(Last Updated On: )
پہلا ٹکڑا:
گاؤں کا منظر ہے۔ ایک کچی سڑک جس پر دور سے ایک ٹریکٹر دھول اڑاتا چلا آرہا ہے۔
رستے کے اطراف گندم کے کھیت ہیں جن میں گندم کے خوشے کٹائی کے بعد گٹھوں کی صورت میں جمع ہوئے پڑے ہیں۔
ایک طرف کے کھیت میں تھریشر لگی ہوئی ہے جس میں سے نکلنے والی بھُس آلود دھول نے فضا کو بوجھل کر رکھا ہے۔چند مزدور اس تھریشر پر کام کر رہے ہیں۔
سیاہ بادل نیلے گگن پر دھیرے دھیرے قابض ہوتے جارہے ہیں۔
تھریشر کے قریب ہی سفید بنیان اور نیلی دھوتی میں ملبوس ایک ڈھلتی عمر کا شخص ٹھہرا ہے جس کی نگاہیں بار بار فلک کی طرف اٹھتی ہیں۔
وہ ہر تین سے چار منٹ بعد ایک جملہ ضرور دہراتا ہے:
“جلدی ہاتھ چلاؤ، اس سے پہلے کہ مینہ جھڑنے لگے اور سال کی محنت اکارت چلی جائے۔”
دوسرا ٹکڑا:
گھر کے دالان میں ایک ترتیب میں تین چارپائیاں رکھی ہیں جن میں سے ایک پر وہی سفید بنیان اور نیلی دھوتی والا بوڑھا بیٹھا ہے۔اس بار البتہ اس نے کرتا زیب تن کر رکھا ہے۔ بوڑھے کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے ہیں۔ چارپائیوں کے پرلی سمت ایک پنکھا جس کا چھجا تک نہیں ہے، اپنی ہوا چارپائیوں کی طرف پھینک رہا ہے۔ بوڑھے کے سامنے چارپائی کی پائنتی والی سمت میں تھوڑے فاصلے پر ایک تندور لگا ہوا ہے جس پر ایک ادھیڑ عمر مگر پرکشش عورت روٹیاں لگا رہی ہے۔ وقفے وقفے سے اس کی کھانسی ماحول کو اور بھی سوگوار بنا دیتی ہے۔
“نیک بخت۔۔!! اب تو ہی بتا ہم کیا کریں۔۔! خلیل پتر کی تعلیم اور شہر میں رہائش کے سلسلے میں جو پیسہ سردار سے تین سال پہلے قرض لیا تھا اس کا سود بھی ابھی تک نہیں اترا۔ سردار نے تین سال کی مہلت دی تھی جو اس گندم کی کٹائی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی ہے۔
اب اس نے ہماری روزی روٹی کے واحد سہارے ہماری اس چند کلے زمین پر قبضہ کر لینا ہے۔
ادھر زینب پتری کے سر میں بھی برف اتر رہی ہے۔۔ہماری اکلوتی دھی رانی ہے۔۔ اس کے لیے جہیز بھی تو اکٹھا کرنا ہے۔۔خدا غارت کرے جہیز کے بنا آج کوئی بچیوں کو اپنانے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔۔پہلے بھی تو ہر جگہ سے اسی لیے انکار ہوا ہے۔ تم تو جانتی ہی ہو اگر ایک انچ کی بھی کسر رہ جائے تو اگلے ٹھکرا کے چل دیتے ہیں۔”
بوڑھے نے رقت آمیز لہجے میں شریک حیات کے سامنے مدعا رکھا۔
عورت کے منہ سے کوئی لفظ برآمد نہ ہوا۔ وہ خاموشی سے اپنی جگہ سے اٹھی، دو روٹیاں کپڑے میں لپیٹ کر چنگیر میں رکھیں، دیگچی میں سے سالن نکال کر تھالی میں ڈالا اور چنگیر کے اوپر ہی تھالی رکھ چنگیر بوڑھے کے سامنے چارپائی پر دھر دی۔
“یہ باتیں آپ کو پہلے سوچنی چاہیے تھیں۔ایک باپ کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہے۔اگر آپ نے پہلے زینی کے لیے کچھ بنا لیا ہوتا تو آج ہماری بیٹی اپنے گھر کی ہوچکی ہوتی۔”
اس نے بوڑھے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے زہر خند لہجے میں کہا اور جگ اٹھا کر نلکے کی سمت چل دی۔
تیسرا ٹکڑا:
چوپال لگی ہوئی ہے۔ چہار سمت بڑی بڑی چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں جن پر کلف لگے کڑک اونچے شملے اور سفید کاٹن کا لباس زیب تن کیے معززین نظر آرہے ہیں۔
