" منظر اوچوی انتقال کر گئے ہیں "
یہ اطلاع ملی تو دل پر گہری چوٹ پڑی اور ذہن کے بند گنبد میں یہ شعر کسی بازگشت کی طرح گونج اٹھا
تم نہیں ہو مسیحا میرے درد کے میرے زخموں سے نہ چھیڑ خوانی کرو
نہ طبیبوں نے سمجھا میری بات کو میں چلاتا رہا لوگ ہنستے رہے
وہ ایک زندہ کردار تھا اور میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ان خوش نصیب انسانوں میں سے تھا جو زندگی گزارتے نہیں زندگی جیتے ہیں ۔
وہ جو محسن بے اختیار کہتا رہا
کاش ہم کھل کے زندگی کرتے
عمر گزری ہے خود کشی کرتے
اس نے یقینا کھل کے زندگی گزاری ۔۔۔ عسرت زدہ مگر بھرپور
بیماری کا شکار مگر بے جگری سے ڈٹ کر کھڑا ہونے والی زندگی ۔۔۔۔
کہتے ہیں وہ لوگ دوسروں سے زیادہ تن کر کھڑے ہوتے ہیں جو بوجھ اٹھا کر جینا سیکھ لیتے ہیں
اس نے پہاڑ کی طرح بوجھ بن جانے والی زندگی یوں کندھوں پہ اٹھا رکھی تھی جیسے یہ پھولوں کی ٹوکری ہو ۔۔
اسے شاعری سے محبت تھی سو اس بہانے اس نے زندگی کے بوجھ کو ہنس کر اٹھا بھی لیا اور سہار بھی ۔
منیر نیازی کی طرح اس نے کبھی یہ خواہش نہ کی کہ مجھے ایسی زندگی ملے جو اس طرح مشکل نہ ہو –
اس پر اتنی مشکلیں پڑیں کہ آساں ہو گئیں –
وہ تن آسان تو تھا نہیں کہ آسانی پہ تکیہ کر لیتا – ایک کے بعد ایک خون کا دریا وہ ڈوب کے پار کرتا چلا گیا –
میری ان سے ان گنت ملاقاتیں ہوئیں لیکن میں نے انہیں ایک بار بھی دکھی مایوس اور آزردہ خاطر نہیں دیکھا – دکھ اس کی ذات میں یوں رک مل گئے تھے کہ انہیں کبھی بھی زندگی بوجھ معلوم نہ ہوئی – ہم عموما زندگی کے کسی ایک پہلو کو اہمیت دے کر کسی دوسرے پہلو کا یکسر انکار کر دیا کرتے ہیں – اور یوں زندگی کی وہ حقیقتیں یوں نمودار ہوتی ہیں کہ بہت سوں کو خش و خاشاک کی طرح بہا لے جاتی ہیں –
درد سے متنفر لوگوں کو جب خوشی ملتی ہے تو درد روٹھ جاتے ہیں اور انسان یہ کہتا پایا جاتا ہے
دعا کرو میں پھر سے اداس ہو جاؤں
تاریکی کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والوں پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ
اجالوں کا پس منظر بڑا تاریک ہوتا ہے –
اور بعض دفعہ اتنی روشنی ہو جاتی ہے کہ آنکھیں کھل نہیں ہوتیں اور پھر
" اب تو شاید ہی کوئی ہو جو اجالا دیکھے " والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے –
زندگی سے اور موت سے انکار بعض اوقات انسان کو اس موڑ پہ لے آتا ہے کہ
اپنے اپنے مقام پر تم نہیں یا ہم نہیں کی سی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے –
محتاط اور گھٹ گھٹ کر جینے والے بھی بلآخر یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں
کاش ہم کھل کے زندگی کرتے
عمر گزری ہے خود کشی کرتے
میں جب جب منظر اوچوی کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے بہت پہلے یہ جان لیا تھا کہ زندگی میں در آنے والی ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور ان کو صحیح تناظر میں لینے اور تسلیم کرنے میں ہی انسان کا بھلا ہے – کبھی تو میں نے انہیں کبھی مایوس ہوتا نہیں دیکھا –
وہ حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیے جب تک جیے
اور گمان غالب ہے کہ موت کو بھی انہوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس کا خوش دلی سے استقبال کیا ہو گا –
جس نے بھی ان کا آخری دیدار کیا ہے میری اس بات کی تائید کرے گا کہ ان کے چہرے پر موجود نور ان کی کامیابی کا مظہر تھا –
وہ ایک فاتح بن کر جیے اور فاتح بن کر رخصت ہوئے
نشان مرد مومن باتو گویم
چو مرگ آید تبسم برلب اوست
وہ پائے کے شاعر تو تھے انسان بھی کمال کے تھے – میں یہ فیصلہ کبھی کر نہیں پایا کہ انہیں اردو کا بڑا شاعر سمجھوں یا سرائیکی کا – کہ انہوں نے ہر دو زبانوں میں کمال کی شاعری کی – ان کی سرائیکی نظموں کا میں ایک عرصے سے مداح ہوں – ان کی نظم " عورت " میں نے ان سے بارہا سنی اور ہر بار داد دیے بنا رہ نہیں پایا – اس نظم کا ایک مصرع دیکھیے
