ترکی میں انتخابات اور نئے سیاسی رحجانات
24جون 2018ء کو اتوار کے روز ترکی میں منعقد ہونے والے انتخابات ترکی کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات قرار دئیے جا رہے ہیں۔ 1923ء میں جب ترکی نے یورپی استعماری طاقتوں کو سرزمین ترکیہ سے باہر نکالا اور ترکی کو جمہوریہ قرار دیا، تو یہیں سے ترکی میں جمہوریت کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ 1950ء میں ترکی ملٹی پارٹی ڈیموکریسی میں داخل ہوا۔ اس کے بعد ترکی میں آمرانہ حکمرانی اور جمہوری طرزِحکومت کے مابین ایک کشمکش جاری رہی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ترکی ریاستی اور سماجی سطح پر مزید جمہوریت کی طرف گامزن ہوتا چلا گیا۔ نوّے کی دہائی تک ترکی میں دو مقبول عنوان تھے، مضبوط معیشت اور مزید جمہوریت۔ ترکی کا موجودہ آئین 1980ء میں کنعان ایورن کی فوجی آمریت نے ایک ریفرنڈم کے تحت متعارف کروایا اور اس کے تحت ترکی میں فوجی آمریت سے جمہوری حکومت کا ایک سفر شروع ہوا جس میں ترگت اوزال ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ موجودہ معاشی ڈھانچے کی بنیاد بھی ترگت اوزال کے دور میں پڑی۔ 2000ء میں اس معیشت کو درپیش افراطِ زر اور بڑے بینکاروں کے نرغے سے آزاد کروانے کے لیے سابق وزیراعظم بلند ایجوت نے UNDP میں دوسری اہم پوزیشن میں کام کرنے والے عالمی شہرت یافتہ ماہرمعیشت کمال درویش سے دوخواست کی کہ وہ UNDP کو چھوڑ کر ترکی میں اپنی خدمات سرانجام دیں اور یوں کمال درویش، بلند ایجوت کی حکومت میں وزیرخزانہ کے طو رپر فرائض سرانجام دینے لگے۔ انہوں نے افراطِ زر کی شکار اور بینکاروں کے نرغے سے آگے بڑھتی معیشت کے لیے طویل منصوبہ بندی کی اور یوں ترکی اُن کی معاشی منصوبہ بندی کے تحت ایک تیزرفتار معیشت کا حامل ملک بن گیا۔ 2002ء میں بلند ایجوت کی حکومت ختم ہوگئی۔ نجم الدین اربکان مرحوم کی رفاہ پارٹی کے لیڈر رجب طیب اردوآن جنہوں نے بحیثیت میئر استنبول اور رفاہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے شہرت حاصل کرلی، انہوں نے رفاہ پارٹی کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی AKP کی بنیاد رکھی۔ اس طرح رجب طیب اردوآن ایک نئے مقبول لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ کمال درویش کی معاشی منصوبہ بندی کے تحت 2002ء سے 2006ء تک ترکی نے معاشی ترقی کے حوالے سے بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں طیب اردوآن نے کمال درویش کی معاشی منصوبہ بندی کو جاری رکھا، وہیں کمال درویش نے اپنے وطن عزیز کو اپنی صلاحیتوں سے فیض یاب کرنے کے لیے رجب طیب اردوآن کی حکومت کی حمایت جاری رکھی۔ اور اہم بات یہ ہے کہ معاشی ترقی اور جمہوری ترقی کا سفر ساتھ ساتھ چلا۔ اگر ہم ترکی کی سیاست اور معاشی سفر کا صرف ٹھنڈے دل اور غیر جانب داری کے ساتھ حقائق سامنے رکھ کر مطالعہ کریں تو یہاں کے معاملاتِ سیاست کو سمجھنا اتنامشکل نہیں۔ 2006ء سے 2016ء تک ترکی کی معاشی ترقی کا ہنی مون تھا۔ اور انہی سالوں میں معاشی گراوٹ کا بھی آغاز ہوا اور جمہوری ترقی کا سفر بھی شدید حملوں سے دوچار ہوا۔ 