ترکی، صدارتی یا نئے طرزِحکمرانی کی طرف؟
ترکی کل 16اپریل کو اپنی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔ 1923ء میں جمہوریہ کے قیام کے بعد کل ہونے والا ریفرنڈم ترکی میں طرزِ حکمرانی کا فیصلہ کرے گا۔ پارلیمانی جمہوریت یاکہ ایک مضبوط صدارتی نظام؟ 1923ء کے بعد ترکی میں پارلیمانی جمہوریت نے اختیارات کی تقسیم کا ایک طویل سفر کیا، سخت گیر حکمرانی سے وسعت پذیر حکمرانی، یعنی فرد یا چند افراد کی حاکمیت کی بجائے عوام کا اقتدار اور حکومتی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مداخلت کا حق۔ 1923ء سے جاری جمہوریت کا یہ سفر ترکی کو مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کی ایک مثالی ریاست بنانے کی طرف لے گیا۔ فوجی مداخلتوں کے باوجود Democratization کا یہ عمل صرف ریاست ہی نہیں، سماج تک میں پھیلتا، پھلتا اور پھولتا چلا گیا۔ 2002تک جب طیب اردوآن کی پارٹی کو حکومت میں آنے میں کامیاب ہوئی، ترکی ایک مثالی جمہوریت اور مضبوط معیشت رکھنے والا ملک بن چکا تھا۔ مغرب اور مشرق، ترکی کو حسرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ اقتدار میں آنے کے بعد جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے عبداللہ گل اور طیب اردوآن کی قیادت میں اس سفر کو جاری رکھا اور یوں پارلیمانی جمہوری اقتدار جس کے بل بوتے پر ترکی شان دار جمہوریت اور معیشت کا سفر کرچکا تھا، اسی بنیاد پر اس نئی پارٹی نے ترکی کی معیشت میں اپنا فعال کردار ادا کیا۔ 2002ء تک ترکی میں مقبول سیاسی ایجنڈا تھا، (1) More Democracy (2) Strong Economy۔ AKP اپنی پہلی مدتِ حکومت میں اسی پر کاربند رہی۔ 2006ء تک مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ جمہوریت معدوم ہونے لگی جوکہ تیسری مدتِ حکومت تک مضبوط جمہوریت سے مضبوط لیڈرشپ میں ڈھلنی شروع ہوگئی۔ اس دوران عبداللہ گل سے لے کر احمت دعوت اولو تک AKP کی لیڈرشپ کو یہ احساس دلایا گیا کہ آپ پارٹی کے لیڈر جناب طیب اردوآن کے ہی مرہون منت ہیں اور ان دونوں لیڈروں کی سیاست ’’مضبوط لیڈرشپ‘‘ کے سامنے گھائل ہوگئی۔ وزیراعظم طیب اردوآن نے اپنی قیادت کو ترکی کے ساتھ لازم وملزوم رکھنے کے لیے صدارتی محل سنبھال لیا اور متعدد کوششیں ہوئیں کہ ترکی پارلیمانی جمہوریت سے مضبوط صدارتی نظام کی راہ اختیار کرے۔ صدر طیب اردوآن جو پارلیمانی جمہوریت میں رسمی صدر ہیں، اُن کے نزدیک ترکی اور اردوآن لازم وملزوم ٹھہرے۔ گو دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کی کوشش ایک ریاست کے لیے صدارتی نظام کے لیے نہیں بلکہ ایک صدر کے لیے صدارتی نظام کی تلاش تھی۔ اور یوں انہوں نے صدارتی نظام کے حصول کے لیے موجودہ پارلیمنٹ سے اٹھارھویں ترمیم منظور کروائی۔ وہ طیب اردوآن جن کو مسلم دنیا میں اسلامی لیڈر قرار دیا جاتا ہے، انہوں نے ترکی کی، تنگ نظر قوم پرست ملی حرکت پارٹی سے اتحاد کیا تاکہ آئین میں ترمیم کی جاسکے اور پھر اس کے لیے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ ترکی جس نے تقریباً نوے سال تک علاقائی تنازعات میں عدم مداخلت کا قومی فیصلہ کررکھا تھا، اس دوران علاقائی تنازعات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں پیش پیش ہوا۔ لیبیا، عراق اور پھر شام۔ اس نے جنگوں کو ترکی کی سرحدوں تک اور مذہبی دہشت گردی کو سرحدوں کے اندر راستے بنانے میں مدد دی۔ پُرامن ترکی اب جنگوں کے دہانے اور دہشت گردی کے بڑے نشانے پر ہے۔ مضبوط جمہوریت، مضبوط لیڈرشپ اور مضبوط معیشت تحلیل کے عمل میں داخل ہوچکی ہے۔ اور سب سے اہم بات ایک قوم دو حصوں میں بری طرح بٹ چکی ہے۔ قوموں کی اندرونی تقسیم ریاستوں اور قوموں کے لیے کس قدر نقصان دہ ہوتی ہے، اس پر کوئی دوسری رائے نہیں۔
ترکی پچھلے سال فوجی بغاوت سے پہلے دنیا میں میڈیا کی آزادی سلب کرنے میں پہلا مقام پا چکا ہے۔ ایک ناپسندیدہ کتاب، مضمون، کالم یا ٹوئیٹر پیغام آپ کو زندان تک پہنچا سکتا ہے۔15جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر طیب اردوآن نے اپنے پہلے تبصرے میں کہا، ’’فوجی بغاوت ہمارے لیے خدا کا عطا کردہ تحفہ ہے۔‘‘ اس ناکام فوجی بغاوت کے بعد اسی صدر کے پاس ایمرجینسی کے تحت وہ طاقت آگئی، جو وہ کل ریفرنڈم کے ذریعے مستقل لینا چاہتے ہیں۔ صدر طیب اردوآن جو ایک سال پہلے تک ترکی میں احتیاط کے ساتھ مذہبی لوگوں کے ساتھ تعلق بنانے اور اپنی شناخت بنانے میں پیش پیش تھے، آج وہی صدر طیب اردوآن، ملی حرکت پارٹی جو تنگ نظر قوم پرستی کے حوالے سے ایک فاشسٹ جماعت جانی جاتی ہے، کے بغیر کسی بھی کامیابی کو حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ پارلیمنٹ میں چار سیاسی جماعتیں ہیں۔ دوسری بڑی سیاسی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی جس نے ترکی کو سوشل ڈیموکریسی میں ڈھالا، اور ترکی میں جمہوریت کی بنیاد اور اس کے تسلسل کی واحد طاقت ہے، صدر طیب اردوآن کے سامنے کھڑی ہے۔ تیسری تنگ نظر قوم پرست فاشسٹ پارٹی کے طور پر جانی جانے والی، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی اتحادی ملی حرکت پارٹی اور چوتھی پارلیمانی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، سوشلسٹ ڈیموکریسی کی پرچارک ہے اور ترک حکومت کے خاص نشانے پر ہے۔ اس کے قائد دیمرتاش اور گیارہ اراکین اسمبلی پابند سلاسل کر دئیے گئے ہیں۔ صدر طیب اردوآن نے ریفرنڈم میں YES کے لیے جو مہم جاری کی ہے، آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اس مہم کو حکومت اور ریاست کی سرپرستی حاصل ہے۔ ریفرنڈم میں NO کی مہم پر پابندیاں اس ترکی کا خلاصہ ہے جسے New Turkey کا خواب دکھلایا جا رہا ہے۔ جناب طیب اردوآن نے کہا ہے کہ ’’جو ریفرنڈم میں NO کرے گا، وہ دہشت گرد اور فوجی بغاوت کرنے والوں کا ساتھی اور ترکی کا غدار ہے۔‘‘ اسی لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں NO کی آواز برائے نام ہی دکھائی دے رہی ہے۔