زینب دی قسم محسن اسلام ہے عورت
ان کی ایک نظم
" ہے سب کجھ رب کول تئیں کول کیا ہے "
میں نے ان کی زبانی بار بار فرمائش کر کر کے سنی –
ان ایک منظوم سفر نامہ خاصے کی چیز ہے –
ان کے کلام میں سادگی ہے روانی ہے گہرائی ہے –
مجھے لکھنے کی ترغیب دینے میرا حوصلہ بڑھانے اور میری رہنمائی کر کے ادبی دنیا میں قد۔ بڑھانے کے سلسلہ میں ان کا سب سے بڑا ہاتھ ہے
میں اپنی کوئی بھی تحریر ان کو سنائے بنا اشاعت کے لیے نہیں بھیجتا تھا – جب بھی انہیں کوئی چیز سنائی خوب خوب داد سمیٹی –
بہت اعلی صفدر حیدری
بہت خوب
یہ الفاظ وہ اپنے مخصوص انداز میں دہراتے اور میرا حوصلہ بڑھاتے تھے –
میری نثر کے وہ خاصے مداحع تھے – خوب شاباشی دیتے –
سئیں کامران مگسی نے مجھے ان کا انٹرویو کرنے کو کہا تو میں کافی دن بعد ان کے گھر گیا ۔ انٹرویو کی خواہش ظاہر کی تو بہت خوش ہوئے – کاش وہ یہ انٹرویو خود چھپا دیکھ سکتے – امکان غالب ہے کہ کسی بھی اخبار کو دیا گیا یہ پہلا اور آخری انٹرویو تھا – اسی دوران انہوں نے مجھے ہاتھ سے کچھ اشعار بھی لکھ کر دیے – ان میں ان کی مایہ ناز غزل بھی تھی
تم نہیں ہو مسیحا میرے درد کے میرے زخموں سے نہ چھیڑ خوانی کرو
یہ ایک غیر روایتی قسم کا انٹرویو تھا – میرے اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے شاعری کب اور کیسے شروع کی ' فرمانے لگے کہ میں دوسری کلاس میں جب بریک کے دوران کسی نے ان کی ایک نئی پنسل چرا لی – اس واقعے نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ شاعر ہی بنا ڈالا –
میڈی ڈڈھ آنے دی پنسل کہیں کر گھدی ہے چوری
کہیں کیتی ہے سینہ زوری
انہیں اس نظم پر صرف داد نہیں ملی رقم بھی – کوئی پانچ چھ روپے کی خرچی انہیں اساتدہ اور ساتھی طلبا سے ملی – پیسے دینے والوں میں وہ لڑکا بھی شامل تھا جس نے ان کی پینسل چرا لی تھی –
یہ ان کے فنی سفر کا آغاز تھا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا –
ان کا فنی ارتقائی سفر ان کی زندگی کے آخری دن تک جاری رہا –
اگر ان کا سارا کلام جمع کر لیا جائے تو کم و بیش دس کتابوں کا مواد بنے گا – افسوس اتنے بڑے شاعر کا صرف ایک مجموعہ ان کی زندگی میں شائع ہوا اور وہ بھی ان کی مذہبی شاعری پر مشتمل تھا – ان کی وجہ شہرت ان کی مذہبی شاعری تھی ' نوحہ خوانی تھی – انہوں نے بلابالغہ ہزاروں نوحے لکھے اور امر ہو گئے –
" سفینہ اہل بیت "
ان کی انہی نوحوں کا مجموعہ ہے جو گاہے گاہے انہوں نے لکھے-
اگر ان کے لکھے ہوئے تمام نوحے جمع کیے جائیں تو ایسے کئی مجموعے وجود میں آ جائیں گے –
لیکن یہ کام کرے گا کون – ہم لوگ تو اس عہد میں زندہ ہے جس میں کتاب اور قاری اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہے ہیں – ہر دو کی جان لبوں تک آ گئی ہے –
منظر صاحب کو جب میں نے اپنی پہلی کتاب
" شہر خواب " کے بارے میں بتایا کہ عنقریب آپ کے ہاتھوں میں ہو گی تو بے وفا د مسرور ہوئے – اے کاش وہ اسے دیکھ پاتے –
سچ ہے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
آج وہ اس دیس کا چکے ہیں کہ جہاں سے آج تک کوئی پلٹ کر نہیں آیا – جانے اس دیس میں ایسی کیا کشش ہے کہ کسی ایک فرد نے بھی کبھی واپسی کی کوشش نہیں کی –
آج یادیں ہیں ان کے ساتھ گزرے وقت کی جو تصور کے کینوس پر ابھرتی ڈوبتی ہیں – ہم ان میں اپنے ماضی کو کھوجتے ہوئے کبھی دکھی ہوتے ہیں تو کبھی ہمارے ہونٹوں کو ایک آسودہ سی ہنسی چھو جاتی ہے –
ان کے چاہنے والے آج سوائے اس اور کر ہی کیا سکتے ہیں کہ ان کی مغفرت کے لیے دست بدعا ہوں –
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا