(قسط نمبر چودہ)
مکہ کے محاصرے کے وقت بائیس سالہ نوجوان اسامہ بن لادن سعودی حکومت کے وفادار شہری تھے۔ ان کو نہ فوٹوگرافی سے مسئلہ تھا، نہ ٹی وی سے اور نہ ہی جھیمان کی امام مہدی والی آئیڈیولوجی سے اتفاق تھا۔ لیکن ان باغیوں کی کہانی حکومت کے خلاف عزم و استقلال سے مزاحمت کی کہانی بن گئی۔ اسامہ بن لادن نے اس واقعے پر 2004 میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ “وہ شخص تھا جس کے ارادے پختہ تھے، وہ حق کے لئے ڈٹ گیا تھا۔ اس کو مارنے کیلئے جو ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھیجے گئے تھے، اس کے ٹائروں کے نشان اور ان سے لگائی آگے کے دھویں سے سیاہ دیواریں میں نے خود دیکھی تھیں، وہ آج بھی میرے ذہن میں ہیں۔ وہ لوگ معصوم تھے، سچے مسلمان تھے، انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، وہ شاہی خاندان کی سفاکی کا نشانہ بنے تھے اور بے دردی سے مارے گئے تھے”۔
القاعدہ نے جھیمان کے طریقے سے بہت کچھ وراثت میں لیا۔ اس نے بھی الگ قومیتوں کے لوگ ایک نظریے کے جھنڈے تلے اکٹھے کئے تھے۔ ایمن الظواہری جھیمان سے متاثر تھے۔
اس حملے کے دوران حرم میں موجود زائرین میں سے ایک محمد شوقی اسلامبولی تھے جو ان کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان لٹریچر لے کر مصر گئے تھے اور ان کی ہمت و استقلال کی کہانیں سنائی تھیں۔ شوقی کے بھائی خالد اسلامبولی مصر کے آرمی میں لیفٹیننٹ تھے۔ 6 اکتوبر 1981 کو صدر سادات جب پریڈ کا معائنہ کر رہے تھے تو خالد نے ان کے جسم میں گولیاں اتار دی تھیں۔ یہ کہہ کر کہ “فرعون جس نے یہودیوں سے دوستی کی”۔ تہران میں کئی دہائیوں تک ایک سڑک اسلامبولی کے نام پر رہی۔ مصر سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے اس کا نام حال میں تبدیل کر کے خیابانِ انتفادہ کیا گیا ہے۔ شوقی اسلامبولی خود اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ جھیمان کی کتاب آج بھی مصر میں ملتی ہے۔ 438 صفحات پر مشتمل اس کا تیسرا ایڈیشن قاہرہ کی دکانوں میں دستیاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھیمان کے ساتھیوں کو پکڑا گیا۔ کئی جیلوں میں رہے۔ جیل سے رہا ہو کر القاعدہ کے فعال ممبر بنے۔ مصر سے تعلق رکھنے والے محمد عامر سلیمان سقر جو افغانستان میں 1987 میں پہنچے۔ جعلی دستاویزات بنانے کے ماہر تھے۔ ابو محمد المقدسی، جنہیں اسامہ بن لادن بھی شدت پسند سمجھتے تھے۔ ان کے بہنوئی عبدالطیف الدرباس۔ جن کے ساتھ مل کر المقدسی نے کتاب لکھی، “سعودی ریاست کیوں کافر ہے؟” اس میں المقدسی لکھتے ہیں۔ “ہم خدا کی بارگاہ میں جھیمان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ اس مردِ مجاہد نے لوگوں کو بیدار کیا۔ اس کی صرف ایک غلطی تھی۔ اس کو یہ حملہ شاہی محل پر کرنا چاہیے تھا”۔
ریاض میں 1995 میں بم دھماکہ کرنے والا المقدسی کی کتاب سے متاثر تھا۔ المقدسی کو اردن میں گرفتار کیا گیا۔ وہ اردن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش میں ملوث تھے۔ جیل میں ان کے ساتھ ایک اور نوجوان تھا، جو اس وقت تو مشہور نہیں ہوا لیکن چند ہی سال بعد اس نے عراق میں القاعدہ کی داغ بیل ڈالنا تھی۔ وہ ابو مصعب الزرقاوی کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی شہرت روزانہ لوگوں کو کیمرے کے آگے ذبح کرنے سے ہوئی۔ پسندیدہ نشانہ شیعہ آبادی تھی۔