2016ء کو برپا فوجی بغاوت کے پیچھے ملاں سعید نورسی کے ایک پیروکار فتح اللہ گُلین کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا جن کے لوگ ترکی میں نہایت Low Profile صوفی انداز کے مطابق نرم طریقے سے Deep State کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت نے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ یہاں کے جمہوری سفر کو بھی بھرپور طریقے سے متاثر کیا۔ تب سے آج تک ترکی میں سات مرتبہ ایمرجینسی کو توسیع دی گئی ہے۔ اردوآن ایک مقبول لیڈر کے طور پر 2002ء سے ترکی میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اُن کے مقابل کوئی کرشمہ ساز اور دبنگ لیڈر ان سالوں میں ابھر کرسامنے نہیں آسکا۔ اپوزیشن کے لیڈر کمال کلیچ درآلو ایک دھیمے مزاج کے سیاست دان ہیں، اُن کی قیادت کسی دن اور کسی مقام پر بھی طیب اردوآن کی کرشماتی قیادت کے لیے چیلنج نہیں بن سکی۔ مگر ایک بات ضرور ہے کہ انہوں نے ان سالوں میں اپنی اپوزیشن کی پارٹی ریپبلکن پیپلزپارٹی کے ووٹوں میں اضافہ ضرور کیا ہے۔ البتہ وہ کبھی بھی طیب اردوآن کے سامنے سیاسی قیادت کے طور پر نہیں ابھرسکے۔
2014ء میں جب طیب اردوآن وزارتِ عظمیٰ کی تمام مدتیں پوری کر چکے تو انہوں نے ترکی میں دھیرے دھیرے نئے طرزِحکمرانی کا ڈھانچا استوار کرنا شروع کردیا۔ ایک پارلیمانی نظام کی طرح یہاں صدر کا عہدہ ایک آئینی اعزاز کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کا انتخاب بھی پارلیمنٹ کرتی تھی۔ انہوں نے اس کو براہِ راست صدارتی انتخاب کے عمل سے متعارف کروایا۔ اور یوں 2014ء میں وہ براہِ راست ووٹوں سے صدر کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ایک سابق سفارت کار اور دائیں بازو کی شخصیت احسان اولو جو او آئی سی کے سیکریٹری جنرل بھی رہ چکے تھے، کو اُن کے مقابل کھڑا کیا۔ مگر طیب اردوآن کی کرشمہ ساز قیادت کے سامنے اُن کی ایک نہ چلی اور وہ الیکشن ہار گئے۔ طیب اردوآن پارلیمانی نظام کے تحت محدود اختیارات رکھنے والے صدر تھے، مگر پارلیمنٹ میں اُن کی جماعت کی اکثریت کے تحت اُن کی اپنی سابقہ پارٹی اور اُس کی حکومت پر مکمل گرفت تھی۔ 2015ء میں عام انتخابات میں اُن کی پارٹی AKP اس قدر اکثریت نہ لے سکی کہ وہ اکیلے حکومت بناتے، ایسے میں اُن کی پارٹی AKP اور اپوزیشن پارٹی ری پبلکن پیپلز پارٹی مخلوط حکومت بنانے کے قریب ہوچکے تھے ، تب صدر طیب اردوآن نے وزیراعظم اور اپنی پارٹی کے سربراہ احمت دعوت اولو کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ نئے انتخابات کا اعلان کردیا، جس کے بعد جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ازخود حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کے پسندیدہ ساتھی احمت دعوت اولو، جن کو انہوں نے یونیورسٹی میں لیکچررشپ سے نکال کر سیاست میں داخل کرکے وزارتِ خارجہ کا قلم دان دیا اور پھر وزارتِ عظمیٰ جیسی اہم پوزیشن تک پہنچایا، اُن کو پس منظر میں لے جاکر ایک بڑے سرمایہ دار ساتھی بینالی یلدرم کو وزیراعظم بنایا۔ 2014ء سے اختیارات کا عملی مرکز وزارتِ عظمیٰ سے صدر کے پاس چلا گیا۔ گو ملک میں آئین کے تحت اختیارات کا مرکز پارلیمنٹ، کابینہ اور وزیراعظم ہی تھا۔ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر طیب اردوآن نے کہا، ’’فوجی بغاوت خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ ثابت ہوئی ہے‘‘ اور یوں اس روز سے آج تک ترکی میں اپنی تاریخ کی سخت ترین ایمر جینسی لاگو ہے جس کے تحت اختیارات کا کُل مالک صدر ہے۔ اس دوران صدر اردوآن نے کُردوں کے خلاف سخت فوجی آپریشنز کا آغاز کیا جس میں شام اور عراق کی سرحدوں کے اندر ترک افواج نے کُردوں کی مسلح تحریک کو کچلنا شروع کردیا۔ 2016ء سے آج تک اردوآن کی سیاست ایک نہایت قوم پرستانہ ستون پر کھڑی ہے، اسی لیے انہوں نے یہاں کی تیسری مقبول جماعت ملی حرکت پارٹی کے ساتھ تعلقات استوار کرکے اسے اپنا ساتھی بنایا۔ ملی حرکت پارٹی ترک قوم پرستی میں انتہائی بنیاد رکھتی ہے اور اتاترک کے نظریات کی تنگ نظر قوم پرستی میں تشریح کرتی ہے۔
2017ء اپریل میں ایمرجینسی کے تحت صدر طیب اردوآن نے آئینی اصلاحات کے لیے ریفرنڈم منعقد کیا جس کے تحت اٹھارہ نئے نکات آئین میں شامل کرکے صدر کو اختیارات کا مرکز بنا دینا شامل تھا۔ ججوں کی نامزدگی، فوج اور پولیس میں نامزدگیاں، پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار اور کابینہ کو نامزد کرنے کے اختیارات کے ساتھ لامحدود اختیارات۔ ایسے میں ملی حرکت پارٹی اُن کی اہم اتحادی جماعت بن کر ابھری، ان وعدوں کے ساتھ کہ نئی آئینی ترامیم کے بعد صدارتی حکمرانی میں وہ اہم حصہ دار ہوگی۔ اس ریفرنڈم میں جناب طیب اردوآن کو تقریباً ڈیڑھ فیصد ووٹوں سے کامیابی ہوئی اور یوں ڈیڑھ فیصد ووٹوں میں کامیابی کے بعد ترکی میں پارلیمانی طرزِحکومت تمام ہوئی۔ صدر طیب اردوآن، ترکی کے تاحال سب سے مقبول رہبر ہیں۔ اپنی اسی مقبولیت کے تحت انہوں نے اٹھارہ ماہ قبل ہی 24جون 2018ء کو پارلیمنٹ کی 600سیٹوں اور صدر کی پانچ سال کی مدت کے لیے الیکشن کا اعلان کردیا۔ ترکی جہاں صرف تین سال قبل ایک ڈالر کے عوض 2.40 لیرا ملتے تھے، وہاں اب ایک ڈالر کے عوض 4.80لیرے تبدیل ہوتے ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ اور معاشی ترقی میں شدید تعطل اور جمہوری سفر میں بڑی رکاوٹیں ، جس کا تصور میرے ہم وطن اپنے ملک میں شاید ہی کرسکیں، جیسے اُن کا یہ تصور کہ 2002ء سے پہلے ترکی ایک پسماندہ ملک تھا، سوائے بڑے مغالطے کے اور کچھ نہیں۔
اپریل 2018ء کے مہینے میں جناب طیب اردوآن نے الیکشن کا اعلان کیا، اُن کو یقین تھا کہ اُن کے مقابل کوئی ایک شخص مقبول لیڈر کے طور پر موجود نہیں اور چار دیگر جماعتیں ری پبلکن پیپلزپارٹی (سوشل ڈیموکریٹس)، ڈیموکریٹک پیپلزپارٹی (سوشلسٹ پارٹی جو کُردوں اور سوشلسٹوں کی پارٹی ہے اور اس کے جواں سال لیڈر صلاح الدین دیمرتاش، ایدرنے کی جیل میں پابند سلاسل ہیں)، ملی حرکت پارٹی جوکہ اردوآن کی اتحادی پارٹی ہے، اس سے علیحدہ ہونے والی ایک کرشمہ ساز خاتون میرال ایکشنر کی نئی Good Party (IYI) اور نجم الدین اربکان کی وارث سعادت پارٹی کے تقسیم شدہ ووٹ اُن کی پارٹی AKPکے لیے پارلیمنٹ میں چیلنج نہیں بن سکیں گے اور اسی طرح کوئی ایک شخص بحیثیت صدارتی امیدوار اُن کی کرشماتی قیادت کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہی نہیں۔
ترکی میں انتخابات میں قانون کے تحت سیاسی جماعتوں کو اتحاد بنانے کی اجازت نہیں۔ مگر اپریل میں خود طیب اردوآن نے اس قانون کو مٹاکر سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا قانون متعارف کروا دیا۔ اُن کے مدنظر اُن کی اتحادی پارٹی تنگ نظر قوم پرست ملی حرکت پارٹی تھی تاکہ اس طرح AKP پارلیمنٹ میں اکثریت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے اور کُردوں اور سوشلسٹوں کی پارٹی ڈیموکریٹک پارٹی اگر دس فیصد سے کم ووٹ لیتی ہے تو اس طرح اس پارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کا فائدہ اردوآن کی AKP اٹھائے گی۔ صدر اردوآن نے اپنے سیاسی اتحا دکا نام پیپلزالائنس رکھا۔ مگر جس چیز نے صدر اردوآن کے سیاسی اور الیکشن کے منصوبے کی کایا پلٹ دی، وہ دیگر چار جماعتوں کا قومی اتحاد معرضِ وجود میں آنا ہے۔ ری پبلکن پارٹی جوکہ اتاترک کی قائم کردہ اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ہے، اس کی کوشش ہے کہ کُرد علاقوں میں اس کے ووٹرز ری پبلکن پیپلزپارٹی کی بجائے ڈیموکریٹک پیپلزپارٹی کو ووٹ ڈال کر 10فیصد سے آگے لانے میں مددگار ہوں۔ یوں AKPپارلیمنٹ میں واضح اکثریت لینے میں ناکام ہوجائے گی۔ لہٰذا اس تناظر میں اب طے ہے کہ پارلیمنٹ میں طیب اردوآن کی جماعت اکثریتی پارٹی بن کر نہیں آئے گی۔ جبکہ دوسری اہم ڈویلپمنٹ اپوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار جناب محرم اینجی کا ایک کرشماتی، دبنگ اور مہذب لیڈر کے طور پر ابھرنا ہے۔ ری پبلکن پیپلزپارٹی کے اپنے قائد کمال کلیچ درآلو کی بجائے اپنے 54سالہ سابق سکول ٹیچر ، شاعر اور رکن اسمبلی کو صدارتی امیدوار بنا کر ترکی میں درحقیقت ایک لیڈر کا ظہور کردیا ہے۔ وہ بلند ایجوت کے بعد اس پارٹی کے مقبول لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں محرم اینجی نے ملک بھر میں انتخابی مہم میں درحقیقت خوف کی حکمرانی کے سکوت کو بھی توڑا ہے اور ترکی کو ایک متبادل قیادت فراہم ہونے کی طرف گامزن کردیا ہے۔
دوروز بعد اتوار کے روز انتخابات میں اب یہ طے ہے کہ پارلیمنٹ میں حکمران جماعت اکثریت کھو دے گی۔ البتہ طیب اردوآن بحیثیت صدارتی امیدوار چاروں امیدواروں، محرم اینجی، میرال اکشینر، تامل کرامل اولواور صلاح الدین دیمرتاش کے مقابلے میں سب سے مقبول امیدوار ہیں۔ اگر 24جون کو کوئی صدارتی امیدوار 50فیصد مطلوبہ اکثریت نہ لے سکا رو دوسرا رائونڈ 8جولائی کو ہوگا۔ اگر اس میں صدر طیب اردوآن کامیاب ہوگئے تو بھی سب سے اہم بات یہ کہ گزشتہ ریفرنڈم کے تحت آئینی ترامیم کے مطابق پارلیمنٹ سے لیے گئے اختیارات کے باوجود، متحدہ اپوزیشن ، آئینی ترامیم کے تحت صدر کے اختیارات کو محدود کردے گی۔
ترکی کو درپیش چیلنجز، گرتی معیشت، آزادیٔ اظہار پر قدغن، سکڑتی جمہوریت اور خصوصاً سرحدوں پر درآمد کردہ جنگیں ہیں۔ کیا آئندہ حکومت ان اہم مسائل کو حل کرسکے گی۔ 2006ء سے آج تک ترکی کا سیاسی، معاشی اور خارجہ پالیسی کے سفر نے ترکی کو لاتعداد مسائل سے دوچار کیا ہے۔ یہی وہ چیلنجز ہیں جو ترکی کے بعد از الیکشن حالات میں زیربحث ہوں گے۔
“