مغربی سلطنت
نوشیروان عادل ( 531 تا 579 ) ساسانی حکمران نوشیروان عادل نے مغربی ترکوں سے جن کا حکمران ایل خان تھا دوستانہ تعلقات قائم کریئے اور ان کی مدد سے افغانستان میں ہنوں کو شکست دی اور اس کے بعد اس نے خزر قبائل پر فوج کشی کی اور ان کی طاقت کو پارہ پارہ کردیا ۔ اس سے بھی ترکوں کی طاقت میں خاطر اضافہ ہوا اور افغانستان میں ہنوں کے خالی کردہ علاقوں پر ترک برائے جمان ہوگئے ۔ یہی وجہ ہے تھی جس کے سبب ترکوں اور نوشیروان میں اختلاف پیدا ہوگیا ۔ ۵۶۷ء میں ترکوں کے سردار ویزابول Dizabul نے نوشیروان سے اتحاد کی کوشش کی اور نوشیرواں کے دربار میں اپنا ایک سفیر بھیجا ، لیکن نوشیروان نے یہ درخواست مسترد کردی اور سفیر کو زہر دے کر ہلاک کر وادیا ۔ اس واقع کے بعد ترکوں نے زورشور سے یلغار شروع کردی ، مگر نوشیروانی عہد ایرانی حکومت کے عروج کا عہد تھا ۔ لہذ انوشیروان نے بھی جوابی کاروائی کی اور ترکوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ۔ ترکوں نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے رومی حکومت سے اتحاد کی کوشش کی ، مگر قیصر جسٹین Jasttain اس کے لئے راضی نہیں ہوا ۔ مگر چارسال کے بعد ۵۷۲ء میں ترکوں سے باضابطہ اتحاد کرلیا اور ترکوں نے ایرانی مملکت پر زور شور سے حملہ شروع کردیئے ۔ نوشیروان کے جانشین ہرمزد کے سپہ سالار بہرام چوبین نے ترکوں کو کئی جنگوں کے بعد انہیں سخت شکست دی ، مگر ترکوں کا ایرانی مملکت کے شمالی حصہ پر قبضہ بدستور برقرار رہا ۔
تانگ Tang خاندان نے افغانستان میں ترکوں کی مغربی سلطنت کے اقتدار کا خاتمہ کردیا اور اپنا اقتدار پامیر کے مغربی علاقوں تک قائم کرلیا ۔ تقریباََ سوسال ( 659ء تا 751ء ) تک ہندوکش کے شمال جنوب کی سولہ بادشاہیاں چینیوں کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرتی تھیں ، جو حقیقی کے بجائے برائے نام تھا ۔
چین کے تانگ Tang خاندان کی ترکوں نے سیادت قبول کرلی تھی ۔ مگر مغربی ترکوں نے جلد ہی شمالی ترکوں کے بعد اپنی آزادی اور اقتدار دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور کچھ عرصہ ( 659ء تا 751ء ) کے لئے شمالی ترکوں کے زیر نگر ہوگئے ۔ مگر شمالی ترک مغربی ترکوں کو مستقل مفتعاد بنا نہیں سکے ۔ مغربی ترک قبیلوں میں تیورگیش سب سے ممتاز تھے اور ان کے سرداروں نے آخر میں خانیت کے اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لئے تھے ۔ تیورگیش Turgesh سلطنت کا خاتمہ121ھ/739ء میں نصر بن سیار کی قیادت میں عربوں کے ہاتھوں ہوا ۔
بوزنطنی ذرائع سے پتہ کرتا ہے کہ576ء میں ترکوں نے خاکنائے کریما Tauric Bosporus فتح کرلیا تھا ۔ 581ء میں وہ خرسون Chersoneses کی دیواروں کے سامنے پہنچ گئے ، لیکن جزیرہ نما کریما Tauric Peninsula پر ان کی حکومت زیادہ نہیں رہی ۔ 590ء کے قریب وہاں بوزنطینی حکومت دوبارہ قائم ہوچکی تھی ۔ 568ء سے 598ء تک کے وقائع بوزنطنی ماخذ میں ملتے ہیں ۔ 568ء میں زمرخوس Zenarchos کی سردگی میں ترکوں کے پاس بوزنطی شفارت پھیجی گئی ، زمرخوس نے نہر اتل Atal ( والگا Volga ) کو غبور کیا اور مغڑبی ترکوں کے پاس قاغان کی قیام گاہ جو شہر کوچا Kuca کے شمال میں آق تاغ ( سفید پہاڑوں ) میں تھی ۔ ساسانیوں کے خلاف مشترکہ فوجی اقدام کے بارے میں گفت شنید ہوتی رہی ۔ مگر کوئی دیر پا اتحاد قائم نہیں ہوا ۔ چند سال کے بعد ترک بونطیوں اور ایرانیوں سے جنگ میں مصرف ہوگئے ۔ ( ترک ۔ معارف اسلامیہ )