انتہاپسندوں کی یہ اگلی نسل جھیمان اور ان کے ساتھیوں سے بھی سفاک تھی۔ جھیمان نے کم سے کم سویلین آبادی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ جبکہ ان کے جانشینوں کی اس نئی نسل نے قتل کو ایک آرٹ بنا دیا تھا۔ الزرقاوی کے بھیجے گئے، بغداد کے ہوٹل کے باہر 2005 میں بڑا خود کش حملہ کرنے والے نے اس سلسلے کے اصل ماسٹر کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اپنی کنیت ابو جھیمان رکھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عسیر کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل نے 2004 میں کہا، “ہم جن لوگوں سے لڑے تھے، ان افراد کو ختم کیا لیکن ان کی آئیڈیولوجی کا مسئلہ سمجھا ہی نہیں۔ ہم نے اس کو پورے ملک میں پھیلنے دیا اور اس طرف سے آنکھیں بند رکھیں۔ ہم نے خود اخوان کے ماضی کو اپنا لیا۔ ملک غلطیاں کرتے ہیں۔ معاشرے غلطیاں کرتے ہیں۔ ہماری غلطی اس واقعے کی اصل وجہ کو نظرانداز کر دینا تھا۔ مسئلے کا سامنا کرنے کے بجائے وقت گزاری کا طریقہ اپنانا تھا”۔
سعودی عرب میں اس واقعے کو تاریخ کی کتابوں میں بھلا دیا گیا ہے۔ 1980 میں سعودی عرب میں لکھی کتاب “الموت للبدعہ” جو سعودی اخباروں کے تراشوں اور سرکاری تقاریر پر مبنی تھی، اس کو کچھ ہی عرصے بعد لائبریریوں سے ہٹا دیا گیا۔ اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
سعودی عرب میں جھیمان کے پکڑے جانے والے ساتھیوں نے جیل کاٹی، اس سے نکلنے کے بعد کئی لوگ اس فکر سے الگ ہو گئے۔ کچھ اس کے شدید مخالف بھی بن گئے۔ ان میں سے ایک ناصر ہزیمی ہیں۔ یہ جھیمان کے بہت قریبی ساتھی تھے۔ اس حملے میں شامل صرف اس وجہ سے نہیں ہوئے تھے کہ استخارہ ٹھیک نہیں آیا تھا۔ اس کے بعد ہونے والی گرفتاریوں میں یہ بھی اندر ہو گئے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد “الریاض” اخبار میں صحافت شروع کی۔ مندرجہ ذیل الفاظ ان کے ہیں۔
“ہماری بڑی غلطی اس معاملے کو ٹھیک طرح سے ہینڈل نہ کرنا رہی۔ ہم نے اس کے نظریے کا توڑ کرنے کی کوشش نہیں کی اور نقصان اٹھایا۔ سعودی ریاست نے جھیمان کے خاندان کے ساتھ نرمی کا رویہ رکھا۔ انکے بیٹے آج نیشنل گارڈ میں افسر ہیں۔ اپنے باپ پر انہیں فخر نہیں۔ ہمیں اسی طرح معاشرے میں دانشمندانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت جو افسر اور جوان حرم میں لڑے تھے، ان مین سے اکثر اس وقت تک ریٹائر ہو چکے تھے جب انہیں اپنے ملک میں اس دشمن کا سامنا 2003 میں ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں کرنا پڑا۔ آج جن دہشت گردوں کو آپ دیکھتے ہیں، ان کی جڑیں جھیمان سے جا کر ملتی ہیں۔ اور یہ صرف خوش قسمتی تھی کہ جھیمان نے یہ کام انٹرنیٹ، موبائل اور سیٹلائیٹ ٹی وی کے آ جانے سے تھوڑا پہلے کیا۔ اس وقت حکومت کے لئے جھیمان کا پیغام سنسر کر دینا آسان تھا۔ انفارمیشن کو بلاک کر کے بغاوت کو پھیلنے سے روک دیا تھا۔ اب اس کا سوچا نہیں جا سکتا۔ جس قدر پرجوش لوگ تھے، اگر ان کو ٹیکنالوجی کا یہ ساتھ مل جاتا تو انہوں نے دنیا فتح کر لینی تھی۔
آپ جانتے نہیں اور شاید تصور نہ کر سکیں کہ یہ سب کس قدر نشہ آور ہوتا ہے۔ مجھے اس لئے پتا ہے کہ کبھی میں بھی ان میں سے ہی تھا۔ ان کا ساتھ دینے والے، ان سے ہمدردی رکھنے والے، ان کو نظرانداز کرنے والے، سبھی ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں قصوروار ہیں۔ اس معاملے میں ہماری ریاست نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ سعودی عرب مثالی ریاست نہیں اور کوئی بھی ریاست مثالی نہیں۔ ہر کسی کی الماری میں اپنے ڈھانچے پڑے ہیں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ اب ہم یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ بس۔ اب اور نہیں۔ آئندہ کبھی نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی یہاں پر ختم ہو گئی۔ لیکن یہ کہانی ابھی جاری ہے۔ اصل زندگی میں کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