دوری کا سبب جاننا آسان ہوتا۔ دور تو چلا گیا دل سے بھی اور زندگی سے بھی۔ پھر بھی اس کے موجود ہونے کا احساس۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہیں پاس ہے اردگرد کسی راستے پر چل رہا ہے۔ پتہ معلوم ہے لیکن رسائی مشکل ہے۔حوصلہ ہوتا تو شاید بے نیاز ہو کر چلی جاتی۔ پنجرے میںقید جہاں صرف میں اور وہ۔۔۔۔ ۔انسانی اوچھے ہتھکنڈوں سے کہیںآ گے نکل جاتی ۔اپنوں کی سازشیں مجھے ہر لمحہ مار ڈالتی ہیں۔ پیدا تو انسانوں کے درمیان ہی ہوئی ہوں۔ لیکن مجھے وہ کسی اور دنیا کا مکین لگتا ہے۔ جو صرف میرے متعلق سوچتا ہے۔ اس کی ذات کا محور میں ہی تو ہوں ۔ہر دائرہ اوراحتیار مجھ سے شروع ہو کر مجھ پر ختم ہوتا ہے۔ کسی اور بستی کا مسافر ہے وہ مجھے مجھ سے بڑھ کر جانتا ہے۔ مجھے دیکھے بغیر میرے نام کی تسبیح پڑھتا ہے۔ محبت میں سب کچھ بھلا چکا ہے۔ اپنی ذات بھی مٹا چکا ہے۔ میرے ہونے کی فکر کرتا ہے۔ میرا احساس اس کے دل و جان پر حاوی ہے ۔سانسیںاس کی ہیں حکمران میں ہوں۔ مجھے اپنی ملکیت کہتا ہے۔ آواز کا جادو جس کا اسیر بن بیٹھا ہے۔
عروش انوکھی محبت کی کہانی سنا رہی تھی ۔وہ محبت ، پیار ،عشق کیا تھا ؟واقف نہیں تھی عشق کا کونسا درجہ تھا جس میں بہہ نکلی تھی ۔انیس سنتا جارہا تھا ۔وہ سچ تو مانتا تھا لیکن صرف فرضی وہ سچ جس کا انجام شدت غم کہ سوا کچھ نہ تھا۔پھول جیسی بہن کو سمجھاتا خاموش کرواتا مگر وقتی ۔۔۔۔۔تسلیم کرتی پھر بھول جاتی ۔پیاس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی ۔پاگل نہیں تھی گھریلو ماحول نے خود سے نفرت پر مجبور کردیا تھا۔انیس واحد تھا جو عروش کی توجہ کا مرکز تھا ۔جس سے دل کا حال کہتی تھی ۔
انیس نفرت کو محبت میں تبدیل کرسکتا یہ ممکن نہیں تھا۔انیس گھر میں موجود وہ حصہ تھا جو بے روزگاری کے طعنے سنتا ۔مرد ہونے کے باوجود کمزور تھا۔شادی شدہ تھا مگر بیوی بھاگ گئی اپنے عاشق کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔انیس خود بھی تو محبت کا زہر پی رہا تھا ۔اپنی عمر سے دگنی شادی شدہ لڑکی کی یاد میں مجنوں بنا بیٹھا تھا۔دوہری شخصیت کا شکار ہوچکاتھا ۔ذہنی حوالے سے مفلوج تھا ۔گھر میں کھانے کے لالے پڑے ہوں ۔تو محبت کیسے سوجھتی ہے؟ محبت میں مقروض ، نشے کی لت میں پڑھ کر خود کو مارتا ۔وارفنگی کے عالم میں گالی گلوچ کرتا۔
جونہی شراب کا اثر اُترتا محبت کے قصیدے پڑھتا۔محبت کا کوئی گھر نہیں۔ہر انسان کے اندر بستی ہے ۔مختلف رنگوں میں اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ہنستے مسکراتے چہروں کی آئینہ دار،ثبوت میں خاموشی کا سفر طے کرواتی ہے۔۔۔۔۔وہ خاموشی جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔دربدر پرواز کرتی منزل کی تلاش میں ۔۔۔۔۔پل بھر میں آنکھوں کو اشک بار کرتی ۔حسد کی انتہا میں جلتی ۔محبت ہاں وہ محبت عروش تم سن رہی ہو نا۔۔۔۔۔۔جس کی کوئی زبان نہیں ہر زبان میں ہم زبان ہے۔
ماں بستر مرگ پر،باپ معذور ۔۔۔۔۔بڑا بھائی محنت مزدوری کرتا ۔گھر کی دال روٹی پوری ہوتی ۔ورنہ موت تو پہلے ہی گھر کا چکر لگا چکی تھی ۔ماں زندہ تھی ۔زندگی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔مجال تھی جو بیٹی ہنس کر بات کرتی ۔دو میٹھے بول بولتی ۔طنزیہ لہجہ ،نفرت آمیز جملے ماں کو زندہ مارنے کے لیے بہت تھے۔زندگی میں اولاد کے سکھ سے محروم۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
خونی رشتے باعث سکون ہوتے ہیں ۔جب دل بھر چکے ہو باعث سکون کے بجائے باعث لعنت معلوم ہوتے ہیں۔ عروش گھر کے کام کاج کو بوجھ سمجھتی ۔فہیم تم مر کیوں نہیں جاتے ؟جان نہیں چھوڑتا ۔فہیم کی عزت کو عروش نے دو کوڑی کا بنادیا تھا۔احسان مند ہونے کے بجائے فہیم کو جان سے مارنے کے منصوبے بناتی۔عروش ظلم کی ہر حد پار کرچکی تھی ۔
فرار چاہتی تھی جو والدین کو مار کر ملنا تھا۔اسی خواہش کے پیش نظر عروش اور انیس میں خاصا گٹھ جوڑ تھا۔مقصد ایک ہو تو راستے بھی خود بخود مل جاتے ہیں۔انتظار کرتے کرتے تھک چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری حربہ فائدہ مند ثابت ہوا۔انیس خوش باش گھر واپس لوٹا ۔خزانے کی چابی جو ہاتھ لگ گئی تھی ۔اچھلتا ،ہواؤں میں اڑتا،ناچتا گاتا، مستی میں سرشار۔۔۔۔۔۔۔اونچی اور زور دار آواز سے عروش کو بلاتا ۔عروش نے ہمہ تن گوش ہوکر انیس کا وہ ارادہ ۔جس سے آشنا تھی ۔حسرت دل میں پنپ رہی تھی ۔تم سے تم تک کے سفرکی جانب ،غنودگی غضب ناک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔عروش اور انیس کے چہرے پر پر کشش رونق ۔۔۔۔تم سے تم تک کا قلعہ فتح ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