ترکی اور پاکستان کا سیاسی تقابل
تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے کہ میں نے ترکی کی تاریخ، تہذیب، سماج اور سیاست کو جاننے کے لیے مسلسل مطالعے اور مشاہدے کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا رکھا ہے۔ مطالعے اور مشاہدے سے ایسے ایسے سوالات کے جوابات ملے جو اس ریاست اور سماج کی گہرائی تک جائے بغیر جانے نہیں جاسکتے تھے، بلکہ ایسے نئے سوالات ابھرے جن کا تصور ہمارے ہاں ممکن ہی نہیں۔ میرے لیے ترکی صرف اس لیے اہم نہیں رہا کہ یہ پاکستان کا ایک دوست ملک ہے، میرے نزدیک اس کی اہمیت اس لیے رہی ہے کہ ایک اکثریتی مسلم آبادی کا ملک کیا جمہوری اور سیکولر ہوسکتا ہے؟ ان دو بنیادی سوالوں نے مجھ پر اس سماج، قوم اور ریاست کو جاننے کے لیے نئے پرت کھول دئیے۔ مجھے ترکی اور ترکوں کو جاننے کے لیے کتابوں کے بعد اس سماج کے اوپری طبقات سے لے کر گلی محلوں تک آباد عام شہریوں تک جانا پڑا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں، اس کے لیے وقت اور سرمایہ چاہیے۔ لیکن آپ کسی ملک اور قوم کے بارے میں تب ہی بہتر رائے بنا سکتے ہیں جب آپ اسے اپنے مطالعے اور مشاہدے کا اہم موضوع بنا لیں۔ پاکستان آج سے ستر سال پہلے آزاد ہوا۔ ترک آزادی کی جنگ پچانوے سال پہلے جیت کر ایک نئی مملکت کا قیام عمل میں لائے۔ لیکن جب ترکی نے آزادی کے ستر سال طے کرلیے، ترکی ایک کامیاب ریاست کے طور پر جانا جانے لگا۔ میں نے ترکی کو 1983ء میں آج سے ٹھیک پینتیس سال پہلے دیکھنا شروع کیا اور پھر بار بار دیکھا۔ آج سے پینتیس سال پہلے اور پھر ہر سال میں نے اسے پاکستان سے اتنا جدید ملک پایا جس کا ہمارے ہاں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ ترکی کی سیاست اور ہماری سیاست میں بڑی مماثلت ہے، یہ بھی ایک مغالطہ ہے، واقعات کو مماثلت دینے کے حوالے سے کہ ترکی میں تین فوجی آمریتیں آئیں اور پاکستان میں بھی جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی آمریتیں اور یہ کہ ترکی میں بھی ایک منتخب وزیراعظم عدنان میندریس کو سزائے موت دی گئی اور پاکستان میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کو۔ ہماری سیاسی تاریخ اور موجودہ ریاستی ڈھانچے کی تاریخ یکسر مختلف ہے، کہیں بھی کوئی مماثلت نہیں، مثلاً پاکستان بشمول بھارت کی موجودہ ریاستیں اور اِن کا ڈھانچا برطانوی سامراج نے تشکیل دیا، انہی ریاستی ڈھانچوں کے تحت دو مختلف ریاستیں ظہورپذیر ہوگئیں۔ متحدہ ہندوستان کا ریاستی ڈھانچا برطانوی سامراج کے کلونیل ریاستی تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا تھا۔
اس ریاستی ڈھانچے کا تعلق اس سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں جو ریاستی ڈھانچا برطانوی سامراج نے اپنی ریاست برطانیہ کے لیے تشکیل دیا۔ یوں 1947ء میں دو مملکتوں کا ظہور ضرور ہوا، مگر ریاستی ڈھانچے اسی طرح برقرار رہا جو برطانیہ کے 1935ء کے ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا۔ اسی ریاستی ڈھانچے کے اندر مسلح افواج کا قیام ہوا تھا، جو دہلی کے زوال (1857ء) کے ساتھ ہی تشکیل پانا شروع ہوگیا تھا۔ 1947ء میں اسی ریاستی ڈھانچے کے تحت نہایت نظم وضبط والی مسلح افواج دونوں ممالک کے حصے میں آگئیں۔