رائے رکھنے کی بجائے مکمل طور پر بغض اور کردارکشی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا، لہٰذا مجھ پر لازم تھا کہ میں ان صفحات پر شائع ہونے والے تجزیوں پر تنقید کی بجائے کردارکشی کا جواب دوں۔
انہوں نے اپنے کالم میں طنزاً مجھے ترکی کے امور کا ماہر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے مسلسل ترک صدر طیب اردوآن کے خلاف مہم جاری رکھتے ہوئے ریپبلکن پیپلزپارٹی کے رہنما محرم اینجے کی کامیابی کو اپنے کالموں اور عالمی نشریاتی اداروں میں موضوع بنا رکھا ہے۔ اگر موصوف ترکی الیکشن سے پہلے کے میرے کالم، بی بی سی اور سوشل میڈیا کا سارا پرنٹ اور الیکٹرانک مواد دوبارہ دیکھ لیں تو اُن کو معلوم ہوجائے گا کہ میں نے تجزیے پیش کیے ہیں ، وہ کسی بھی امیدوار کے حق یا خلاف مہم ٹھہرائی نہیں جاسکتی۔ میں نے اپنے سارے کالموں، سوشل میڈیا اور بی بی سی جیسے معتبر عالمی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بار بار اس تجزیے کو پیش کیا کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ اور صدر ترکیہ جمہوریہ طیب اردوآن سب سے مقبول لیڈر اور امیدوار ہیں اور اُن تجزیات میں بیان کیا کہ بحیثیت صدارتی امیدوار وہ اپنے مدمقابل تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ مقبول ہونے کے باوجود پہلی مرتبہ پچاس دنوں میں مقبول ہونے والے صدارتی امیدوار محرم اینجے کا سامنا کررہے ہیں۔ اگر وہ ترکی کے حقائق کو جانتے ہیں تو اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلے سولہ سالوں میں محرم اینجے ایسے پہلے لیڈر ہیں جو متبادل مقبول لیڈر کے طو رپر ابھرے ہیں، خود اپنی جماعت CHP کے پلیٹ فارم سے اکتالیس سال بعد کسی لیڈرکو اس مقبولیت ملی۔ اُن کو صدارتی مہم میں کُل پچاس دن ملے۔ اس دوران ایک متبادل مقبول لیڈر کا ظہور ایک قومی امید اور عالمی خبر تھی۔ اور اس طرح جمہوری عمل کے دوران ایک اور مقبول لیڈر کا ظہور کسی جمہوریت کا حُسن اور طاقت ہے، خطرہ نہیں۔انہی تجزیوں میں یہ بھی عرض کیا کہ طیب اردوآن تمام تر مقبولیت کے باوجود دو سے تین فیصد ووٹوں سے پہلے رائونڈ میں ہار سکتے ہیں کیوںکہ کامیاب امیدوار کے لیے پچاس فیصد ووٹ لینا لازمی تھا۔ اور ایسا ہی ہوا، وہ ایک تنگ نظر ترک قوم پرست جماعت ملی حرکت پارٹی جو مصطفی کمال پاشا کو اپنا ملجا وماویٰ سمجھتی ہے، کے بھرپور تعاون اور انہی کے سبب گیارہ فیصد ووٹ سے ہی کہیں 52.38فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اگر وہ صرف پونے تین فیصد ووٹ کم لیتے تو اُن کو پہلے رائونڈ میں شکست ہوجاتی اور پھر 7جولائی کو دوسرا رائونڈ ہوتا جو صرف پہلی دو پوزیشنز لینے والوں کے درمیان ہونا تھا۔ تب کیا صورتِ حال ہوتی، اس کے بارے میں تجزیے کو کیاہم ’’باقاعدہ خلاف مہم‘‘ قرار دیں گے؟
موصوف فرقان حمید چوں کہ اپنے مفادات کے لیے کچھ بھی کرجانے کو ترکی میں معروف ہیں، اس لیے اگر آج صدر طیب اردوآن اقتدار سے علیحدہ ہوچکے ہوتے تو ان کا تبصرہ یقینا مختلف ہوتا اور اِس وقت وہ میرے ساتھ دوستی کے پرانے تانے بانے تلاش کررہے ہوتے نہ کہ میری کردارکشی اور میرے خلاف سنگین الزام تراشی کرنے کی ہمت کرتے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ موصوف خودغرضی، مفادپرستی اور موقع پرستی کی اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ اپنے اِس دوست کے اس احسان کو بھول گئے جب راقم کے دوست عظیم ترک رہبر بلند ایجوت نے بحیثیت وزیراعظم ،راقم کی درخواست پر خصوصی طور پر ترک قومیت کے لیے دستخط فرما کر اُن کو ترکیہ جمہوریہ کا پاسپورٹ عطا کروایا۔ وہ راقم کو اپنے ہاں ہوسٹل میں ٹھہرانے کے احسان کے ساتھ راقم کے اِن احسانات کی طویل فہرست بھی یاد رکھنا چاہیے تھی کہ راقم نے اپنے عظیم دوست بلند ایجوت سے دوستی میں کوئی ذاتی مفاد اٹھانے سے تو گریز کیا مگر جناب فرقان حمید کو اقتدار کے ایوانوں میں داخل کردیا جہاں سے آگے نکلنے کے لیے وہ اب اِسی دوست کی کردارکشی اور اس کی آزادی سلب کرنے سے بھی گریز نہیں کررہے۔اور جھوٹ پر مبنی الزامات لگا رہے ہیں۔
