مختصر تعارف و احوال سلطان العاشقین حضرت خواجہ غلام فریدؒ
• حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا تعلق کوریجہ خاندان سے تھا ۔
• لقب کوریجہ خاندان کے ایک بزرگ حضرت شیخ کور بن پریا کی وجہ سے ہے ۔
• آپ کا شجرہ نسب حضرت عمرفاروق رضہ تک جاملتاہے۔
• آپ کی ولادت 26ذیقعد 1261ھ بروز منگل ہوئی ۔
• آپ کا تاریخی نام خورشید عالم ہے جس کے عدد 1261بنتے ہیں ۔
• خورشید عالم کا مطلب ساری دنیا کا سورج۔
• آپ کی پیدائش ریاست بہاولپور کے قصبے چاچڑاں شریف میں ہوئی ۔
• آپ کے والد کا اسم گرامی خواجہ خدابخش المعروف محبوب الہٰی تھا ۔
• آپ کے والد نے آپ کے کان میں اذان کہی ۔ دادا کانام خواجہ احمد علی اور پرداد کا نام حضرت خواجہ قاضی عاقل محمد تھا ۔
• والدہ کے انتقال کے وقت آپ کی عمر چار برس اور والد کے انتقال کے وقت آٹھ برس تھی ۔
• قرآن مجید آپ نے میاں جی صدرالدین اور میاں محمد بخش سے پڑھا ۔
• فارسی کی کتب میاں جی حافظ خواجہ اور میاں جی برخوردار مستوئی سے پڑھیں۔عربی زبان کی تعلیم مولوی قائم الدین سے حاصل کی ۔
• آپ گھر میں ہوتے یا سفر میں آپ کی تعلیم کا سلسلہ ہر حالت میں جاری رہتا ۔
• جونواب آپ کے والد محترم کا مرید تھا اس کا نام نواب فتح محمد خان عباسی تھا ۔
• آپ کے والد نے سکھوں کے مظالم کی وجہ سے کوٹ مٹھن شریف چھوڑااور چاچڑاں شریف شفٹ ہوگئے ۔
• والد کی وفات پر نواب فتح محمد خان عباسی نے آپ کو بہاولپور (قلعہ ڈیراور) لے گئے ۔
• ساڑھے تیرہ برس کی عمر تک آپ بہاولپور (قلعہ ڈیراور) میں رہے ۔
• ساڑھے تیرہ برس کی عمر میں آپ اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا فخرجہاںؒ کے مرید ہوئے ۔
• حضرت خواجہ مولانا فخرجہاں کا انتقال 1288ھ میں ہوا ۔
• 1288ھ میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی عمر 27برس تھی ۔
• بھائی اور مرشد کے وصال پر آپ سجادہ نشین ہوئے۔
• 16برس کی عمر میں آپ نے رائج تعلیم مکمل کر لی ۔
• دوران تعلیم آپ نے روحانی اشغال اوراد و وظائف جاری رکھے ۔
• آپ کے بھائی نے آپ کی تعلیم پر مکمل توجہ دی بلکہ سختی کی ۔
• حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے تین لنگر خانے چلتے تھے۔ چاچڑاں شریف، کوٹ مٹھن شریف اور سفری لنگر ۔
• لنگر میں روزانہ 8من گندم اور 12من چاول روزانہ پکا کرتے تھے ۔
سینکڑوں لوگ آپ سے ماہانہ وظیفہ لیتے تھے ۔
• مہمان سجادگان کو ایک ہزار روپیہ نظرانہ پیش کیا جاتا ۔
• سفر میں 100سے 300لوگ شامل ہوا کرتے تھے ۔
• دوران سفر بھی آپ کی سخاوت اور لنگر جاری رہتا ۔
• مختلف کاموں کیلئے آپ کے عملےکی تعداد300تھی ۔
• آپ کے پاس جو کچھ بھی آتاآپ غرباءو مساکین میں تقسیم فرمادیتے ۔
• دعوت کے وقت نواب آف بہاولپورکی طرف سے آپ کو 25ہزار روپے پیش کیے جاتے تھے اور روانگی کے وقت 30سے40 ہزار روپے۔ اکثراوقات آپ واپسی کا کرایہ قرض لے کر چاچڑاں شریف آتے تھے ۔
• وقف زرعی زمین سے 35 ہزار روپے سالانہ آتے تھے ۔
• معصوم بچوں کےساتھ آپ کا رویہ نہایت مشفقانہ ہوتاتھا۔ روزانہ عصر کے وقت آپ بچوں کی خوشی کیلئے ان میں نقد پیسے تقسیم فرماتے ۔
• آپ کی خوراک دن میں گندم کی ایک روٹی اور رات کو دودھ ہوتا تھا ۔
• آپ کا طرز زندگی خود اپنے لیے نہایت سادہ اور مہمانوں کیلئے نہایت بہترین تھا ۔
• زندگی بھر آپ نے کسی کو گالی نہیں دی ۔ شرفاء علما اور سادات کی تعظیم کھڑے ہوکر کرتے تھے ۔
