دہلی کی جامعہ مسجد کے دروازے پر 18 مارچ 1857 کو ایک پوسٹر چسپاں تھا۔ ایک ننگی تلوار اور ڈھال بنی تھی، جس کے ساتھ لکھا تھا کہ یہ شاہِ ایران کی طرف سے آنے والا پیغام ہے۔ فارس میں برطانوی فوج کو عبرت ناک شکست ہوئی ہے اور فارسی فوج افغانستان میں ہے۔ ہرات سے اب سرحد کی طرف بڑھ رہی ہے اور دہلی کو کرسچن حکمرانی سے آزاد کروائے گی۔ پانچ سو ایرانی پہلے ہی بھیس بدل کر دہلی میں موجود ہیں اور نو سو فوجی مزید بڑھ رہے ہیں۔ اور دہلی کے مسلمان کرسچن حکمرانوں کی مدد سے باز رہیں۔
تین گھنٹے تک یہ پوسٹر مسجد کے دروازے پر لگا رہا اور بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں تھیں۔ تھیو میٹکاف نے یہ پوسٹر پھاڑ دیا۔ اگلے روز سراج الاخبار میں اس پوسٹر کی خبر پورے صفحے پر شائع ہوئی۔ ساتھ لکھا تھا کہ کیا یہ اصل ہے؟ شہر میں افواہیں گرم ہو چکی تھیں۔ “روسی فوج ہندوستان پر حملہ کر چکی ہے”، “مدراس میں کفار کے خلاف فتوٰی دیا جا چکا ہے”، اصل اور نقل خبریں بازاروں میں پھیلنے لگیں۔ دہلی افواہوں کی زد میں تھا۔ سب سے اہم اصل خبر بنگال آرمی کی انگریزوں کے خلاف بیرک پور اور برہم پور میں اٹھنے والی بے چینی کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
فروری 1856 میں کمپنی نے ایک نیا کام کیا۔ اودھ کی بڑی اور امیر ریاست کے نواب کو نااہل کہہ کر برطرف کر دیا گیا اور ریاست کا نظام سنبھال لیا۔ اودھ کے نواب ایسٹ انڈیا کمپنی کے دوست رہے تھے۔ اگرچہ نواب کی نااہلی کو جواز بنایا گیا تھا اور “اودھ بلیو بُک” شائع کی گئی تھی کہ نواب کی اخلاقی اور مالیاتی کرپشن کی وجہ سے ریاست کتنے جرائم اور مصائب کا شکار ہے۔ اس میں کسی کو شک نہ تھا کہ اصل وجہ کرپشن نہیں، لکھنو کی دولت پر قبضہ تھا۔ نواب بالکل بھی پسند نہیں کئے جاتے تھے، اور اس نے اس کارروائی کا جواز دے دیا تھا۔ نہ صرف اودھ کے محصولات پر قبضہ کیا گیا بلکہ اس سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت بھی کمایا گیا۔
مرزا غالب نے اس پر لکھا تھا کہ “اگرچہ میں اودھ کے معاملات سے اجنبی ہوں لیکن اس ریاست کے ساتھ جو کیا گیا، میں اس پر اداس ہوں اور شاید ہی کوئی ہندوستانی ہو، جو اسے ناانصافی نہ سمجھتا ہو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اودھ کو برٹش راج کا حصہ بنا لینے کے بعد برٹش فوج کے سپاہیوں کی آمدنی کم ہو گئی۔ General Service Enlistment Act جاری کر دیا گیا جو غیرمقبول تھا اس میں سپاہیوں کے لئے سمندر پار کرنے کو تیار رہنے کی شرط بھی تھی۔ اونچی ذات کے ہندو یہ مذہباً نہیں کر سکتے تھے۔ “یہ ہمارا دھرم چھین لینا چاہتے ہیں” یہ خوف نمایاں ہو رہا تھا۔
نچلی ذات کے ہندووٗں کی بھرتی زیادہ تیزی سے کی جا رہی تھی اور پروموشن جلد مل رہی تھی۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اونچی ذات والوں کی طرح تنگ نہیں کرتے اور نہ ہی مذہبی معاملات میں زیادہ حساس ہیں۔ یہ زیادہ کارآمد سپاہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
