آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے میں اس کے نومولود مدیر کو اس کے فرائض سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’معروف ناموں کے دبدبے میں آکر ان کی کمزور تخلیقات چھاپنے سے انکار کرنے کی جرأت مدیر میں ہونی چاہیے کیوں کہ ’ہاں‘ کہنے سے ہمیشہ بڑا ہوتا ہے ’نہ‘ کہنا۔‘‘
اگرچہ فاروقی صاحب کی یہ بات ادارت کے تناظر میں تھی لیکن اس ایک بات کا اثر آئندہ کچھ برسوں میں میرے ہر شعبۂ حیات پر نظر آنے لگا، حتیٰ کہ ایک بار جب میں نے ان کے ایک فرمائشی مضمون کے علاوہ ان کے ایک دیرینہ دوست کی متنازعہ تحریر کو شائع کرنے سے بصد احترام انکار کردیا تو انھوں نے اس پر تھوڑی سی خفگی کا اظہار کیا۔ میں نے انھیں برسوں پہلے کہی ان ہی کی بات یاد دلائی کہ اس کھائی میں انھوں نے ہی مجھے پھینکا تھا جہاں میں نے زندہ رہنے کی اب عادت ڈال لی ہے۔
ان پندرہ برسوں میں ’اثبات‘ کو جو بھی قدر و منزلت ملی، وہ اسی ’نہ ‘ کا نتیجہ ہے۔ منٹو پر مکالمہ ہو ، احیائے مذاہب پر مباحث ہو یا ادب میں فحش نگاری کے تصورات ہوں، سب اسی حرف انکار کے کرشمے تھے۔ناول لکھا تو اس میں بھی فکشن کے مروجہ اصول و قواعد کا انکار شامل تھا۔ مجھے یہاں فاروقی صاحب کی ایک اور بات یاد آتی ہے کہ ایک ناکام تجربہ بھی کامیاب تقلید سے بہرحال بہتر ہوتا ہے۔ تجربہ اسی وقت تم کرسکتے ہو جب تم بھیڑ چال چلنے سے انکار کرتے ہو اور اپنے لیے ایک الگ راہ منتخب کرنے کا خطرہ مولتے ہو۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ’نہ‘ کہنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ بہت سی سہولتوں اور اعزاز و انعام سے خود کو محروم رکھنا پڑتا ہے، بہت سے دوستوں کو کھونا پڑتا ہے، چار و ناچاربہت سے لوگوں کو ناراض کرنا ہوتا ہے، تب کہیں جا کر تمھیں اپنے ہونے کا اثبات میسر آتا ہے۔
’شب خون‘ کے بند ہونے کی ایک وجہ فاروقی صاحب کی ’نہ‘ ہی تھی ورنہ ان کا رسالہ اس وقت نہ تو مالی صورت حال سے دو چار تھا اور نہ وہ اپنی مقبولیت کھوچکا تھا بلکہ یہ ایک طرح سے جمی جمائی محفل سے اٹھ جانے جیسا تھا۔ ’اثبات‘ کے ساتھ بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ جب میں نے ’اثبات‘ کو بند کرنے کا اعلان کیا تو اس کے پس پشت کچھ ضمنی محرکات کے علاوہ جو ایک بنیادی محرک شامل تھا، وہ یہی تھا کہ اب اس میں کچھ نیا کرنے کی گنجائش مجھے بہت کم نظر آتی ہے۔ اشاعت برائے اشاعت کا میں کبھی قائل نہیں رہا، اگر کوئی شمارہ مجھے کچھ نیا نہیں دیتا تو پھر میں اسے جاری کیوں رکھوں؟ میں پہلے بھی کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ رسالہ ہو یا فکشن، اس کا پہلا واسطہ مجھ سے ہوتا ہے، اگر وہ مجھے مسرت نہیں پہنچا پا رہا ہے، مجھ میں وہ کچھ بدلنے سے قاصر ہے، تو پھر اس کی اشاعت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ میں اسے مال بردار گاڑی کی طرح دھکیلنے کے حق میں نہیں ہوں۔ میں ’اثبات‘ کو صرف اس کی طول العمری کا ریکارڈ بنانے کے لیے جاری نہیں رکھ سکتا ، میں سسک سسک کر کسی بھی طرح سے جینے کا قائل نہیں ، میں اس کی جگہ خودکشی کو ترجیح دوں گا، حالاں کہ ہم سب زندگی بھر زندگی کو ’نہ‘ کہنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔
امریکی فلسفی ہنری تھورو بھی ’نہ‘ کرچکے ہیں۔ دو سال تک وہ ایک تالاب کے پاس رہے۔ شہری آبادی سے کچھ کلومیٹر دور ایک سنسان اور انجان جگہ پر انھوں نے زندگی گزاری اور ایک کتاب لکھی، ‘Walden and other writings’۔ہنری تھورو ہی کیوں، ہندوستان کے رِشی مُنی بھی ایسا کرچکے ہیں۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دنیا نام کی مشین کا پرزہ نہیں بنیں گے، سسٹم کو ’نہ‘ کہیں گے۔
دنیا میں ایسے کئی مصنفین ہیں جنھوں نے دو تین کتابوں کے بعد ’نہ‘ کہہ دیااور ایک طویل خاموشی کو زیب تن کرلیا۔ جے ڈی سیلنگر سے لے کر رِم باڈ تک یا پھر حوان رلفو سے لے کر بابی بیزلان تک۔ لکھنے کو بھی ’نہ‘ کیا جا سکتا ہے جسے خود کی دریافت اور اس کے اظہار کا ایک بہترین وسیلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ کام ’ناکام‘ ہو کر نہیں بلکہ کامیابی کے عروج پر پہنچ کرکیے جانے کا لطف کچھ اور ہے۔ سیلنگر کی شہرت سے کون انکار کرسکتا ہے یا پھر حوان رلفو کی ’پیڈرو پرامو‘ کی کامیابی سے کون واقف نہیں۔ بابی بیزلان جنھوں نے ’ایڈلفی پبلی کیشن ہاؤس‘ قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا اور جن کی تحریروں کا انتظار کئی معروف ہستیوں کو رہتی تھیں۔ بابی کے تحریر کردہ نوٹس بعد میں، شاید ان کی موت کے پانچ سال بعد چھپے: Notes without a Text۔
فرانس کے مصنف نکولس چیمفورٹ نے غلط نہیں لکھا تھا، ’’تقریباً ہر شخص غلام ہے کیوں کہ ان میں ’نہ‘ کہنے کی اہلیت نہیں ہے۔
چیمفورٹ کا سب انتظار کرتے رہے کہ وہ کبھی ایک ناول لکھیں گے لیکن انھوں نے کبھی نہیں لکھا ،وہ ناول جس کا دنیا کو انتظار تھا۔ انھوں نے عجیب و غریب اقوال لکھے اور انھیں اقوال پر مشتمل کتاب شائع ہوئی۔ وہ کامیاب رہے اور بہت زیادہ کامیاب رہے۔ ان کے ڈرامے دیکھ کر لوئی سولہرویں رو پڑتے ، لیکن وہ جانتے تھے کہ دنیا کیسی ہے۔ وہ کہتے تھے، ’’انسان ایک احمق مخلوق ہے۔‘‘ان سے لوگ پوچھتے رہے کہ آپ لکھتے کیوں نہیں؟ آپ چھپتے کیوں نہیں؟ انھوںنے اس کے جواب میں اقوال کی طرز پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھا جن میں سے دو اقوال درج ذیل تھے:
