تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
لغات :
پاس: عالمِ تصور میں یا تمثیلی طور پر سامنے
گویا : گویندہ، سخن کنندہ۔ لیکن شعر میں بطورِ حرفِ تشبیہ استعمال ہوا ہے۔ معنیٰ : مانند، مثل، ہوبہو، عین عین، بعینہٖ وغیرہ
دوسرا : غیر، علاوہ
نہیں ہوتا : مادّی اعتبار سے عدمِ حضور یا تصوراتی سطح پہ انتفاءِ دخولِ غیر
شعر کا مطلب :
جب ظاہراً میرے قریں کوئی نہیں ہوتا، تب مجھ پر ایک ایسا عالمِ تصوّر طاری ہوتا ہے جس میں حسّ ادراک کی تمام تر لہریں تیری ہی جانب دوڑتی ہیں۔ یعنی تنہائی میں بھی تنہائی نہیں ہوتی بلکہ تُم میرے تصوّر میں آ کر مجھ سے محوِ دید و شنید ہوتے ہو۔ اور یہ ایسی کیفیت ہے کہ اس سے صرف میں لذّت یاب ہوتا ہوں، جبکہ باقیوں کو اس کا ادراک نہیں۔ یعنی تمھارے علاوہ دیگر کو اس تصوراتی کائنات میں کوئی دَخَل نہیں۔ نظیریؔ کے بقول :
رفتی و آمدی و کسے را خبر نشد
شارحِ مومنؔ مولوی ضیاءؔ لکھتے ہیں :
”جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو میرا تصور تم کو لا کر میرے پیشِ نظر کر دیتا ہے“۔
(شرح دیوانِ مومنؔ، مولوی ضیاء احمد ضیاءؔ، صفحہ 60)
بلاشبہ جب عالمِ تصور میں ہمہ جِہت محبوب کے جلوے مختلف کیفیات و تمثیلات میں جلوہ آرا ہوتے ہیں تو وہ بظاہر تنہائی انجمن میں متشکل ہو جاتی ہے۔ ایسی تنہائی پہ ہزار محفلیں تصدّق، ایسی خلوت کے ہزار خلوتیں نثار۔ سلیم کوثرؔ نے سچ کہا ہے :
اسے کہتے ہیں تنہائی کی نعمت
حصارِ دوستاں ہے اور میں ہوں
(یہ چراغ ہے تو جلا رہے، صفحہ ٥٩)
۔۔۔
اس شعر (تم مرے پاس…. الخ) سے مومنؔ کی ژرف نگاہی، بالغ نظری، نکتہ سنجی اور شعر کے عین مطابقتِ فطرت ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ مولوی ضیاء احمد ضیاءؔ ”کلامِ مؤمن کا نفسیاتی مطالعہ“ کے تحت لکھتے ہیں کہ :
”سنا ہے کوئی درویش تنہا عالمِ استغراق میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق سے ایک مردِ فضول بھی ادھر آ نکلے اور دخل در معقولات کا تو مرض تھا ہی، پوچھ بیٹھے : شاہ صاحب! آپ کا اکیلے بیٹھے بیٹھے جی نہیں گھبراتا؟ جواب ملا : میں اکیلا کب تھا؟ ہاں! تم آئے تو اکیلا ہو گیا ہوں“۔
(شرح دیوانِ مومنؔ، مولوی ضیاء احمد ضیاءؔ، صفحہ 87)
۔۔۔
بہ روایتِ مولانا حالیؔ مرزا غالبؔ نے اس شعر کی تعریف میں کہا تھا : کاش مومنؔ میرا سارا دیوان لے لیتا اور صرف یہ شعر مجھے دے دیتا۔
(یادگارِ غالبؔ، مولانا الطاف حسین حالیؔ، صفحہ 73)
غالبؔ کی تحسینِ شعر و سخن مومنؔ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ مرزا کی عادت تھی کہ وہ پسندیدہ شعر پہ زندہ دلی اور فراخ قلبی سے دادِ تحسین سے شاعر کو نوازتے تھے۔ حالیؔ کا بیان ہے کہ اگر ان کے دل میں کوئی شعر چُبھ جاتا تو اس کی ایسی تعریف کرتے کہ مبالغہ معلوم ہوتا۔ درحقیقت ان کے پیشِ نظر کسی کی بیجا خوشی یا مطلب نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کا ذوقِ سخن انھیں بے اختیار کر دیتا تھا۔ شیخ ذوقؔ سے متعلق مشہور ہے کہ غالبؔ کو ان سے چشمک تھی، ایک روز ان کا یہ شعر سنا تو بار بار پڑھواتے رہے اور دیر تک سَر دھنتے رہے :
