ترکوں کا ذکر سب سے پہلے چھٹی صدی عیسوی میں ایک خانہ بدوش قوم کی صورت میں ملتا ہے ۔ انہوں نے ایک بہت طاقت ور سلطنت قائم کی تھی ۔ جو منگولیا اور شمالی چین کی سرحد سے لے کر بحیرہ اسود تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اس خانہ بدوش سلطنت کا بانی جسے تومین Tumen اور ترکی کتبوں میں بومن Bumin تھا ۔ اس کا بھائی ستیمی Istami جسے چنیوں نے شتی می Shetiemi اور طبری نے سنجیو خاقان لکھا ہے ۔ اس نے مغربی جانب فتوحات ھاصل کیں ۔ گمان ہوتا ہے دونوں بھائی ایک دوسرے سے علحیدہ اور خود مختار تھے ۔ اس لئے چینیوں نے مزکورہ سلطنٹوں کو شمالی ترکوں اور مغربی ترکوں کی سلطنت کہہ کر ایک دوسرے سے ممتیز کرنے کی کوشش کی ہے ۔
ان قدیم ترکوں کا اپنے مشرقی اور مغربی خانہ بدوش پیشروں سے کیا تعلق ہے ؟ اس آراء کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پچھلی صدیوں میں ترک موجود تھے ، اگرچہ قدرتی طور پر ان کے نام مختلف تھے ۔ اس نظریہ کی وضاحت ان متفرق ترکی الفاظ سے مدد لی گئی ہے ، جو زمانہ قبل مسیح سے باقی چلے آئے ہیں ۔
سیتھائی اور دوسری اقوام کو بھی ترک النسل بتایا جاتا ہے ۔ جب کہ چینیوں نے ترکوں کو ہیونگ نو کی اولاد یعنی ہن نژاد بتایا ہے اور یہ ہنوں کے مشرقی ہمسایہ تھے ، جنہوں نے ہنوں کو پہلی صدی عیسوی کے اواخر میں منگولیاسے نکال دیا تھا ۔ اگرچہ حتمی طور پر یہ ثابت نہیں ہوا ہے کہ ہن منگول تھے اور قدیم منگولی اور ہن زبانوں میں بعض ترکی عناصر کا پتہ چلتا ہے کہ صوتی نقطہ نظر سے ارتقاء کی تقریباََ اس سطح پر ہے کہ جس پر قدیم ابتدائی التائی زبان تھی ۔
بقول ٹامسن کے ’ ترک ‘ کے معنی قوت و باس کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے یہ غالباََ ایک قبیلہ کا نام تھا ، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ایک حکمران خاندان کا نام تھا ۔ کتبوں میں ترک کا مفہوم بظاہر سیاسی ہے نہ کہ جنسی ، عبارت میرے ترک ، میرے ’ لوگ ‘ کی رہنمائی کرتا ہے ۔ ترکوں کے ساتھ اوغوز یا توغوز اکثر آیا ہے ۔ یہ علیحدہ قبیلوں یا خاندانوں کی تعداد کے لحاظ کبھی ان کی حثیت ترکوں اور ان کے دشمنوں کی ہے اور بعض مرتبہ خان کی قوم کی حثیت سے آیا ہے ۔
شمالی سلطنت
چھٹی صدی عیسوی کے دوسرے نصف حصہ میں چین میں سوئی Sui خاندان نے اقتدار حاصل کرلیا ۔ اس خاندان کے زیراثر 581ء میں دونوں سلطنتوں میں ایک آخری اور قظعی اقتراق پیدا ہوگیا اور ان دونوں سلطنتوں کو ٹانگ Tang خاندان کی برائے نام سیادت تسلیم کرنی پڑی ۔ پچاس سال کی محکومی کے بعد شمالی ترکی سلطنت نے ( 630ء تا 682ء کے لگ بھک ) آزادی حاصل کرلی اور یہ سلطنت 744ء تک باقی رہی ۔
