گزشتہ روز ہمارے اخبار کی شہ سرخیوں میں سے ایک کے مطابق پاک ایران سرحد عبور کرتے ہوئے ایرانی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دو پاکستانی ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔ مجھے اسی راستے سے ایران ترکی یورپ تک سفر کرنے کا متعدد بار تجربہ ہواہے۔ 1983ء میں پہلی بار اس سرحد کو عبور کیا، اُس وقت بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے روزگار کے لیے تارکِ وطن ہونے والے سینکڑوں لوگ دشوار گزار پہاڑوں، صحرائوں اور پھر سرد ترین مشکل پہاڑی علاقوں کو ہزاروں میل کا پیدل سفر کرکے ترکی پہنچتے تھے اور اس کے بعد یورپ داخل ہوجاتے۔ تین چار دہائیوں سے یورپ میں تارکین وطن کے حوالے سے امیگریشن کی جس قدر سختی ہوتی جا رہی ہے، اس کے بعد ایران سے ترکی تک جان ہتھیلیوں پر رکھ کر سفر کرنے کے بعد اب یہ تقریباً ناممکن ہوتا جارہاہے کہ روزگار اور بہتر زندگی کے حصول کے لیے وطن چھوڑ جانے والے یورپ میں آسانی سے داخل ہوسکیں۔ پنجاب اور ملک کے دیگر خطوں سے ان نوجوانوں سے انسانی سمگلر لاکھوں روپے لے کر اس دھندے کو چلا رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ترکی پہنچتے پہنچتے دشوار گزار پہاڑوں اور صحرائوں میں چلتے چلتے متعدد ہلاک اور ایرانی جیلوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ جو ایران ترکی سرحد پار کرگئے، وہ ترکی کی جیلوں میں اور جو ترک پولیس اور سیکیورٹی فورسز سے بچ نکلے ، وہ ترکی میں جن حالات سے دوچار ہیں، اس کے بارے میں یہاں میں نے کبھی میڈیا میں ذکر نہیں سنا۔ اسی لیے آج کا کالم ان حالات وواقعات کے حوالے سے لکھا ہے تاکہ بہتر زندگی اور روزگار کی تلاش میں یہ نوجوان جان سکیں کہ حقائق ایسے نہیں، جیسے لاکھوں روپے لے کر انسانی سمگلر ان کو بتاتے ہیں۔ ترکی پہنچ جانے کے بعد ترک انسانی سمگلروں کے ہاتھوں جن مصائب کا شکار میرے وطن کے یہ نوجوان ہوتے ہیں، وہ بھی ایک کربناک صورتِ حال ہے۔ متعدد کو ترکی یونان سرحد پار کرنے کے لیے سمندر عبور کرنے کو کہا جاتا ہے، جس میں کئی ایک سمندر کی نذر ہوجاتے ہیں یا یونانی فورسز کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ پاکستان سے ترکی تک پیدل مہینوں کا سفر کرنے والوں سے پھر انسانی سمگلرز تقریباً تین لاکھ روپے فی کس لیتے ہیں۔ اب تو یہ انسانی سمگلرز ان نوجوانوں کو ترکی میں شان دار مستقبل کے خواب بھی دکھاتے ہیں اور پھر یہ نوجوان ترکی میں جن حالات کا شکار ہیں، اس حوالے سے میرے ساتھ درجنوں لوگوں نے رابطہ کیا کہ ان کا بیٹا ترکی میں پھنسا ہے، کیا وہاں اس کا کوئی معاشی مستقبل ہے؟ میری اطلاعات کے مطابق اس وقت ترکی میں پھنسے ایسے نوجوانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
ترک ریاست قوانین پر عمل درآمد کے حوالے سے بہت پابند ریاست ہے۔ یہ تصور کرلینا کہ ترکی ہمارا دوست ملک ہے اور وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کو توڑ کر ہمارے ان نوجوانوں کی مددکرے گا، ایک طفلانہ تصور ہے۔ترک حکومتیں اپنے قوانین کے سامنے بے بس ہیں۔ اب تو میری اطلاع کے مطابق ترک حکومت نے ایک قانون ایک تارکین وطن کے لیے لاگو کیا ہے کہ جو ترک شہری ان تارکین وطن کی مدد کرتا ہوا پایا گیا، اس پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا جارہا ہے۔ اس لیے کہ انسانی سمگلرز مدد کے نام پر ان پاکستانی تارکین وطن کو گھپ اندھیرے کمروں میں مقید رکھتے ہیں۔ ترک حکومت کے لیے انسانی سمگلرز ایک بڑا مسئلہ ہیں اور میری ذاتی معلومات کے مطابق پاکستانی انسانی سمگلرز، ایرانی انسانی سمگلرز اور ترک انسانی سمگلرز ایک مربوط مافیا ہے۔ اسی لیے لاہور سے چلا بندہ استنبول تک چلتا چلا جاتا ہے، اس خواب کے ساتھ کہ ترکی یونان سرحد عبور کرکے وہ یورپ کی معاشی جنت میں داخل ہوجائے گا، جوکہ اب تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں تک بات ہے ترکی میں ملازمت کی، تو اس حوالے سے بھی میں یہاں عرض کرتا چلوں کہ ایک غیرقانونی تارکِ وطن کے لیے وہاں ایک ایسی ریاست میں کیا امکانات ہوں گے جو قانون کی پاسداری کے حوالے سے بڑی چاق وچوبند ہے۔ لہٰذا یہ غیر قانونی تارکِ وطن وہاں پر درحقیقت بے وطنے لوگ ہیں، چاہے ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ بھی ہو، اس لیے کہ وہ اپنے پاسپورٹ کے تحت ترکی نہیں پہنچے۔ وہ پاکستان سے ایران اور پھر ترک سرحد عبور کرکے مکمل غیرقانونی طور پر ترکی پہنچے ہیں۔ لہٰذا انہیں وہاں نوکری کے نام پر جس غلامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کسی ریڑھی والے کے ملازم ہونے پر مجبور ہوتے ہیں، وہ بھی نہایت کم اجرت پر۔ ان کا معاوضہ پاکستان میں ملنے والے معاوضوں سے بھی کم ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ مکمل غیر قانونی طور پر وہاں قیام پذیر ہیں۔ ترک حکومت وہاں غیرقانونی طور پر قیام پذیر ہونے والوں کے خلاف ہمہ وقت متحرک رہتی ہے اور جو ان قانون شکنوں تک پہنچ جائے، تو ان کو پھر قانون کے مطابق ڈیل کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا سفارت خانہ درحقیقت ان تارکین وطن کے ہاتھوں مشکلات کا شکار رہتا ہے کہ وہ ان کو قبول کرکے اپنے خرچ پر واپس پاکستان بھیجے۔
لہٰذا میرے وطن کے وہ نوجوان جو اِن خوابوں میں رہ رہے ہیں کہ وہ ایران ترکی کی مشکل سرحد کو عبور کرکے یورپ کی جنت میں داخل ہوجائیں گے، جان لیں کہ اب ایسا کرنا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ بلکہ میں اپنے تجربات کی روشنی میں ان نوجوانوں سے عرض کرتا چلوں کہ ترکی یورپ کی طرح بلکہ متحدہ عرب امارات کی طرح ایسا ملک نہیں جہاں معاشی روزگار دستیاب ہوں۔ ترک ریاست اپنے شہریوں اور غیرملکی شہریوں کی اجرت کے حوالے سے دو معیار رکھتی ہے۔ چند ایک بڑی اعلیٰ ملازمتوں کے علاوہ اس کی اجرتیں بھی یورپ حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات جیسی نہیں۔ پاکستان کے انسانی سمگلرز پاکستان اور ترک حکومت کے لیے جو مشکلات کھڑی کررہے ہیں، نوجوانوں کو اس خواب کے ساتھ ایک دوست ملک میں ملازمتوں کے جھوٹے خواب دکھا کر دھکیل دیناسراسر استحصال اور ظلم ہے۔ ترکی کی معاشی ترقی پر یہ یقین کرلینا کہ وہاں تارکین وطن کے مستقبل کے دروازے کھل گئے ہیں، سراسر ایک مغالطہ ہے۔ ترک حکومت شام اور عراق سے جنگوں کے ہاتھوں ہجرت کرجانے والے لاکھوں لوگوں کے ہاتھوں جن مشکلات کا شکار ہے، وہ ترک ریاست ہی کا بڑا مسئلہ نہیں بلکہ سماج کا بھی ایک مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ لہٰذا ایسے میں پاکستان سے روزگار، بہتر مستقبل کا خواب لینے والوں کو حقائق جان کر اپنی روزگار تلاش کرنی ہوگی۔ ترکی میں ایسے غیرقانونی تارکین وطن کی میرے پاس جو کہانیاں ہیں، اگر اُن کو یہاں بیان کرنا شروع کردوں تو لوگ دنگ رہ جائیں کہ ایسے تارکین وطن کئی کئی روز صرف ایک نان پر گزارا اور پہاڑوں کی سرنگوں اور تپتے صحرائوں اور منفی درجہ حرارت میں سفر کرتے ہوئے ترکی پہنچتے ہیں اور جب وہاں پہنچتے ہیں تو ایک اور مشکل دَور کا آغاز ہوجاتا ہے۔
“