=کیوں کہ میں پڑھے لکھے لوگوں کی نقل نہیں کرنا چاہتا جو گدھوں کی طرح ایک خالی ناند کے سامنے پیڑ پٹکتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔
=کیوں کہ عوام کو صرف ایسی کامیابی میں دلچسپی ہے جس سے وہ خوش نہ ہوپائے۔
صرف مصنفین ہی نہیں آرٹ کی دنیا بھی ایسے لوگوں سے خالی نہیں جنھوں نے آرٹ کی دنیا کو ہی ’نہ‘ کہا اور وہ نایاب ہوگئے۔ مارشل ڈوشیمپ کو کون نہیں جانتا۔ چھبیس سال کی عمر میں ہی آرٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دینے والے اس فنکار نے امریکہ میں ایک بڑا شو کرنے کے بعد آرٹ کی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ وہ واپس پیرس چلے گئے اور شطرنج کھیلنے لگے۔ طویل عرصہ تک انھوں نے نہ تو کوئی فن تخلیق کیا اور نہ ہی فن کے بارے میں کوئی گفتگو کی۔ آج دنیا کے کم ہی آرٹسٹ ہوں گے جنھوں نے ڈوشیمپ سے انسپریشن نہ لی ہو۔ لیکن ایسا کرنے والے صرف وہ اکیلے آرٹسٹ نہیں ہیں۔
تائیوان کے پرفارمنگ آرٹسٹ’ تائچنگ ہے‘ نے پانچ بڑے پرفارمنس دیے جن میں سے ایک پرفارمنس کے لیے وہ سال بھر ہر گھنٹے ایک گھڑی کے ساتھ اپنی تصویر کھنچواتے۔ اس پرفارمنس کا نام رکھا گیا: Doing Time۔ ذرا سوچ کر دیکھو کہ ایک شخص پورے ایک سال تک ایک گھنٹے سے زیادہ سو نہیں رہا ہے، کیوں کہ اسے پرفارم کرنا ہے۔ تائچنگ نے ایسے بہت سے پرفارمنس پیش کیے ؛ ایک کمرے میں سال بھر بند ہونے سے لے کر ایک دوسرے ساتھی فن کار کے ساتھ ایک سال تک چھ فٹ کی رسّی میں بندھے رہنے تک ۔ لیکن 1986میں انھوں نے طے کرلیا کہ اب وہ نہ تو کسی آرٹ شو میں جائیں گے ، نہ کسی آرٹ کو دیکھیں گے اور نہ ہی آرٹ کی دنیا کے لوگوں سے ملیں گے۔ گویا انھوں نے کامیابی کی بلندی پر پہنچ کر آرٹ کی دنیا کا پُرزہ ہونے سے انکار کردیا، اسے ’نہ‘ کہہ دیا۔
چنانچہ ’اثبات‘ کو حسب استطاعت اپنے بام عروج پر پہنچا نے کے بعد ادارت کی دنیا کو ’نہ‘ کہتے ہوئے میں اسی طرح پُر سکون ہوں جس طرح دنیا کے کامیاب ترین لوگوں نے بڑی طمانیت کے ساتھ بھری محفل میں اس کا پرزہ بننے سے انکار کردیا تھا۔ میرے اندر اثبات کو جس بلندی پر لے جانے کی استطاعت تھی، وہ میں لے آیا،اب میں خود کو اس جگہ کھڑا محسوس کررہا ہوں جہاں سے اس کا سفر معکوس شروع ہوجانا ہے جو مجھے منظور نہیں، اس کی جگہ میں بلندی سے نیچے چھلانگ لگانے کو ترجیح دوں گا جو فاروقی صاحب نے کیا اور جو میں اب کرنے جا رہا ہوں۔
اثبات کا آئندہ شمارہ الوداعی شمارہ ہوگا۔
[اداریہ، ’اثبات‘ 38+39]
https://web.facebook.com/esbaatbookseries/posts/pfbid02D6wjc2zEmRZSVF2c4UGCXF3kMMBvQhp9fzWPKoJUB9PZLW17KKzz7WhaDVv7jdv8l