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چَین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یونہی سوداؔ کا یہ شعر بھی مرزا کو بیحد پسند تھا :
دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کا بازار
لیکن کوئی خواہاں نہیں واں جنسِ گراں کا
ایک صحبت میں داغؔ کے اس شعر پر دیر تک وَجد کرتے رہے :
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
الغرض! مومنؔ کے مذکورہ بالا شعر سے متعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ مرزا کا تمام دیوان اس کے آگے کَم ہے، کمتر ہے۔ مولانا حالیؔ نے اس شعر سے متعلق تحسینِ غالبؔ کا جو حوالہ دیا ہے، ڈاکٹر سید عبد اللہ کے نزدیک انصاف کی نظر اور ذوقی دیانت داری کی رُو سے یہ محض بیجا محبت کا مظاہرہ ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک بھی یہ شعر مومنؔ کے تیز ترین نشتروں میں سے ضرور ہے مگر مرزا کا کوئی عام سا شعر بھی اس کے جواب کے طور پر دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”مومنؔ کا جواب غالبؔ ہے اور غالبؔ کا مؤمنؔ“۔ اس جملے کے پہلے جزو سے اتفاق ہے البتہ دوسرا فقرہ مبالغہ ہے۔
مومنؔ کے ناقدین میں سے بعض نے انھیں میرؔ سے بڑھا دیا، بعض نے غالبؔ پر فوقیت دی اور بعض نے تو انھیں ایڑی پر سے وارنے میں اپنی سخن فہمی کی معراج سمجھی۔ بہرحال! مومنؔ کے مقام سے انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔ بڑوں بڑوں نے مومنؔ کے فَن کا اعتراف کیا ہے۔
غالبؔ نے مؤمنؔ سے متعلق کہا تھا کہ مؤمنؔ کی طبیعت معنیٰ آفریں ہے۔ (لیکن اس سے کہیں زیادہ مؤمنؔ نازک خیالی کے شاعر ہیں۔) مولوی عبد الغفور نساخؔ کے نزدیک ایسی مزے کی طبیعت کا کوئی شاعر ریختہ گویوں میں نہیں گذرا۔ علامہ نیازؔ فتح پوری نے بہ استثنائے میرؔ تمام اردو شعراء پر مومنؔ کو فوقیت دی ہے۔ مگر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے طرفہ ستم کیا کہ داخلیت کے عناصر کی تلاش میں میرؔ ہی کو کمتر ثابت کر دیا اور موازنہ کے لیے ایسی مثنویوں کا انتخاب کیا جن میں کسی بھی طرح کا تقابل نہیں بنتا۔
بہرحال! میرا مقصد ان اقوال کو نقل کرنے سے دل کے جلے پھپھولے پھوڑنا نہیں بلکہ یہ کہ مومنؔ کے مقام و مرتبہ کے تجزیے میں ناقدین کی آراء کا اوسط معلوم کیا جائے۔ بلاشبہ وہ نہ صرف بڑے شاعر ہیں بلکہ بعض مرتبہ غالبؔ جیسے ہمہ گیر شاعر پر سبقت لے جاتے ہیں اور اس کا اقرار حالیؔ اپنی زبان سے کر چکے ہیں۔
۔۔۔
ان تمام اقوال یا بزعمِ شخصے مبالغہ آرائیوں سے قطعِ نظر مولوی ضیاء احمد ضیاءؔ کا یہ اقتباس قرینِ انصاف اور عین مطابق قرار دیا جا سکتا ہے :
اگر کوئی شخص تغزل میں نظیریؔ کو، نازک خیالی میں عرفیؔ کو اور وقوعہ گوئی میں وحشیؔ کو دیکھنا چاہے وہ مومنؔ کی شاعری کو دیکھ لے، جن کی شاعری بیک وقت تینوں کے طرز کی جامع ہے“۔
(شرح دیوانِ مومنؔ، مولوی ضیاء احمد ضیاءؔ، صفحہ 85)