745ء کے لگ بھگ منگولیا کی حکومت اوغوز کے ہاتھوں سے نکل کر اویغوز کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔ ایغوز کا ذکر پہلے پہل شمالی ترکوں کے صمن میں ملتا ہے ۔ گو صرف ایک ہی فقرہ ان کے متعلق ہے کہ ’ وہ دریائے سلنگا Slanga کے کنارے آباد ہیں ‘ ۔ ترکوں کے ان اوغوزی دشمنوں کو کا الگ خاغان تھا جو شہنشاہ چین کا باج گزار تھا ۔
یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اویغوز لوگ اوغوز کے قبائلی وفاق میں شامل تھے اور کلمات اویغوز اور اوغوز میں خفیف سا فرق ہے ، جیسا کہ لہجوں اور بولیوں میں ہوا کرتا ہے ۔ تومسن بھی اس خیال سے متفق ہے ۔ تاہم اورخون Orkhon کا وہ کتبہ جو رام شئٹ نے شائع کیا ہے ، اس میں وہ خاغان جس نے 746ء تا 759ء تک حکومت کی ہے ، اپنے آپ کو اون ( 10 ) اویغوز اور قوقوز ( 9 ) اوغوز پر حکمران بتاتا ہے ۔ اگرچہ چینی ماخذوں کی رو سے اویغوز قبیلوں کی تعداد بھی نو تھی ۔
840ء میں قرغیزوں نے اویغوزوں کی سلظنت کا خاتمہ کردیا ۔ ان اویغوز نے جو سے نکالے گئے ، نویں صدی کے قریب دو نئی سلطنتوں کی بنیاد رکھی ۔ ایک کانجو میں اور دوسری بیش بلق اور تراخواجہ میں ۔ پلیٹ اورچارنس کے مطابق اس علاقہ کو جو اب چینی ترکستان کہلاتا ہے ترکی تہذیب میں ڈھال نے کا سب سے پہلے زیادہ تر اویغوز نے ہی انجان دیا ۔ تاہم یہ امر مشبہ ہے ، ممکن ہے یہ عمل ایغوز کے پیشتروں ہی کے زمانے میں متعمدبعہ ترقی کرچکا ہو ۔ کیوں کہ عرب کاشغر اور ان سب ممالک کو ابتدا ہی سے خالص ترکی علاقے سمجھتے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا الذکر دو ترکی سلطنتوں میں ایک ( کانجو Kan djou والی ) پر 1028ء میں قبیلہ تنگت کا قبضہ ہوگیا ۔ جب کہ دوسری منگولی عہد تک باقی رہی ۔ 824ء میں کانجو کے اویغوزوں کے سامنے قتائی سلطنت کے بانی اپاؤکی Apaoki نے جس نے کچھ عرصہ قبل قرغیزوں کو منگولیا سے نکال باہر کیا تھا ، یہ تجویز پیش کی کہ وہ دریائے اورخون کے کنارے اپنے قدیم گھروں میں واپس آجائیں ۔ لیکن اویغوز اس وقت تک نئے وطن کے حالات و ماحول سے مانوس ہوچکے تھے اور دوبارہ خانہ بدوش نہیں بناچاہتے تھے ، اس لئے یہ پیشکش قبول نہیں کی ۔
قرقیزپر قتائی کی فتحیابی درحقیقت میں منگولیا میں ترکی حکومت کے خاتمہ اور منگولی عناصر کی حکومت کا آغاز تھا کی نشادہی کرتی ہے ۔ قرقیز ترکی النسل قوموں میں سے آخری قوم تھے جو منگولیا میں آباد تھے ، تنہا ایسے جن کی یادیں اب تک وہاں باقی رہی ہیں ۔ چنانچہ منگولیا عہد سے پہلے کی سب قبریں قرغیز قبریں کہلاتی ہیں ۔ (جاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...