16اپریل کا ریفرنڈم اگر YES کردیتا ہے اور YES کو 51فیصد ووٹ مل جاتے ہیں تو ترکی ایک نیا ترکی ہوگا جس کی جھلک پچھلے چار پانچ سال سے ابھرنی شروع ہوچکی ہے۔ YES کی صورت میں طیب اردوآن کو 2029ء تک اقتدار میں رہنے کی وہ طاقت مل جائے گی جو ترکی کے قیام سے آج تک کسی سول یا فوجی حکمران کو کبھی نہیں ملی۔عدلیہ اور فوجی ادارے پر بالادستی۔ ایک ایسا صدر جو سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کے خلاف کبھی بھی کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا۔ اعلیٰ ججز کی تعیناتی کا مکمل اختیار۔ حکومت بنانے اور توڑنے کا اختیار۔ 51فیصد ووٹ اگر YES کو مل جائیںتو ترکی کا صدر، امریکہ یا فرانس کے صدر سے کہیں زیادہ طاقتور صدر ہوگا۔ اور اس کے لیے جناب طیب اردوآن کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ معروف ترک ادیبہ ایلف شفق نے کہا ہے کہ ترکی کی نازک جمہوریت شاید اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس ریفرنڈم میں 51فیصد سے زائد YES کے بعد ترکی ایک نیا ترکی ہوگا اور اس ترکی کا مستقبل کیا ہوگا، اس کی جھلک ہم ترکی میں پچھلے چار پانچ سالوں میں ابھرنے والی حکمرانی میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ترکی جو 1923ء میں ایک بکھری ریاست کی راکھ سے اٹھا اور آئینی جمہوریت کی بنیاد پر چلتے چلتے، سوشل ڈیموکریٹک ریاست میں ڈھلنے لگا اور اسی کے سرچشموں سے AKPاور اس کی قیادت نے فیض یابی حاصل کی، اب ایک ایسے نئے ترکی کی بنیاد ڈالنے کا خواہاں ہے جو سماجی جمہوریت (Social Democracy) کی بجائے ایک فرد کی حکمرانی کی طرف گامزن ہے۔ کسی خلیجی ریاست کی طرز پر ڈھلتی جمہوریت ، قطر یا کویت کی طرح۔
ترک عوام کل کیا فیصلہ کریں گے؟ یہ بڑا مشکل سوال ہے۔یہ منقسم قوم کا فیصلہ ہوگا، جمہوریت کا فیصلہ نہیں۔ میرے نزدیک خنجر کی دھار جیسا باریک فیصلہ، 51فیصد یا 52فیصد ووٹ YES کو بھی مل سکتے ہیں اور NO کو بھی۔ ایک اہم بات، اگر فیصلہ YESہوا تو صدر جناب طیب اردوآن، ترکی کے ان منقسم ووٹوں اور اپنے دھڑے میں شامل عوام کی طاقت پر ترکی کے ایک ایسے حکمران ہوں گے جو کبھی کسی جمہوریت نے نہیں دیکھا۔ لیکن اگر ووٹ NO کو مل گئے تو ناقابل شکست قائد جناب طیب اردوآن ملک میں دوبارہ عام انتخابات کا اعلان کردیں گے۔ جمہوریت اور معیشت کی طرف گامزن ترک قوم اقتدار پر مکمل گرفت کے جس کھیل میں داخل ہوچکی ہے، اس کا اپنا مقدر کیا ہوگا؟ سرحدوں پر جنگوں کے شعلے، سرحدوں کے اندر مذہبی دہشت گردی کا ابھرتا جن، تحلیل ہوتی معیشت، منقسم قوم، کیا کہیں اس نئے ترکی New Turkey کا عنوان تو نہیں؟ 1923ء سے آغاز ہونے والی کامیاب ریاست، کامیاب قوم، کامیاب معیشت، مگر اب کس طرف؟
“