گیس لائٹنگ پہ بات ہوئی تو بہت سے متجسس قارئین نے سوال کیا کہ آخر اس کا حل کیا ہے؟ لوگ گیس لائٹر کے ساتھ برسوں کیسے بتا دیتے ہیں؟ کیا گیس لائٹر جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے؟ گیس لائٹنگ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
صاحب آپ سب کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے بہت کچھ کھنگالا اور آپ کے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں ہم کہاں تک کامیاب ہوئے، اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ!
“تم” نامی چھتری وہ ہتھیار ہے جو متشددانہ رویوں کا حامل، متاثرہ شخص پہ بہت سے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے ہمیشہ تانے رکھتا ہے۔
گیس لائٹر کا بنایا ہوا حصار توڑنا ایک دشوار ترین عمل کیوں بن جاتا ہے؟
1- معذرت اور مشروط معافی
گیس لائٹر اپنی ہر زیادتی کے بعد معذرت تو کرتا ہے مگر درپردہ معافی کے الفاظ کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں،
” مجھے معاف کر دو میں نے تمہیں تھپڑ مارا لیکن تم نے مجھے غصہ ہی اتنا دلا دیا تھا “
” مجھے معاف کر دو میں نے تم سے بے وفائی کی لیکن اگر تم اچھی ساتھی ہوتیں/ ہوتے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا”
مشروط معذرت پہ مبنی یہ الفاظ محض اس لئے کہے جاتے ہیں کہ متاثرہ فریق ہتھے سے نہ اکھڑ جائے۔
2- متاثرہ فریق کی کمزوریوں کا استعمال
محبت اور قربت کے لمحات میں ایک ساتھی کا دوسرے سے اپنے احساسات، جذبات، مسائل، مشکلات، خوف، ڈر اور کمزوریوں کا ذکر ایک فطری عمل ہے۔ گیس لائٹر ان معلومات کو ضرورت کے وقت بارود کی طرح استعمال کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
” کوئی حیرت کی بات نہیں کہ تم مجھ سے اختلاف کر رہے/ رہی ہو۔ تمہیں تو تمہارے بہن بھائی برداشت نہیں کر پاتے”
3- احباب و قرابت داروں کی پشت پناہی
بیشتر لوگ گیس لائٹر کی بدسلوکی کے عادی ہو کر اسے نارمل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور تنقید یا اختلاف کرنے والوں کو اس کے اسباب بھی سمجھاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی گیس لائٹر سے ہمدردی اور وفاداری کے جذبات بھی ہیں۔
” دیکھو نا، دل کا کتنا اچھا/ اچھی ہے، بس غصہ جلدی آ جاتا ہے “
” اگر کسی بات سے روکتا/ روکتی ہے تو دیکھو جان بھی تو تم پہ ہی نچھاور کرتا/کرتی ہے”
4-ٹکراؤ سے بچاؤ
اہل خانہ گیس لائٹر سے خوفزدہ ہو کر ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی بحث میں نہ الجھا جائے۔ گیس لائٹر اپنے متشدد رویے سے حکم ماننے کا ڈر اور خوف پیدا کرتا ہے۔ اس کیٹیگری میں گیس لائٹر کے بچے آتے ہیں جو سالہا سال جذباتی تشدد کا شکار بن کر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اذیت جھیل کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ ہر قیمت پہ اس ٹکراؤ سے بچیں گے۔