برٹش انڈین آرمی جس نے جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوئم میں برطانیہ کے لیے عالمی جنگوں میں ہراول دستوں کا کردار ادا کیا۔ 1947ء میں تقسیم شدہ متحدہ ہندوستان کے حصوں (بھارت وپاکستان) میں اس کلونیل ریاست کی تقسیم ہوئی اور اس کے ساتھ برٹش انڈین آرمی بھی تقسیم ہوگئی۔ بھارت کے حصے میں آئی مسلح افواج وہاں آزادی کی لاتعداد تحریکوں بشمول کشمیر کی آزادی کی تحریک کو مسلسل کچلنے میں مصروف رہی۔ اور پاکستان کے حصے میں آئی منظم آرمی کے چار سربراہوں نے فوجی آمریتیں قائم کردیں۔ اور اس طرح جس جمہوریت پر ہندوستان نازاں اور ہمارے جمہوریت پسند دانشور ورہنما سینہ تان کر کھڑے ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اس جمہوریت کی جڑیں اور بنیاد اسی برطانوی کلونیل ریاست کے مرہون منت ہے۔ بھارت کی نام نہاد "Largest Democracy" نہ اس کے سماج کو Democratizeکرسکی اور نہ ہی ریاست کو۔ برطانوی آقا جہاں چھوڑ کر گئے، بھارت کی جمہوریت انہی ستونوں پر کھڑی ہے۔ اس لیے بھارت کا سماج آج بھی غربت وناانصافی اور غیر جمہوری ’’بحرالکاہل‘‘ میں ڈوبا پڑا ہے۔ اور پاکستان کی جمہوریت کی حقیقت اسی برطانوی خیراتی جمہوریت کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی دونوں ریاستوں کے فوجی اور جمہوری ادارے برٹش کلونیل سسٹم کے پیداکردہ ہیں۔
اس کے برعکس ترکی کی تاریخ اور واقعات کی حقیقت یکسر مختلف ہے۔ عثمانی سلطنت کے ایک کرنیل اور پھر جرنیل مصطفی کمال پاشا نے دنیا کی ابھرتی سامراجی طاقتوں بشمول برطانوی افواج اور اُن کے اتحادیوں کو شکست دے کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ حقائق کے مطابق اس نے عثمانی سلطنت کے اس مردِ بیمار جو برطانیہ کے رحم وکرم پر تھا، یعنی آخری دو سلطان جو ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے بھی کم طاقت اور اختیارات کے مالک تھے اور برطانیہ کے رحم وکرم پر جی رہے تھے اور ترک قوم اور ترکوں کی بچی کھچی ریاست مٹتی جارہی تھی۔ عثمانی فوج ہی کے اس جرنیل اتاترک نے اپنے عثمانی دربار جوکہ برطانیہ کے حکم میں جاچکا تھا، کے خلاف بغاوت کرکے عام ترکوں خصوصاً کسانوں اور اپنی حامی عثمانی فوج کو متحدکرکے ایک طرف میدانِ جنگ میں برطانیہ اور اس کے اتحادی یورپی ریاستوں کو شکست دی اور دوسری طرف ایک نئی مملکت کا قیام عمل میں لایا۔ برطانیہ اور برطانیہ کے مرہون منت نام نہاد عثمانی خلیفہ سے بغاوت کرکے ، یوں ترکوں نے ایک نئی مملکت اور قوم کو جنم دیا۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکوں نے اتاترک کی قیادت میں جہاں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست فاش دی، وہیں اس نئی قوم نے ایک نئی جمہوریت کو بھی جنم دیا جو متحدہ ہندوستان کی اس ریاست سے یکسر مختلف تھی جس کو برطانوی کلونیل ازم نے متعارف کروایا۔ ترکی میں جمہوریت کی تاریخ بھارت، پاکستان سمیت دنیا کے اُن تمام ممالک سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ بھارت اور دیگر نوآبادیات کے ہاں جمہوریت برطانیہ، فرانس یا دیگر سامراجی طاقتوں نے متعارف کروائی جبکہ ترکی میں جمہوریت خود اپنی ہی قوم، سرزمین، قیادت اور فکر سے قائم ہوئی۔ یعنی ترکی میں جمہوریت Colonial Legacy نہیں۔ اسی لیے ترکی کی جمہوریت بھارت کی جمہوریت سے یکسر مختلف اور عوامی ہے۔ اسی طرح ترکی کا سیکولرازم بھی۔ اور یہ بھی اہم بات ہے کہ ترک جمہوریت پنپ ہی نہیں سکتی تھی اگر ریاست اور سماج مکمل طور پر Secularized نہ ہوجاتے۔ اس کے ساتھ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ برصغیر میں جمہوریت British Legacy ہے، اسی طرح برٹش انڈین آرمی بھی جبکہ ترک افواج کلونیل فوج نہیں۔ ترک افواج ایک Nationalist Armyہیں۔
اس سارے پس منظر میں ترکی میں جمہوریت کا سفر پاکستان کے سفر سے یکسر مختلف ہے۔ ترکی میں جمہوریت تمام تر رکاوٹوں کے باوجود روزبروز پھلتی پھولتی ہے۔ چاہے اسے کسی قسم کا ڈکٹیٹر روکنے کی کوشش کرے۔ ترک ریاست اور سماج بنیادی طور پر دو ستونوں پر کھڑا ہے، ڈیموکریسی اور سیکولرازم۔ اب ہمارے ہاں ہم چوںکہ تجزیہ پیش کرتے ہوئے زمینی حقائق کی بجائے اپنی کم معلومات کے سبب خواہشات اور تصوراتی مغالطوں کو بنیاد بناتے ہیں، اس لیے ترکی کے حوالے سے ہمارے ہاں ہونے والے بیشتر تجزیوں کی کچھ حقیقت نہیں۔ مثلاً موجودہ صدر طیب اردوآن نے ایک مذہبی تحریک جس کی قیادت فتح اللہ گُلین کرتے ہیں، اس کو دہشت گرد اور 15جولائی 2016ء کی فوجی بغاوت کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ترکی کی ساری اپوزیشن نے اس موقف کو سپورٹ کیا اور مذہبی دہشت گردوں کی طرف سے فوج کے اندر بغاوت کرکے ترکی کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو غدار قرار دیا ہے۔ طیب اردوآن کا موقف ترک قوم پرستانہ ہے۔ گو اپوزیشن جماعتیں اُن کی سیاست کی مخالف ہیں لیکن ملک میں فوجی حکمرانی، غیر جمہوری اور غیرسیکولر عناصر کی بھی سخت مخالف ہیں۔
کیا ان پیش کیے گئے چند حقائق کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترکی اور پاکستان میں سیاسی مماثلتیں ہیں؟ ترکی میں کامیاب ریاست اور قوم کا تصور ، کامیاب معیشت سے بیان کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عقیدہ پرستی اور روحانی معاملات کے ساتھ کامیاب قوم کی بقا کا تصور عام ہے۔ ترکی میں اس جہان میں بہتری کے لیے تعلیم، صحت، سماجی ومعاشی انصاف، سیاست کا عنوان ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں۔ ہمارے ہاں ریاست کو مذہبی بنیادوں پر استوار کرکے اچھا مسلمان پیدا کرنے کی جدوجہد رہی ہے۔ ترکی میں معاشی انصاف اور معاشی ترقی اور تعلیم یافتہ انسان پیدا کرکے اس کے اندر ایک بہتر مسلمان کو پنپنے کا موقع دینے کا تصور ہے۔ ہم نے سماج اور ریاست کو مذہبی کرنے کے عمل میں ریاست اور سماج کو کہاں اور کن ہاتھوں میں دے دیا۔ جبکہ ترکوں نے ریاست کو مذہبی عقیدے سے علیحدہ کرکے اچھے مسلمان پیدا کرلیے۔ تعلیم یافتہ، مہذب، جدید، ایمان دار، ٹیکنالوجی میں آگے، زندگی کی جدید سہولیات سے آراستہ ۔ اور ہم۔۔۔۔۔۔۔
24جون 2018ء کو ترکی میں قومی اسمبلی کی 600سیٹوں کے لیے اور صدارتی انتخاب ہوگا۔ اس میں بھی یہی ایشوز ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ طیب اردوآن اور اُن کے مخالف سیاسی رہنما انہی ایشوز پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ان انتخابات کے حوالے سے آئندہ کالم میں تجزیہ پیش کیا جائے گا۔
“