شمال مغربی شام میں راس العین اور تل ابیض جیسے شہروں پر اب ایک بیرونی فوج قابض ہے۔ یہ نیا سلسلہ 9 اکتوبر 2019 کو فضائی حملوں سے شروع ہوا تھا جب ترکی نے اپنے ہمسائے کے علاقے پر پیشقدمی شروع کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اندازے کے مطابق ابھی تک ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ کوبانی، عین عیسیٰ، قامشلی، سلوک کے شہر اس تازہ چھڑ جانے والی جنگ کا نشانہ ہیں۔ کوبانی وہ شہر تھا جس میں داعش کے خلاف جنگ کا رخ بدلا تھا۔ چار سال بعد سیرین ڈیموکریٹک فورس کے قبضے میں رہا۔ اب ان کی پسپائی کے بعد پہلی مرتبہ یہ روسی فوج کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
ترکی کئی برسوں سے اس علاقے کو “سیف زون” بنانے کے پلان کا ذکر کرتا آیا ہے۔ ایک نظر اس پر کہ یہ ماجرا کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام میں 2011 میں حکومت کے خلاف تحریک اٹھی۔ (تفصیلات نیچے دئے گئے لنکس سے)۔ اس کے بعد ہونے والی خانہ جنگی نے شام کی شمال میں طاقت کا خلا پیدا کر دیا۔ اس خلا کو داعش نے پُر کیا۔ اس میں وہ علاقے بھی تھے جہاں پر کرد اکثریت تھی۔ کرد ملیشیا نے ان کا مقابلہ کامیابی سے کیا۔ امریکہ نے ان کا پورا ساتھ دیا۔ کرد اور عرب عسکری دستوں نے شامی جمہوری اتحاد بنا لیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ کرد اکثریت کے زیرِنگیں علاقہ وسیع ہو گیا۔ پہلی بار کرد کنٹرول میں تھے۔ یہ روہاوا کا علاقہ تھا۔ 2019 کے آغاز تک شمالی علاقے پر سے داعش کے مضبوط قبضے کو چھڑوایا جا چکا تھا۔ امریکی افواج بھی یہاں پر تھیں۔ سرحد کی دوسری طرف ترکی کے لئے یہ سب کچھ ایک خطرہ تھا۔ اس کی وجہ ترکی کا علیحدگی پسند گروپ پی کے کے تھا جو ترک حکومت کے خلاف کئی دہائیوں سے لڑ رہا تھا۔ پی کے کے ترکی میں کردوں کے لئے خودمختاری کے لئے لڑتا رہا ہے اور ترکی کی نظر میں یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ تیس سال سے جاری اس تنازعے میں ترکی کے اندر دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ترکی اپنے ملک میں پی کے کے اور شامی کرد فورس کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور یہ پیشرفت اس کو بالکل پسند نہیں۔ دونوں طرف ایک ہی نسل کی لوگ ہیں۔ ترک تنظیم شامی تنظیم سے سبق لے سکتی ہے۔ ترکی کا خوف بے جا نہیں۔
اس سب کو دیکھتے ہوئے ترک حکومت نے فروری 2019 میں اعلان کیا کہ وہ یہ سب کو برداشت نہیں کر سکتے اور ان کی سرحد کے قریب بننے والا یہ علاقہ غیرقانونی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکی شام پر سب سے پہلے 2016 میں حملہ آور ہوا تھا۔ یہ حملہ سرحدی علاقے الباب پر تھا جہاں پر داعش کا قبضہ تھا۔ کرد پیشرفت کر رہے تھے۔ ترکی نے پہلے اقدام کر کے یہاں پر حملہ کر کے داعش سے یہ علاقہ چھین لیا۔ ترکی نے دوسرا بڑا حملہ 2018 میں کیا۔ اس بار یہ حملہ سیرین ڈیموکریٹک فورس کے قبضے میں شہر عفرین پر کیا گیا۔ پچپن روز کی جنگ کے بعد شہر خالی کروا لیا گیا۔ یہ علاقے ترکی کے ہاتھ آ گئے۔
دوسری طرف ترکی کو اپنے ملک کے اندر مسائل کا سامنا تھا۔ ترکی کی معیشت کریش ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور ٹرکش لیرا کی قیمت میں تیزی سے کمی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام میں ہونے والی جنگ میں ساٹھ لاکھ افراد کو ملک سے نکلنا پڑا۔ ان مہاجرین میں سے سب سے زیادہ ترکی میں ہیں، جن کی تعداد چھتیس لاکھ ہے۔ (دوسرے ہمسائیوں میں لبنان میں نو لاکھ، اردن میں ساڑھے چھ لاکھ اور عراق میں اڑھائی لاکھ کے قریب شامی مہاجر ہیں)۔ اس معاشی بحران کی وجہ سے شامی مہاجرین کے خلاف لوگوں کی رویے میں سختی آ گئی۔ کئی لوگوں نے بحران کا ذمہ دار مہاجرین کو ٹھہرایا۔ اس دوران مارچ 2019 میں ہونے والے مقامی انتخابات میں نہ صرف حکومت گیارہ علاقے سے سیٹیں ہار گئی، بلکہ آٹھ سیٹیں پہلی مرتبہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے حصے میں آئیں جو ترک کردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھی۔ (اکاسی علاقوں میں حکومت کا کنٹرول پچاس سے کم ہو کر انتالیس پر رہ گیا تھا)۔