5- اسباب سے چشم پوشی
گیس لائٹر سمجھ نہیں پاتا یا سمجھنا نہیں چاہتا کہ ان کا بدصورت رویہ فساد کی جڑ ہے۔ وہ ہر رویے کا سبب دوسرے فریق کی ذات، رویہ، الفاظ اور واقعات کو گردانتا ہے جو انہیں بدسلوکی پہ مجبور کر دیتے ہیں۔
6- مصنوعی ہمدردی
گیس لائٹر ہر زیادتی کے بعد متاثرہ فریق کے جذبات سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے شرمندگی کا اظہار کرتا ہے۔ اگر متاثرہ فریق یقین کر لے اور بات رفع دفع ہو جائے تو انہیں واپس اپنا رویہ اختیار کرنے میں کچھ دیر نہیں لگتی۔ درحقیقت ان کی مصنوعی ہمدردی دوسرے فریق کو حقیقت سمجھنے ہی نہیں دیتی۔
گیس لائٹر، گیس لائٹر کیوں اور کیسے بنتا ہے؟
مشہور زمانہ بحث” فطرت یا ماحول” اس کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے۔ کچھ لوگ متشدد فطرت کے ساتھ جنم لیتے ہیں اور کچھ اسے اپنے بچپن میں اپنے والدین، رشتے داروں اور ماحول سے سیکھتے ہیں۔ زیادہ تر گیس لائٹر خود تشدد کا شکار بن کے بچ نکلنے کی تکنیک سیکھتے ہیں۔
بہت سے گیس لائٹر اپنی ذات پہ اعتماد کی کمی سے احساس کمتری کا شکار بن کے اندرونی چبھن، غصے اور اضطراب میں مبتلا رہتے ہیں اور کسی بھی موقع پہ یہ سیلابی ریلا متاثرہ فریق کو بہا لے جاتا ہے۔
متاثرہ فریق گیس لائٹر کو کیوں نہیں چھوڑ پاتا؟
متاثرہ فریق یقین اور بے یقینی کی متضاد کیفیات میں معلق ہو کے رہ جاتا ہے۔ ایک وقت میں ذہن گیس لائٹر کے متعلق وہ سجھاتا ہے جو متاثرہ فریق نے اپنے خیال میں بت تراش رکھا ہے اور دوسری طرف متضاد صورت حال کا سامنا! ایک عجیب سی کھچڑی پک جاتی ہے اور متاثرہ فریق کچھ اس طرح کا فیصلہ کرتا ہے،
1-ان چاہی صورت حال کو نظر انداز کر دینا
2-ان چاہی صورت حال کو بدلنے کی کوشش کرنا
3- ان چاہی صورت حال کو تسلیم کر کے اسی میں ڈھل جانا اور اپنے آپ کو یقین دلا دینا کہ یہی سب ٹھیک ہے۔
حقیقت میں کیا کرنا چاہیے ؟
اگر کسی بھی رشتے میں چھٹی حس اشارہ کرے کہ کچھ گڑبڑ ہے تو اپنے اندر کی آواز سنیے۔ گیس لائٹر متاثرہ فریق کی قوت ارادی کو بری طرح متاثر کرتا ہے سو اپنے کسی ہمدرد کی مدد لیجیے جو آپ کے اعتماد کو بحال کر سکے۔
گھبراہٹ کا شکار ہوئے بنا کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنا سیکھیے اور اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیجیے۔
“ مجھے علم ہے کہ تم مجھ سے اتفاق نہیں کرتے/ کرتی لیکن میں ایسا ہی محسوس کرتا/ کرتی ہوں”
“جب تم میرا نام بگاڑتے/ بگاڑتی ہو یا گالی گلوچ کرتے/ کرتی ہو، یہ میرے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے”
“تم میرا مذاق اڑا رہے تھے/تھی ، یہ سننا میرے لئے مشکل تھا”
“یہ میرے احساسات ہیں اور میں ایسا ہی محسوس کرتی/کرتا ہوں”
“یہ میرا تجربہ اور میرے جذبات ہیں اور ان کی میرے نزدیک اہمیت ہے”
“ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ تم میری بات سننا ہی نہیں چاہتے/ چاہتی”
“مجھے بخوبی علم ہے کہ میرے لئے کیا چیز بہتر ہے؟”
“میں اپنے لئے یہ فیصلہ کرنا چاہتا/چاہتی ہوں”
“میں نے تمہیں بہت دفعہ کہہ دیا میں ایسا نہیں چاہتا/ چاہتی. اب میں اس سلسلے میں اور کوئی بات نہیں کروں گا/ گی”
“اگر تمہیں غصہ آ سکتا ہے تو مجھے بھی آ سکتا ہے”
یہ سب باتیں کہتے ہوئے متاثرہ فریق کو اپنی سنجیدگی، سکون ، متانت اور پختہ آواز سے کام لینا ہے۔ ملتجیانہ رویہ، منمناتی آواز، گھگھیاہٹ، یا چیخ وپکار متاثرہ فریق کو وہ نتیجہ حاصل نہیں کرنے دے گی جو اسے درکار ہے۔ گیس لائٹر یا تو جسمانی تشدد پہ اتر آئے گا، یا بات سننے سے ہی انکار کر دے گا۔
یاد رکھیے ، متاثرہ فریق کے جذبات و احساسات احترام کے متقاضی ہیں اور اس احترام کی روشنی میں عالمی طور پہ اٹھارہ اصول وضع کیے گئے ہیں جو ہر ذی شعور کو پلے باندھ لینے چاہییں۔
1-مجھے حق ہے کہ میری بات سنی جائے۔
2-مجھے حق ہے کہ میں اپنے جذبات محسوس کروں۔
3-مجھے حق ہے کہ میں بحث میں حصہ نہ لوں۔
4-مجھے حق ہے کہ میں ناپسندیدہ بات کا جواب نہ دوں۔
5-مجھے حق ہے کہ میں اپنی بہتری کے لئے خود فیصلہ کر سکوں۔
6-مجھے حق ہے کہ میں اپنے غصے کا اظہار اپنے پیاروں کے سامنے کر سکوں
7-مجھے حق ہے کہ میں غصے کو برداشت نہ کرتے ہوئے جوابی غصے کا اظہار کر سکوں۔
8- مجھے حق ہے کہ میں اپنی مرضی یا پسند کو تبدیل کر سکوں۔
9- مجھے نہیں کہنے کا حق ہے۔
10-مجھے اپنی خواہش اور ضرورت کے متعلق بات کرنے کا حق ہے۔
11-مجھے حق ہے کہ میں فیصلہ کروں کہ مجھ سے کس طرح کا سلوک کیا جائے۔
12-میرا حق ہے کہ مجھ سے عزت بھرا سلوک کیا جائے۔
13-مجھے دوسروں سے احترام حاصل کرنے کا حق ہے۔
14- مجھے حق ہے کہ میں ناانصافی کے خلاف بات کروں۔
15-مجھے حق ہے کہ میری بات پہ اعتبار کیا جائے اور دوسرے بھی مجھ سے سچ بولیں۔
16-مجھے حق ہے کہ میں مشکلات کا حل ڈھونڈوں۔
17- مجھے دوسروں سے مدد لینے کا حق ہے
18- مجھے حق ہے کہ میں صرف اپنے افعال کی ذمہ داری لوں۔
چلتے چلتے اتنا جان لیجیے کہ 2016 میں امریکن ڈائلکیٹ سوسائٹی نے “گیس لائٹنگ” کو مفید ترین لفظ قرار دیا اور 2018 میں آکسفورڈ ڈکشنری کا یہ “ورڈ آف دی ایر” قرار پایا۔
ڈاکٹر رابن سڑن کی کتاب “گیس لائٹ ایفیکٹ” کا ایک جملہ آپ کی نذر!
” ہوا کچھ یوں ہے کہ اگر آپ احساس کمتری کا شکار ہیں یا آپ کے اندر زہریلا دھواں بھرا ہے، یا آپ کو زندگی کے میدان میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تو آپ کسی دوسرے کا مختلف انداز فکر دیکھ کے برداشت نہیں کر پاتے۔ اس کی ذات کو ریزہ ریزہ کرنے میں ہی آپ کی ذات کا استحکام ہے”
(اس مضمون کی تیاری میں ڈاکٹر گیبریلا سوڈرنی راڈریگز، ڈاکٹر جیمی لانگ، سائیکالوجی گروپ فورٹ لاڈرڈیل اور ڈاکٹر سارکیز کے مضامین سے مدد لی گئی )
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...