جب ترکوں نے قوم آلان Alans کو فتح کیا تو ساسانی سلطنت کی حدودیں ترکی علاقہ سے نہ صرف وسطہ اشیاء بلکہ بحیرہ خزر سے آملیں ۔ غالباََ یہی ترک تھے جن کے خلاف دربند کی سدیں تعمیر ہوئیں ۔ خزر نے ترکی خانہ بدوش سلطنت کی روایات کو قائم رکھا ۔ انہوں نے ساتویں صدی عیسویں میں بہت قوت حاصل کرلی تھی ۔ بحیرہ خزر کے مشرقی علاقوں میں ساسانیوں نے اپنے ترک ہمسایوں کے خلاف مدافعتی قلعے تعمیر کئے ۔ صوبہ جرجان کی حفاظت کے لئے آجری سد بنائی گئی ۔ لیکن یہ ترکوں کے فاتحانہ حملون کی روک تھام نہ کرسکیں ۔ جرجان اور طبرستان کے درمیانی سرحد پر ایک اور اس لئے دیوار تعمیر کی گئی تھی کہ صوبہ جرجان ہاتھ سے نکل گیا تھا ۔کتاب ال آغانی کے مطابق رود گرگان کے ترکوں نے ایرانیوں کی زبان اور مذہب اختیار کرلیا تھا ۔ اس لئے ساسانیوں کے زمانے میں غالباََ چھٹی صدی عیسوی میں ترک اس علاقہ کو فتح کرچکے ہوں گے ۔ ( ترک ۔ معارف اسلامیہ )
ترکوں میں اشاعت اسلام
98ھ/716ء میں عربوں اور جرجان کے ترکوں کے درمیان جنگ ہوئی ۔ اس میں اگرچہ ترک کامیاب رہے ۔ اس زمانے میں ساسانی سرحدیں دریائے مرغاب تک تھیں اور آمو دریا کے کنارے جو محاربات ہوئے اس میں عموماَ ترک کامیاب رہے ، لیکن اس علاقے میں ترک جو اب ساسانیوں کے سرپرست ہوگئے تھے ۔ عربوں کے خلاف معرکہ آرائیوں میں اتنے زیادہ کامیاب نہیں رہے ۔ عربوں نے امن و آتشی کی مہمات بھی ترکوں کے پاس بھیجیں ۔ خلیفہ ہشام ( 105ھ / 724ء تا 125ھ / 743ء ) نے ترکوں کے بادشاہ کو دعوت اسلام دی تھی ۔
اگرچہ ہجرت کی پہلی صدیوں میں ترکی حملہ آوروں کے خلاف دفاعی جنگ کے علاوہ ترکی علاقے فتح کرنے کے لئے فوج کشی بھی کی گئی ، تاہم مسلمانوں کی جنگی کامیابیوں کے قبول اسلام پر بہت کم اثر ہوا ۔ اس لئے جو اصول رسول اللہ ﷺ نے حبشیوں کے لئے وضع کیا تھا اس کا اطلاق ترکوں پر بھی کیا گیا ، یعنی جب تک وہ تم سے تعرزض نہ کریں تم بھی ان سے تعرض نہ کرو ۔
کفار ترکوں کی آخری یورش 291ھ/904ء میں پسپا کر دی گئی ، بالاآخر ترکوں نے چوتھی ہجری / دسویں عیسوی میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنا شروع کیا اور ۳۸۲ھ/۹۹۲ء میں مسلم ترک پہلی دفع بخارا میں فاتحانہ داخل ہوئے ۔ اس سے بھی اہم سلجوقی ترکوں کے ہاتھوں پانچویں ہجری / گیارویں عیسویں میں ایشیائے کوچک کو فتح کیا گیا اور ایلک خانیہ یا آل افراسیاب کا قبول اسلام ، جو کہ ایک کثیر تعداد میں یعنی دو لاکھ ترک قوم کا قبول اسلام تھا اور یہ سلسلہ جاری رہا ، حتیٰ وسطہ ایشیاء میں اسلام کی اشاعت میں کفار قرہ ختائی سلطنت کی تاسیس سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوئی ۔ یہ سلطنت بارویں صدی میں وجود میں آئی تھی ۔ اس وقت خان بلاساغون کی ریاست ان بلاد میں انتہائی شمالی علاقہ میں تھی ۔ جب اس سلطنت کے حصہ بخرے ہوگئے ، تو اس وقت بھی دریائے ایلی EYli کے شمال میں اسلامی سلطنتیں موجود تھیں ۔
)جاری(
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...