کہانی کہنے کا فن کہاں سے آیا جانتا نہیں لیکن کہانیاں میرے اردگرد ہر سو جلوہ گرہیں جو انسان ان کہانیوں کو سہتا ہے یا ان کا سامنا کر تا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ کتنی جاندار ہیں۔ خوشیاں بانٹنے والیں‘ غم میں ڈبو دینے والیں آپ اگر اس مادی جہان میں موجود ہیں تو ایک کہانی کے سحر میں تو آپ بھی مبتلا ہیں وہ کہانی آپ کی اپنی زندگانی ہے آپ بھلے اسے گھسیٹ کر راکھ کے ڈھیر تک لے جائیں لیکن زندگی میں اس کے امکانات لا محدود ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی پل آپ اسے خیال سے وجود میں لے آئیں یا پھر کسی فنکار کی کا ریگری کے باعث وہ آپ سے جدا ہو کر اپنا ایک علیحدہ وجود تشکیل دے لے۔یہ جہان حیرت ہے کبھی یہ انسان کے ساتھ جنم لیتی ہیں پلتی بڑھتی ہیں اور پھر کسی روزاس انسان سے جداگانہ وجود کا اظہار کر دیتی ہیں کبھی انسان کہانی پہلے بُنتا ہے اور اسے جیتا بعد میں ہے۔ میری کہانیاں دوسری صورت حال کی عکاس ہیں میں انہیں پہلے تخلیق کرنا ہوں پھر جیتا ہوں۔ ایسا کرنا میرے لئے بہت آسان ہے جب میں اپنے گھر کی ڈیوڑھی یا بیرونی دروازے سے نکلتا ہوں تو ٹھٹک کر رک جاتا ہوں وہ مسکراتی ہوئی میرا سواگت کرتی ہیں کبھی مجھے باہر جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ مجلد کتابوں سے جھانکنے لگتی ہیں کبھی یہ کسی سوانح حیات کے پنوں سے کونپلوں کی طرح پھوٹتی ہیں کبھی کسی سطر سے پھول کی پنکڑی کی طرح آہستہ آہستہ سے جلو ہ گر ہوتی ہیں‘کبھی برکھا رت سے مہک کی طرح ‘ کبھی کسی آنسو کی نمی سے دکھ کا روپ لئے ہوئے‘ کبھی چاند چہرے کی مسکراہٹ سے محبت کی صورت‘ کبھی کسی مٹیار کی چال سے محبوب سے ملن کی آس لئے ہوئے‘ کبھی کسی بوڑھے چہرے کی سلوٹوں میں اڈیک انتظار یا وچھوڑے کی صورت میں‘ چائے کی چسکی میں ذائقے کی شکل میں یا پھر ان بولتے نینوں سے جو ہر جلوے کو اپنے اندر جلدی جلدی سمو لیناچاہتے ہوں۔کہانیاں ہر جگہ موجود ہیں اور مجھ سے مخاطب وہ کر کہتی ہیں گلزار ملک ہمیں لکھو اور میں لکھتا جاتاہوں اور کبھی کبھار توا یک ہی کہانی کو کئی کئی بار جینا پڑتا ہے تب جا کے کہانی کو مطمعن کر پاتا ہوں۔
میرے خیال میں‘ میں انہیں بس تیزی سے لکھتا جاتا ہوں اور نہیں جانتا کہ وہ کیا ہیں‘ کہاں سے آتی ہیں کیا چاہتی ہیں یا مکمل ہو کر کیسی ہونگی مکمل ہونے تک میں اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ہوتا یوں ایک طرح سے میں اس لمحے ایک معمول کی صفات میں ڈھل جاتا ہے اور جب اس نسیانی کیفیت سے واپسی ہوتی ہے تو کہانی تخلیق ہو چکی ہوتی ہے۔۔ یقین سے یہ کہنا کہ کہانی سے میرا رشتہ رفیقانہ ہے یا معاندانہ مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ میں بس اپنی آنکھوں یا پھر حسوں کو بیدار رکھتا ہوں تاکہ کہانی پکڑنے میں کوئی چوک نہ ہو جائے۔یہ تاریک گھپ اندھیرے میں سوئی ڈھونڈنے جیسا عمل ہے یا پھر گھنی کانٹے دار جھاڑیوں میں شکار کرنے جیسا جو ہر صورت آپ کو لہو لہان تو کریں گی ہی۔۔ اس میں شکار کہانی ہوتی ہے تخلیق کار جاننا آسان نہیں لیکن پھر بھی چونکہ ادب ہی میرے لئے اوڑھنا بسونا یا سانس لینے کا جواز ہے۔ اس لئے شائد یہ میری ”میں“ کو راحت بخشتا ہے اس کیفیت میں‘ میں نے سینکڑوں کہانیوں کو موت کے گھاٹ فنا ہونے سے بچایا ہے اور نہیں جانتا کہ یہ کہانیاں مجھے فنا ہونے سے بچا سکیں گی یا نہیں۔شاید یہ ٖصرف ایک خام سوچ کے سوا کچھ نہیں ازل سے فنکاروں نے اپنے کام سے لطف اٹھایا ہے یہ سوچے بغیرکہ ان کا کام زندہ رہے گا یا نہیں یہ بس گھونسلہ بناتے پرندے کی طرح کی سوچ ہے اور حقیقت دائمی فنا کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یا پھر دائمی زندگی کے لیے جن دوسرے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے مجھے ان کی ہوا بھی نہیں لگی۔ رات رات بھر جاگتے رہنا‘ آنسو بہانا‘ خیر کے ساتھ جڑے رہنے کی کوشش کرنا جیسی اشیاء شاید میرا مقدر نہیں بدل سکتیں اور میں خود کو راکھ کی جانب تیزی سے محو سفر دیکھتا ہوں۔کیا میں خود کو فنا ہونے سے بچا پاؤں گا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ شاید کسی کے پاس بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں۔ہم سبھی لوگ بنسری کی تان کی طرح اٹھتے ہیں اور پھر گم ہو جاتے ہیں۔ میرے لئے اس سے بڑی خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ میں اس کی کہانی میں ہوں بھلے عارضی ہی سہی۔گلزار ملک جس نے بنسری کے سر وں کی مانند جنم لیا اور اگلے کسی بھی پل سحر انگیز فضا میں بکھر جانے والا ہے۔ لیکن سوا ل یہ ہے کہ کیا تم اسے جاننا نہیں چاہو گے میرے محبوب!۔ یہ تمہاری کہانی کا ایک کردار ہے اور فراموشی کے قریب ترین۔