دو ماہ پہلے میرے بائیں پیر سے کار کا ٹائیر گُزر گیا۔ میری اپنی غلطی تھی ۔ ٹخنے پر زخم ہوا۔ کار والے صاحب سے معذرت کی۔ وہیں سے ٹیٹنس کا انجکشن لگوایا، زخم پر کچھ کاروائی کرائی اور گھر آ گیا۔
پندرہ دن بعد زخم ختم تھا، صرف نشان رہ گیا اور آج دو ماہ بعد زخم کا نشان بھی ختم ہو گیا، یوں جیسے کچھ ہوا ہی نا تھا۔
قریباً پچیس سال پہلے میرے آفس میں ایک ہیلپر ہوا کرتا تھا۔ ایک مقامی وڈیرے سیاستدان سے اُس کی قریبی رشتہ داری تھی۔ کام کرنا تو بہت دور کی بات، آفس آنا بھی ہیلپر صاحب اپنی توہین سمجھتا۔
ڈسپلن پہ کمپرومائز کرنا میرے لئے کبھی بھی ممکن نہیں رہا۔ ھیلپر بھائی کو زبانی سمجھایا، تحریری بات کی کہ آفس کو آفس سمجھ کر اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ تنخواہ تم میرے سے لیتے ہو وڈیرہ صاحب تُمہیں تنخواہ نہیں دیتا لیکن وہ بندہ کسی طرح بھی اپنے آپ کو درست کرنے پر تیار نا ہوا۔ جب بھی کچھ کہا جاتا تو جواب میں اُس سیاستدان کا نام لیکر دھمکی لگاتا۔
آخر ایک دن تنگ آ کر میں نے اُسے ڈیوٹی سے سسپنڈ کر کہ اُس کے خلاف انکوائری کمیٹی بنا دی۔
میری اس کاروائی کے فوراً بعد میرے آفس سامنے چار گن بردار موجود تھے۔ اُن کی طرف سے مُجھے حکم دیا گیا کہ آپ کو فلاں فلاں وڈیرا صاحب بلا رہے ہیں۔ وہی وڈیرا سیاستدان جو میرے ہیلپر کا رشتے دار تھا۔
اُن لوگوں نے مجھے گھسیٹ کر اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ہم سیاستدان صاحب کے ڈیرے پر پہنچے۔ وہاں مجھے آدھ گھنٹہ بطور سزا وڈیرے صاحب کے کمرے باہر کھڑا کرانے کے بعد اندر کے لئیے شرف باریابی بخشا گیا۔
کمرے کے اندر سیاستدان صاحب نے میرے لئیے بہتیرے غلط الفاظ استعمال کئیے لیکن میرے بارے اُن کے پہلے الفاظ تھے کہ،، تمہاری حیثیت کیا ہے،،۔ ؟
چونکہ میں سچ پر تھا تو چند دن بعد وہ ؤڈیرے صاحب میرے گھر معذرت کرنے تشریف لائے۔ دشمن دار آدمی تھے۔ اللّہ پاک اُن کی مغفرت فرمائے۔ اس واقعہ کے چند ماہ بعد اُن کا قتل ہو گیا۔ قریباً ایک سال بعد میری بھی ٹرانسفر ہو گئی۔ لیکن میں جہاں بھی گیا اور جیسے بھی رہا۔ مجھے اللّہ پاک نے جتنی بھی عزت دی۔ میں اُن صاحب کے یہ الفاظ کبھی نا بھولا کہ ،، تمہاری حیثیت کیا ہے،،۔
جسم کا زخم تو پندرہ دن میں ٹھیک ہو گیا پر ان صاحب کی زبان نے جو زخم دیا وہ روح پر لگا تھا۔ پچیس سال بعد بھی ہرا بھرا ہے اور میری موت تک مجھے یاد رہے گا کہ کسی نے مُجھے بے قصور ہی کہا تھا کہ۔
تمہاری حیثیت کیا ہے ،، ۔ ؟