حکومت پر پریشر تھا کہ وہ کچھ کرے۔ اس الیکشن کے بعد وہ اپنے اس خیال کے بارے میں عمل کرنے پر سنجیدہ ہو گئے جس کے بارے میں وہ برسوں سے بات کرتے آئے تھے۔ یہ ترکی اور شام کے درمیان “سیف زون” کا آئیڈیا تھا۔ ترکی کے پاس کچھ علاقہ تو تھا لیکن ایک مزید بڑے علاقے تک اس کو پھیلانا چاہتا تھا۔ ترکی کے نئے پلان کے مطابق شامی مہاجرین کو اس جگہ پر آباد کر دیا جائے گا۔ پہلے اس پلان کے بارے میں روس سے معاہدہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ اندرونی سیاسی پریشر بڑھ رہا تھا۔ اب ترک وزیرِ خارجہ نے پہلی بار اعلان کیا کہ وہ اس کو عسکری طریقے سے اور اکیلے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں ایک رکاوٹ باقی تھی۔ امریکی فوج، جو اس علاقے میں تھی۔ اس فوج کی موجودگی میں عسکری آپریشن نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگست 2019 میں اس پر ترکی اور امریکہ کے درمیان طے ہوا کہ اس سرحدی علاقے پر دونوں افواج مشترکہ نگرانی کریں گی اور یہ علاقے شام کی سرحد کے اندر پانچ کلومیٹر تک جائے گا۔ امریکہ نے سیرین ڈیموکریٹک فورس سے منوا کر یہ علاقہ خالی کروا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمتبر 2019 میں اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہوا۔ اس میں ترکی کے صدر نے اپنی تقریر کے دوران ایک نقشہ نکالا۔ اس نقشے میں انہوں نے پہلی بار یہ پیش کیا کہ وہ اب کہیں زیادہ بڑا علاقہ چاہتے ہیں۔ (ساتھ لگی تصویر اس وقت کی جب یہ پلان اقوامِ متحدہ میں دکھایا گیا)۔ تیس کلومیٹر گہرا اور چار سو اسی کلومیٹر چوڑا علاقہ سیف زون ہو گا۔ اس بار اسکو “امن کی راہداری” کا نام دیا گیا تھا اور کہا گیا کہ بیس لاکھ مہاجرین کو یہاں پر رکھنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ پہلے سے آباد علاقے تھے۔
ترک صدر نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک کال کی۔ اس کال کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ “اب اس خطرناک علاقے سے فوجیں واپس بلانے کا وقت ہے اور کرد ہمارا مسئلہ نہیں ہیں”۔ اپنا اتحاد توڑ کر امریکی افواج کو عراق منتقل کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترک افواج نے اپنا حملہ آخری امریکی ٹرک کے عراق کی سرحد پار کر لینے کے بعد 9 اکتوبر کو کیا۔ اس میں ترک لڑاکا طیاروں کے علاوہ زمینی فوج اور عرب نجی ملیشیا بھی ہے جس کا کام کردوں کو یہاں سے بے دخل کرنا ہے۔
اس نئے حملے نے طاقت کا ایک اور خلا پیدا کر دیا ہے جس کو ایک نئی طاقت تیزی سے پُر کر رہی ہے۔ اچانک سب کچھ بدل جانے کے بعد کردوں نے دوستی کا ہاتھ شام کی حکومت کی طرف بڑھا دیا ہے۔ کئی علاقوں کا کنٹرول اس کے حوالے کر دیا ہے۔ جو اس تمام بغاوت کے بعد پہلی بار اس کے ہاتھ آئے ہیں۔ روس، جس کی دوستی ترکی سے بھی ہے اور شام سے بھی، یہاں کا بڑا پاور بروکر ہے۔ ترکی اور روس کے ٹینک یہاں اب مشترکہ گشت کر رہے ہیں۔
جہاں تک یہاں رہنے والے شہریوں کا تعلق ہے، یہ انکو بیچ منجدھار میں چھوڑ جانے والے امریکیوں کو بھی اور آنے والے روسی اور ترک ٹینکوں کو بھی پتھر مارتے ہیں۔
ترک فوج کا پتھروں سے استقبال
امریکی فوج کا پتھروں سے الوداع
اس پر ڈاکومنٹری
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...