تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
سائنس دان جب غیر شمسی (یعنی ہمارے نظامِ شمسی سے باہر) سیاروں کی کھوج کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف سیاروں کی تعداد دریافت کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سیارے پر زندگی کے وجود کے آثار تلاش کیے جائیں- سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں پر زندگی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جو کسی ستارے کے قابلِ سکونت حصے یا habitable zone میں ہوں- ستارے کے گرد قابلِ سکونت حصہ وہ ہوتا ہے جس میں درجہِ حرارت اتنا ہوتا ہے کہ اس میں پانی مائع حالت میں رہ سکے- سورج کے قریب زمین اور مریخ قابلِ سکونت حصے میں ہیں- زہرہ سورج کے قریب ہے اس لیے وہاں پانی صرف بھاپ کی صورت میں ہی رہ پاتا ہے- اس کے برعکس مشتری، زحل، نیپچون اور باقی سیارچے بہت سرد ہیں جن میں برف تو موجود ہے لیکن مائع پانی موجود نہیں ہے- (مشتری کے چاند پر مائع پانی موجود ہے)-
سائنس دانوں نے ہمارے نظامِ شمسی کے قریب ایک گلوبیولر کلسٹر Omega Centauri کے مشاہدے سے یہ اندازہ لگایا ہے کہ سا میں زندگی کا امکان بہت کم ہے- اگرچہ اس کلسٹر میں بہت سے ستارے ہیں اور ان میں سے اکثر ستارے سرخ بونے ستارے یا red dwarf stars ہیں جو اربوں کھربوں سال تک روشن رہتے ہیں اگرچہ ان کا درجہِ حرارت سورج سے کہیں کم ہوتا ہے- گلوبیولر کلسٹرز یا کروی جھمگٹا (globular clusters) پرانی اور ننھی منی کہکشائیں ہیں جن میں لاکھوں کروڑوں ستارے ہوتے ہیں جبکہ بڑی کہکشاؤں میں اربوں یا کھربوں ستارے ہوتے ہیں- گلوبیولر کلسٹرز میں ستارے ایک دوسرے کے بہت نزدیک ہوتے ہیں- اتنے کم فاصلے کی وجہ سے یہ ایک دوسرے کے سیاروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بہت سے سیاروں کے مدار میں اتنا بگاڑ پیدا کرتے ہیں کہ وہ سیارے اپنے ستارے کی کششِ ثقل کے چنگل سے آزاد ہو جاتے ہیں اور کہکشاں میں آوارہ پھرنے لگتے ہیں- چنانچہ بہت کم سیارے اپنے ستارے کے قابلِ سکونت حصے میں رہ پاتے ہیں جس وجہ سے ان میں زندگی کے پنپنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں-
کائنات میں گلوبیولر کلسٹرز جگہ جگہ پائے جاتے ہیں- اس ریسرچ سے سائنس دانوں نے یہ سیکھا ہے کہ ان کلسٹرز میں زندگی کی تلاش بے کار ہے-
https://www.space.com/41498-omega-centauri-terrible-place-habitable-planets.html
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