"تجھے قسم لگے" کے یرغمالی
۔
بچپن کے کھیل نرالے ہوتے ہی ہیں۔ بچپن کے حربے بھی مزے کے ہوتے تھے۔ دوستی دشمنی کے حربے۔ کھیل میں شامل کرنے نکلوانے کے حربے۔ ایسے ہی حربوں میں ایک حربہ کسی دوسرے سے کام نکلوانے کا ہوتا تھا۔ اعلیٰ قسم کے مافیائی کردار جب کسی سے کوئی ایسا کام نکلوانا چاہتے تھے جو وہ نہ کرنا چاہے۔ تو اسکو کہا جاتا تھا "تینوں تیری ماں دی قسم لگے" (تجھے تیری ماں کی قسم) اگر تم یہ کام نہ کرو تو۔ اور وہ بیچارہ اپنی ماں کی "دی ہوئی قسم" کا یرغمالی ہوجاتا۔ اور گھاس کاٹنے سے لے کر جوتے اٹھانے، کسی کے گھر سے اپنا فٹبال واپس لانے یا بجلی کے کھمبے سے لٹک کر پتنگ چھڑانے جیسے جان جوکھوں والے کام کر مرنے پر آمادہ ہوجاتا۔
اس حربے کا شکار اکثر کمزور دل و ذہن ہوتے تھے۔ وہیں اسی میدان میں دیکھا کہ جب وہی حربہ کسی مافیائی نے دوسرے مافیائی پر آزمانے کی کوشش کی تو آگے سے جواب ملا، جا پرے مر، میری ماں کی قسم تم کون ہو دینے والے۔ نہیں لیتا میں یہ قسم۔ دفع دور ہو۔ تب میرے جیسے کم ذہنوں کو بھی حوصلہ ملتا کہ ایسے حربوں سے بچا بھی جا سکتا ہے۔
بڑے ہوگئے اور سوچا کہ وہ کھیل پیچھے رہ گیا۔ مگر شکل بدل کر مافیائی اور کھیل ہمارا پیچھا کرتے رہے۔ اسکی ایک مثال اس وقت ہمارے گلی کوچوں میں مذہبی شعار کی توہین کے نام پر مولوی کے بھیس میں مافیائی مخلوق کی قسمیں ہیں جو وہ کم ذہن و کمزور دلوں پر آزماتے رہتے ہیں اور اپنی مرضی کے نتائج لیتے لیتے آج منبر سے پارلیمنٹ پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔
کھیل بالکل وہی ہے۔ ماں کی قسم کو نئی شکل دے دی ہے۔ توہین رسالت، توہین داڑھی، توہین شعائر دین وغیرہ اس قسم کی نئی مثالیں ہیں۔ جیسے بچپن کے کھیل میں ماں کی قسم ماں نے نہیں دی ہوتی، بلکہ کوئی مافیائی اپنی مرضی سے اپنے الفاظ کو ماں کی قسم میں ڈھال کر دوسروں کو یرغمال بنا لیتا تھا، بالکل اسی طرح توہین رسالت، توہین شعائر کی کوئی حقیقی شکل کی بجائے مولوی مافیائی اپنی تفہیم دین (اور زیادہ تر اپنے ایجنڈے ) کو توہین رسالت و شعائر میں ڈھال کر لوگوں کو قسم دے ڈالتا ہے کہ اب وہ سب اس قسم کا پالن کریں ورنہ سب کو توہین رسالت کا گناہ ملے گا۔ بےچارے عوام جن کی مذہبی تعلیم انہی قرانی قاعدوں تک محدود ہوتی ہے جو اسی مولوی کے باپ نے انکو بچپن میں پڑھایا ہوتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ کچھ مناظری فتووں تک محدود ہوتی ہے جو مسجد سے وقتاً فوقتاً دوسرے فرقے پر داغے جاتے ہیں۔ تو وہ لوگ اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ جو یہ مولوی کہہ رہا ہے اس کی تابعداری کریں۔ بہت کم ہیں جو اس حقیقت کا ادراک کریں کہ جو یہ مولوی کہہ رہا ہے اس کے پیچھے اسکا ایجنڈہ ہے، جس کو یہ "ماں کی قسم" میں لپیٹ کر بیچ رہا ہے، اور قسم بھی وہ جو ماں نے نہیں ،اسی مولوی کی اپنی گھڑی ہوئی ہے۔
حال ہی میں ہم نے عامر لیاقت اور دیگر مولوی حضرات کی واضح بلیک میلنگ ٹی وی پر ملاحظہ کی کہ کس طرح غیر موضوع کو موضوع بنایا گیا۔ مختلف مکاتب فکر کے ایسے عقائد کو جو پروگرام کا حصہ نہیں تھے، پروگرام میں لایا گیا، اور پھر اسکی بنیاد پر عامر لیاقت و دیگر نے اپنے غصے و نفرت کو دین کی لڑائی کا نام دے دیا۔ لیجیے اب یہ "ماں کی قسم" بن گئی۔ کم ذہن و کم علم لوگ اب مجبور ہو جائیں گے کہ "دین کی اس لڑائی" میں "حق" کا ساتھ دیں۔
ایسے ہی توہین رسالت کا استعمال کرتے ہوئے خادم رضوی جیسے لوگ بھی عام لوگوں کی یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ توہین رسالت پر پوری قوم کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ جیسے بچوں کے جذبات ماں کی محبت کے بارے میں ہوتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کسی کی دی ہوئی "ماں کی قسم" پر بھی کام کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کہیں "ماں کی محبت" میں کچھ مافیائی غنڈے ہم سے اپنی مرضی و ایجنڈے پر عمل تو نہیں کروا رہے۔ کیا "ماں کی قسم" کا سن کر ہم کسی کے گھر میں پتھر مار دیں تو ہماری ماں حقیقت میں خوش ہوگی یا ناراض؟
سوچیے۔ اگر سوچ کی بجائے غصہ آئے تو "تینوں تیری ماں دی قسم" کمنٹ نہ کرنا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“