ترکی میں جسم فروشی!
ترک قوانین کے مطابق ملک میں جسم فروشی کو تحفظ حاصل ہے، آرٹیکل 227 کی شق نمبر 5237 کے تحت ترکی میں جسم فروشی اور فحاشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے، ترکی میں آپ جسم فروشی کا لائسنس لے لیں تو اپنے گھر میں بھی اڈہ چلا سکتے ہیں بس حکومتی کاغذات مکمل ہونے چاہئیں. مزے کی بات یہ ہے کہ یہ قانون ہمارے صلاح الدین ایوبی دوئم کی اے کے پارٹی نے پیش کیا اور اسمبلی سے منظور کروایا.
اس سے پہلے بھی ترکی میں جسم فروشی کا دھندا عروج پر تھا لیکن یہ طوائفیں ٹیکس نہیں دیتیں تھیں، لیکن قربان جائیے ہمارے خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کے.. آج طیب اردگان چار بلین ڈالر سالانہ جسم فروشی سے کما رہا ہے. آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ طیب اردگان کے دور حکومت میں جسم فروشی کے دھندے میں 1680 فیصد اضافہ ہوا ہے. یہ سولہ سو گنا اضافہ صرف ترک خواتین کی وجہ سے نہیں بلکہ دنیا بھر سے آنے والی خواتین شامل ہیں. جبکہ ایک بڑی تعداد عراق، شام اور یمن کی اغواء شدہ عورتوں کی ہے.
قوانین کے مطابق ترکی میں مطلوبہ فیس جمع کروانے کے بعد کوئی بھی عورت جسم فروشی کا لائسنس حاصل کر سکتی ہے، اگر آپ قحبہ خانہ اور جوئے کا اڈہ چلانا چاہتے ہیں تو تھوڑی سی فیس زیادہ ہے. اس وقت ترکی کے مختلف شہروں میں پندرہ ہزار سے زیادہ لائسنس یافتہ قحبہ خانے موجود ہیں. جسم فروش خواتین کو ہیلتھ کارڈ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے اور ہر مہینے ان کا ریگولر چیک اپ کیا جاتا ہے. ترک اخبار الواحدۃ کے مطابق ترکی کے پچپن شہروں میں ایک لاکھ سے زائد لائسنس یافتہ طوائفیں موجود ہیں جبکہ پچھلے دس سال میں غیر قانونی خواتین کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے، تین لاکھ سے متجاوز ہیں. یہ غیر قانونی سمگل شدہ خواتین ہیں جن کے پاس ترک نیشنلٹی نہیں ہے. عراق، شام، یمن کی جنگوں میں اغواء ہونے والی لڑکیاں ترکی لائی جاتی ہیں اور یہیں سے یورپ سپلائی کی جاتی ہیں.
حکومتِ پاکستان کو بھی چاہیے کہ لاہور اور ملتان سمیت ملک بھر کی منڈیوں کو رجسٹر کرے، ایسی خواتین کے کارڈ بنائے، وہاں پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کو شناخت دے، انہیں سکول اور ہسپتال کی سہولت دے اور ان کے حقوق کا بھی تحفظ کرے. اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں موجود اسلامی چمونے ترکی کے اس نظام کو بھی قبول کرتے ہیں یا پھر صرف نعروں کی حد تک ہی خون گرم رکھتے ہیں..!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