ہاں میں پھر یہ حقیقت لکھتا ہوں کہ محرم اینجے نے ازمیر میں تیس لاکھ، انقرہ میں دس لاکھ اور استنبول میں پچاس لاکھ کے جلسے کیے۔ انہوں نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ان جلسوں کا ذکر نہ تو ترکی کے قومی اخبارات اور نہ ہی عالمی میڈیا میں ہو ا۔ افسوس آپ ترک زبان پڑھ لینے کے باوجود بھی اس قدر عجمی ہیں! اللہ اللہ! بی بی سی نے مجھ سے انہی نکات پر الیکشن کے دوسرے روز انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر محرم اینجے نے اتنے بڑے جلسے کیے تو وہ کامیاب کیوں نہ ہوئے۔ راقم کا جواب تھا کہ محرم اینجے کے جلسے جن شہروں میں ہوئے، وہاں وہ کامیاب ہوئے جبکہ طیب اردوآن کی جماعت سولہ سال سے اقتدار میں ہے اور ملک کے دور دراز گلی محلے تک پارٹی کا نیٹ ورک موجود ہے، اس لیے اُن کا انتخاب لڑنے کا طریقہ کار، حکمت عملی اور اثرورسوخ محرم اینجے سے کہیں زیادہ دور افتادہ علاقوں اور گلی محلوں تک پھیلا ہوا ہے۔
جناب فرقان حمید نے راقم جیسے ترک عاشق کو جو ترکی کی ایک یعنی اقتداری پارٹی تک عشق نہیں بلکہ پورے ترکی اور ترکوں کا عاشق ہے، کے خلاف ایسے الزامات لگائے ہیں جو ایمرجینسی لگے ملک میں میرے جیسے آزاد اور اکیلے شخص سے انتقام لینے کے سوا کچھ نہیں اور دربار میں اپنی وفاداری جتانے کا ’’سنہری موقع‘‘ملنے کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے آگے چل کر 15جولائی 2016ء کی فوجی بغاوت ، جسے سارے ترک عوام اور تمام ترک سیاسی جماعتوں نے مل کر ناکام بنایا اور ناکامی کو مل کر Celebrate کیا، کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں ایردوآن دشمنی میں اس قدر آگے نکل گیا کہ فوجی بغاوت کی رات کو میں نے پاکستان اور عالمی میڈیا میں یہ کہا کہ فوجی بغاوت میں ایردوآن قتل ہوچکے ہیں۔ یہ ایک مکمل جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی بیان ہے۔ اپنے اس بیان کے لیے انہوں نے روزنامہ جنگ کے معروف کالم نگار جناب حفیظ اللہ نیازی کا حوالہ دیا کہ انہوں نے بھی اس کی ایک ملاقات میں تصدیق کی۔ راقم نے جب حفیظ اللہ نیازی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس قصے، ملاقات اور تصدیق کرنے کے بارے کچھ معلوم نہیں۔ فرقان حمید کیسے اپنی بات میرے نام کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔ آپ کو خوفِ خدا بھی نہیں۔ دراصل فرقان حمید صاحب پاکستان ترکی دوستی کے نام پر کچھ کر گزرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایک ایسا شخص (راقم) جس نے ترکی کے ساتھ تعلقات بنانے میں اپنی سطح پر پچھلے پینتیس سالوں میں وقت، علم اور سرمایہ لگایا، اس کے بارے میں ان کی باتوں کے پیچھے گھٹیا طریقے سے مفادات اٹھانے کی خواہش کارفرما ہے۔ انہوں نے مجھے بائیں بازو سے ہونے کا طعنہ دیا ہے، میرے لیے یہ فخر ہے۔ پاکستان کے خفیہ اداروں سے لے کر امریکہ کے معروفِ زمانہ خفیہ اداروں کی فائلوں میں، میں ایک بائیں بازو کا ایکٹوسٹ اور قلم کار ہوں۔ راقم کی دوستیاں، تعلقات اور انسانی رشتے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد تک پھیلے ہوئے ہیںاور مجھے ان مختلف الخیال دوستیوں پر بھی فخر ہے۔موصوف نے مجھے ریپبلکن پیپلزپارٹی کا طرف دار ثابت کیا ہے۔ بلند ایجوت سے دوستی پر مجھے فخرہے۔ وہ پاکستان اور ترکی کے مقبول لیڈر اور نہایت قابل احترام انسان اور رہبر تھے۔ آپ نے موقع پرستی کے لیے ایک ایسے شخص کو نشانہ بنایا ہے جو عملی طور پر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر اپنے محدود وسائل کے باوجود پاک ترک دوستی کے رشتے مضبوط کرنے کی اپنی پہچان رکھتا ہے۔ رہی بات سیاسی تجزیوں کی تو وہ پاکستان کی سیاست ہو یا ترکی کی، اس بارے میں میری رائے کو ’’دشمنی پر مبنی مہم‘‘ کہنا، جہالت کے سوا کچھ نہیں۔میرا عشق ترکی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہے، طیب اردوآن سے لے کر محرم اینجے اور اناطولیہ کے کسانوں سے لے کر ازمیر کے سمندری کناروں تک میرا عشق ِترکی پھیلا ہوا ہے۔ سیاسی عمل میں مَیں جمہوریت کا مداح ہوں جس میں طیب اردوآن ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ میرے عشق (ترکی) کے صدر ہیں۔ میرے لیے پاک ترک دوستی میرے عشق ترکی کا حاصل ہے جس پرمیں کبھی بھی حرف آنے دینا نہیں چاہوں گا۔ ترکی کی ایک سرزمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک۔
“