این فیلڈ رائفل فوج میں متعارف کروائی گئی۔ اس کو گریس دینی پڑتی تھی اور یہاں یہ افواہ پھیلی کہ یہ گریس سور اور گائے کی چربی سے بنائی گئی ہے (اور شاید یہ افواہ ابتدائی طور پر درست تھی)۔
یہ وہ پس منظر تھا جب بنگال میں بیرک پور میں 29 مارچ 1857 کو ایک سپاہی منگل پانڈے نے اپنے برٹش افسروں پر گولی چلا کر انہیں زخمی کر دیا۔ منگل پانڈے کو فوری پھانسی دے دی گئی۔ جلد ہی انبالہ میں گڑبڑ شروع ہوئی۔ اپریل کے آخر پر یہ میرٹھ تک پھیل چکی تھی جہاں پر تھرڈ لائٹ انفینٹری نے گولیاں چلانے سے انکار کر دیا۔ صوبیدار میجر منصور علی نے عکم عدولی کرنے پر پچاسی سپاہیوں کو دس سال قید کی سزا دے دی۔ لیکن ہنگامے میرٹھ بازار تک پھیل گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دس مئی 1857 دہلی میں ایک گرم اور گردآلود دن تھا۔ ٹیلی گراف سے میرٹھ میں ہونے والے ہنگاموں کی خبر دہلی تک پہنچ گئی تھی۔ چار بجے دہلی اور میرٹھ کا ٹیلی گراف رابطہ ٹوٹ گیا۔ اس سے پہلے دہلی کے کمشنر فریزر تک ایک ٹیلی گرام پہنچا تھا لیکن اس وقت وہ جلدی میں تھے۔ اگلے روز انہیں یہ صفحہ کھولنا یاد آیا۔ ناشتے پر انہوں نے اسے پڑھا۔ یہ ایک وارننگ تھی۔ میرٹھ کے سپاہیوں نے اپنی کمانڈ کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اتوار کی شام انہوں نے کرسچن آبادی کو قتل کر دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ فریزر خوفزدہ ہو کر اٹھے اور اپنے لئے بگھی منگوائی تاکہ فوری طور پر کچھ کیا جائے لیکن فریزر کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کی زندگی کے دن پورے ہو گئے تھے۔
میرٹھ کے سپاہی نہ صرف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور قتلِ عام کیا تھا بلکہ وہ رات بھر سفر کرتے ہوئے دہلی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عین اس وقت وہ دہلی کے قریب کشتیوں کا پل پار کر رہے تھے کہ وہ دہلی میں داخل ہو سکیں۔
انہیں اپنے بادشاہ کے پاس پہنچنا تھا۔ میرٹھ کے سپاہیوں کو مغلیہ دور واپس چاہیے تھا۔ بہادر شاہ ظفر کو ابھی اس کا علم نہیں تھا لیکن انقلاب شروع ہو چکا تھا اور وہ اس کے سربراہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر منگل پانڈے کا سکیچ ہے۔ منگل پانڈے کی بنگال میں چلائی گئی گولی اس انقلاب کا آغاز تھا۔ یہ چلانے کے پیچھے ان کی سوچ کیا تھی؟ اس پر کنفیوژن ہے۔ اپنے کورٹ مارشل میں انہوں نے کہا کہ اس روز انہوں نے افیم اور بھنگ پی تھی اور حواس میں نہیں تھے۔ یہ غالباً دفاع کے لئے کہا گیا تھا لیکن اس سے قطع نظر، منگل پانڈے بنگال میں ہیرو سمجھے جاتے ہیں۔ جس جگہ پر انہوں نے گولی چلائی اور انہیں پھانسی دی گئی، اس کا نام شہید منگل پانڈے ماہا اودیان ہے۔ ان کی یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ ان کی یاد میں ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ ان پر کئی فلمیں بن چکی ہیں۔