ایک چارپائی پر گاؤں کا چودھری تشریف فرما ہے جبکہ اس کے عین سامنے، زمین پر وہی بوڑھا بیٹھا ہوا ہے۔
“دیکھ کرمو۔۔! تین سال میں تجھ سے سود تو اترا نہیں، اصل رقم کیا ادا کرے گا۔ پھر بھی میں نے تیری باتیں سن کے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سال باوجود اس کے کہ مہلت ختم ہوچکی ہے، تیری زمین ضبط نہیں کروں گا۔
بھئی دھِیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں، تو اس سال سکون سے اس کا جہیز بنا اور شادی کر۔ اور اگر اس سلسلے میں مزید روپوں کہ ضرورت پڑے تو بلا جھجک آجانا۔۔۔جب یہ قرض اتر جائے تو میرا قرض بھی بعد ادا کر دینا۔”
سردار نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ اسے دبایا۔
بوڑھے نے تر آنکھوں سے اوپر دیکھا اور جذبات میں مغلوب ہوکر بے اختیار سردار کا ہاتھ چھوم لیا۔
کہانی کا ایک درد بھرا ٹکڑا:
کرمو سردار کے ڈیرے سے پلٹا تو اس کے اندر خوشی کا ایک بے کراں سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
اس لمحے میں وہ خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ گھر کی سمت پیدل نہ جارہا ہو بلکہ ہوائیں اسے گود میں اٹھا کے چل رہی ہوں۔
جیسے ہی اس نے گھر کے بیرونی دروازے سے اندر قدم رکھے، اس کی بیوی اسے دیکھتے ہی سینے پر دو ہتڑ مار کر چلائی:
“ہائے نی زینی۔۔!! اس عمر میں ہمیں رسوا کرگئی۔ میں ذرا دیر کو باہر کیا گئی، تو نے تو حدیں ہی پار کر ڈالیں۔
ہئے ہئے ہم تو کسی کو منھ دکھانے جوگے نہ رہے۔ایسی بھی کیا پڑ گئی تھی تجھے۔۔! اب تو کہیں جا کر اچھے دن آنے والے تھے۔۔!!”
عورت نے چار اتار کر سر پر باندھی اور بین کرنا شروع کر دیا۔
کرمو کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
پانچ منٹ تک تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔
اور جب اس کے دماغ نے کام کرنا شروع کیا، وہ سپاٹ چہرہ لیے وہیں سے پلٹا، آنسو بہاتا اپنے کھیتوں میں پہنچا، بھوسے کے ڈھیر کو دیا سلائی دکھائی اور آسمان کی طرف دیکھ کر خود کو اس آگ میں جھونک دیا۔
چند ہی منٹوں میں چمڑی اور گوشت کے جلنے کی بو فضا میں پھیلنے لگی تھی۔
کہانی سے جڑا ایک اور ٹکڑا:
کرمو کو گزرے ہوئے تین دن ہوچکے ہیں۔۔شام کا وقت ہے۔۔افق پر گلابی رنگ پھیل چکا ہے۔
کرمو کی بیوہ آج تین بعد نہائی ہے اور اب بالوں میں کنگھا کر رہی ہے۔
اتنے میں گھر کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ خاتون کنگھا رکھ کے چادر سر پہ لیتی ہے اور جا کر دروازہ کھولتی ہے۔ سامنے گاؤں کا سردار کھڑا ہوتا ہے۔
عورت کے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ در آتی ہے۔
وہ سامنے سے ہٹتی ہے اور اسے اندر آنے دیتی ہے۔
جیسے ہی دونوں صحن میں داخل ہوتے ہیں، ایک جواں سالہ لڑکی جس کے سر کے بالوں میں ہلکی سی سفیدی جھلک رہی ہے اور آنکھیں سوج کر لال ہوچکی ہیں، صحن میں رکھی چارپائی پر سے یکلخت اٹھتی ہے اور منھ پر ہاتھ رکھ کر تقریباً دوڑتے ہوئے کمرے میں جا گھُستی ہے اور پوری قوت سے دروازہ بند کر دیتی ہے۔