تم کتنے جونیئر روکو گے؟
ذوالفقار علی بھٹو (جونئیر ) ذوالفقار علی بھٹو شہید کے واحد پوتے، بے نظیر بھٹو شہید کے واحد بھتیجے، غنوٰی بھٹو کی واحد اولاد اور مرتضی بھٹو مرحوم و غنوٰی بھٹو کے واحد بیٹے ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔
ان کا رشتہ اتنے معروف لوگوں کے ساتھ ہے کہ ان کی جانب سے ہٹ کر، عجیب ، مختلف اور مخصوص بات کا سامنے آنا بہت زیادہ لوگوں کے لیے اچنبھا بن گیا، بے تحاشا لوگوں کے لیے قابل تاسف اور کچھ لوگوں کے لیے قابل توصیف۔ ہٹ کر، عجیب، مختلف اور مخصوص دراصل انگریزی زبان کے ایک لفظ Queer کے اردو متبادلات ہیں۔ میں جب نویں دسویں میں پڑھتا تھا تو ہمیں انگریزی پڑھانے والے منفرد استاد جناب گوہر علی مرحوم نے ہمیں اس لفظ کے یہی معانی بتائے تھے، چنانچہ ہم ہر عجیب و غریب چیز کے لیے "It is a queer thing " ہی بولا کرتے تھے۔ کالج میں گئے، معلومات زیادہ ہوئیں تو پتہ چلا کہ یہ لفظ ہم جنس پرست مردوں کے فاعل کے لیے بولا جاتا ہے اور مفعول کے لیے لفظ Queen مستعمل ہے۔ انییسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں Queer سے منسوب بہت سے فنون سامنے آنے لگے جیسے Queer literature یا Queer cinema وغیرہ وغیرہ۔ فن کی Queer اصناف درحقیقت مختلف الجنسی اعمال کے رد کا اظہار ہیں اور ایک حد تک نسائیت پرستی کے حق میں۔
جونہی ہمارے پیارے چھوٹے بھٹو کی اس ضمن میں وڈیو سامنے آئی جس میں انہوں نے مردانہ اوصاف کو تشدد اور بالا دستی سے تعبیر کرتے ہوئے نسائیت و نزاکت کو مردانگی کا پیمانہ ٹھہرایا تو بہت سے لوگ ان کے اس اعتراف پر رطب اللسان ہونے لگے۔ ابتدا ہمارے دوست ندیم سعید نے ایک معاصر سائٹ پر مضمون بمعہ متعلقہ وڈیو کے اجراء سے کی تھی۔ آخری بار تک اس کے توصیف کنندگان میں محترمہ نورالہدٰی شاہ اور ہمارے دوست حسن مجتبیٰ کے نام آتے ہیں۔
اس ضمن میں میں نے سوشل میڈیا پر ایک شذرہ لکھا تھا جو یوں تھا،" نہ دکھ ہوا نہ حیرت۔ نہ اس سے بہل پایا کہ " تعلیمی پراجیکٹ" ہے، نہ توجیہات اور جواز مطمئن کرتے ہیں، نہ ہی مطمئن یا بے چین ہونا ضروری ہے البتہ ایک سوال بہت شدت سے ابھرتا ہے کہ اس نوجوان کے عمل کے باجواز شاہدین کا اگر اپنا داڑھی والا بیٹا، کوئی ایسا آزاد وتیرہ اپنا لے جو غیر عمومی ہو تو وہ اس " شاک" سے کیسے جوجھیں گے۔
ذوالفقار جونیئر چونکہ بڑے بھٹو کا پوتا، مرتضی کا بیٹا، بے نظیر کا بھتیجا اور غنوی کا بچہ ہے، سان فرانسسکو میں رہنا برداشت کر سکتا ہے، اس لیے کچھ کے لیے ٹھیک ہے اور بہت سوں کے لیے تکلیف دہ، ہیں ناں جی؟"
مردانہ بالا دستی یا " میل ڈومینیٹڈ سوسائٹی " صرف برصغیر اور عرب ملکوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی زد میں سارے ملک آتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یورپی ممالک اور امریکہ و کینیڈا میں LGBT کے لیے حکومتوں کی جانب سے کہیں کم اور کہیں خاصے زیادہ حقوق دیے گئے ہیں۔ لوگوں میں ایسے مختلف لوگوں کے لیے برداشت کا عنصر زیادہ ہے۔ LGBT چار الفاظ کا مخفف ہے یعنی لیسبین، گے، بائی سیکسول اور ٹرانس جینڈر۔ اگر میں مستعمل اردو میں ان کے متبادل استعمال کروں گا تو لبرلزم کا بے محابا پرچار کرنے والے اپنے دوستوں اور اغیار دونوں کے لیے "گردن زدنی" قرار دیا جاؤں گا۔ گردن زدنی کا مطلب صرف مار دینا نہیں ہوتا بلکہ طعنوں مہنوں سے کسی کا ناطقہ تنگ کر دینا بھی گردن زدنی ہی کہلاتا ہے۔ پر کیا کریں اردو میں ان چار لفظوں کے لیے بالترتیب جفتی باز، لوطی، کچا پکا چلنے والا اور زنخا ہی مستعمل ہیں۔ اب ان کے لیے اگر کوئی بھلے بھلے الفاظ وضع کر لے تو اس میں نہ کوئی مضائقہ ہوگا اور نہ کم از کم مجھے کوئی اعتراض لیکن آپ ایک پورے سماج میں رہتے ہیں وہاں "کویر" بن کر نہیں رہا جا سکتا اور نہ رہنا چاہیے، یاد رہے میں نے یہاں کویر انہیں معنوں میں برتا ہے جو اصل میں اس انگریزی لفظ کے ہیں اور جو ہمیں ماسٹر گوہر صاحب نے ذہن نشین کرائے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول علی پور ضلع مظفر گڑھ لفظ Queer کا ترجمہ بتاتے ہوئے نہ ہمارے باریش دیندار ماسٹر صاحب جھینپے تھے اور نہ ہی ہم سنتے ہوئے جھجھکے یا لجائے تھے۔
میرا سوال وہیں ہے کہ جتنے لوگ جونیئر کے اس عمل کی تعریف کر رہے ہیں اگر ان کی اپنی نرینہ اولاد اس روش پر چل نکے تو کیا وہ
تم کتنے جونیئر روکو گے
ہر گھر سے جونیئر نکلے گا
کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے بیٹے کو خواتین کے کپڑے پہنے، مٹک مٹک کر بازار میں چلتے ہوئے دیکھ کر نازاں ہونگے؟ اگر ہونگے تو بہت ہی کویر یعنی عجیب ہونگے یا بہت ہی ذیشان۔
ہماری محترم نورالہدٰی شاہ صاحبہ نے تو مثال بھی دی کہ صوفی شاعر کنجری بن کر یار منانے کی بات کرتے تھے۔ جی ہاں کرتے تھے اور ان کا یار اللہ تھا جس کے سامنے بہت ہی حقیر بننے کے لیے وہ خود کو کنجری ( عورت بلکہ گرے ہوئے پیشے سے وابستہ عورت) سے مماثل کرتے تھے۔ محترمہ آپ اور ان سبھی صوفی شعراء سے معذرت کے ساتھ وہ عورت کی تعریف نہیں بلکہ تحقیر کر رہے ہوتے تھے۔
عورت کی نسوانیت اور نزاکت کی تعریف کرنا انتہائی جائز ہے کیونکہ یہ اس کے اوصاف ہیں اور ان اوصاف کی کچھ نہ کچھ رمق مرد میں ہونا ویسے ہی ہے جیسے میٹھے کو مزید میٹھا کیے جانے کی خاطر اس میں نمک کے ذرات ملا دیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں سرائیکی زبان کے معروف شاعر رفعت عباس کا یہ شعر باکمال ہے کہ:
مرد اندر وی نازکی ہووے تریمت ہووے رفعت
وت کتھائیں جیونڑ دے اے رستے سوکھے تھیندن
( رفعت اگر مرد میں بھی نزاکت اور نسائیت مضمر ہوں تب کہیں جا کر زندگی کے راستے سہل ہوتے ہیں )۔
مگر مرد یکسر عورت کا دھارن کرلے اور عورت مرد بن کر رہ جائے تو راستے سہل نہیں بلکہ دشوار تر ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر سماج کے اپنے معمول ہوتے ہیں اور جیسا سماج ہے اس میں مرد مرد ہیں اور عورتیں عورتیں۔ اس سے ہٹ کر جو بھی چلے گا وہ عجیب، ہٹ کر، مختلف اور مخصوص ہوگا، ماسٹر گوہر صاحب کے مطابق نہیں بلکہ آج کے مطابق خالصتا" Queer۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔
اس قسم کی تحریکیں مرد کی بالا دستی کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ہیں۔ تشدد، بالا دستی، ہاتھ سخت رکھے جانے وغیرہ کو روکنے کے لیے مرد کی نفسیات تبدیل کرنا ہوگی نہ کہ مرد کو عورت میں بدلنا۔ ایسا ناممکن ہے جی ہاں ناممکن۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو جونیر نے خود بتایا ہے کہ مردانہ متشدد طبیعت کے سبب ان کے دادا کو دار چڑھایا گیا، ان کے باپ کو قتل کیا گیا، ان کے چچا کو زہر دیا گیا، ان کی پھوپھی کو مارڈالا گیا، ظاہر ہے وہ اس تحریک میں پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ کب تک وہ اس سے وابستہ رہیں گے ، اگر ان کے جین میں اگر کوئی بنیادی تبدیلی نہ آ چکی ہو تو زیادہ دیر تک نہیںرہیں گے البتہ اگر مسلسل مرد (باپ) کی غیر موجودگی اور مسلسل عورت (ماں) کی سرپرستی سے ان کی سوچ میں نسائیت جا گزیں ہو چکی ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر ایسا لگتا نہیں کیونکہ انہوں نے داڑھی بھی بڑھائی ہوئی ہے۔ مردانہ کپڑوں میں ملبوس ہیں اجرک بھی مردوں ہی کی طرح اوڑھی ہوئی ہے۔
میرے خیال میں انہوں نے ایسی وڈیو جاری کرکے مردانہ سماج کے چہرے پر کوئی طمانچہ نہیں مارا بلکہ اپنا راستہ محدود کر لیا ہے۔ آئیے ان کے لیے مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں سکون دے۔
رہے ان کے اس عمل کے لیے رطب اللسان ہمارے دوست تو ان کو موقع چاہیے ہوتا ہے کہ بھڑاس نکالیں۔ ایک زمانہ تھا جب ایسے سارے لوگ انقلاب لانے کے لیے مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہوتے تھے۔ نہ وہ سرگرمیاں رہیں اور نہ وہ عمریں رہیں۔ ان عمروں میں تو عجیب بات کو ہی قابل تعریف بات کہہ کر لوگوں میں ممتاز رہا جا سکتا ہے۔ شکر ہے کہ ممتاز عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے صفت بھی ہے اور نام بھی اس لیے Queer نہیں ہوگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“