• 1296ھ میں آپ نے پہلا اور آخری حج کیا ۔
• حج کے موقع پر آپ نے اعلان کیا کہ جو بھی حج پر ہمارے ساتھ چلنا چاہے ۔وہ چاچڑاں شریف آجائے۔ ساتھ چلنے والوں کو آپ نے ساتھ نصیحتیں کیں جو یہ تھی۔ 1۔گناہوں سے توبہ کرلے۔2قرض ادا کرے ۔3امانتیں واپس کرے ۔4اپنے حقوق معاف کرے۔5 دشمنوں کو راضی کرے ۔6۔ ماں باپ کی رضامندی حاصل کرے۔ 7 صاحب جائیداد وصیت لکھ کر چلے ۔
• چاچڑاں شریف سے 21 شوال مکرم 1296ھ کو روانہ ہوئے ،22شوال کو خان پور ریلوے سٹیشن سے ملتان کیلئے روانہ ہوئے ۔
• ملتان میں بزرگوں کے مزارات پر حاضری دے کر لاہور کیلئے روانہ ہوئے ۔
• دہلی پہنچ کر مزارات پر حاضری دی وہاں سے اجمیر شریف میں آپ کی دستاربندی کی گئی۔وہاں سے آپ بمبئی کیلئے روانہ ہوئے۔
• یہ تمام سفر آپ نے بذریعہ ریل گاڑی کیا اور بمبئی بندرگاہ سے بحری جہاز پر سوار ہوئے۔
• 4 ذی الحج 1296ھ کو آپ جدہ کی بندرگاہ پہنچے 5ذ ی الحج کو مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ۔
• مکہ میں خاص ملاقات حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی سے ہوئی ۔
• 23ذی الحج کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کیلئے روانہ ہوئے ۔
• آپ کا راستہ تھا وادی فاطمہ ، استوا،بیرصفاء، بیرسناسی، بیر علی ، مدینہ منورہ ۔
• مدینہ منورہ میں ایک ماہ قیام کیا واپسی کیلئے دوبارہ مکہ مکرمہ آئے ۔
• مرید ہونے والا شخص اکیلا ہوتاتو اس کے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر مرید بناتے۔زیادہ لوگوں یا عورتوں کو چادر یا روما ل سے بیعت کرتے ۔
مرید کرتے وقت مراقبہ فرماتے اور نمازاور وظائف کی تلقین فرماتے ۔
• نواب صادق محمد خان عباسی چہارم آپ ہی کا مرید تھا ۔
• صادق زیر تھی زبرنہ بن متاں پیش پووی ٗٗآپ نے یہ خط صادق محمد خان عباسی چہارم کو لکھا تھا ۔
• خواجہ غلام فریدؒ پر لکھی گئی کتابوں کا سب سے بڑا ذخیرہ خواجہ فریدؒ میوزیم ولائبریری کوٹ مٹھن شریف میں موجود ہے ۔
• خواجہ فریدؒ کے دیوان کا ترجمہ اردو ،فارسی، انگریزی، عربی، پنجابی، بنگالی اور سندھی میں ہوچکاہے ۔
• حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا وصال 6ربیع الثانی 1319ھ 14جولائی 1901ء بروز بدھ بوقت مغرب چاچڑاں شریف میں ہوا ۔
• وصال کے وقت آپ نے تین حسرتوں کا اظہار فرمایا ۔ کاش! کوئی مجھ سے راستہ دریافت کرتا ، کاش کوئی مجھ سے ایک لاکھ روپیہ یکمشت طلب کرتا، کاش کوئی مجھ سے کہتاکہ مجھے پانی پلائو ۔
• موجودہ کوٹ مٹھن شریف انگریزوں کے دور میں 1863ء میں آباد ہوا ۔
• آپ کے فرزند کا اسم گرامی حضرت خواجہ خدابخش المعروف نازکریمؒ ، پوتے کا نام حضرت خواجہ معین الدین ؒ اور پڑپوتے کا نام حضرت خواجہ قطب الدین ؒ تھا ۔
• آپ کے موجودہ سجادہ نشین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ ہیں ۔
• خواجہ فریدؒ میوزیم ولائبریری میں آپ کے خطوط، لباس، کتابیں ، گھریلواستعمال کی اشیاء، بستر ،قرآن پاک ، موئے مبارک، آخری غسل کا صابن وغیرہ کے علاوہ سینکڑوں دیگر اشیاء موجودہیں ۔
چولستان میں آپ نے 18 سال گزارے آپ 27 برس تک سجادہ نشین رہے ۔
• آپ نے سرائیکی، فارسی، سندھی ، عربی، اورپوربی زبان میں شاعری کی ۔
• حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے آپ کی تعریف میں شاعری کی جس میں ایک شعر یہ بھی ہے کہ
سرمہ چشم شد بخاری را
خاکپائے غلام خواجہ فریدؒ
• حضرت علامہ محمد اقبال آپ کی شاعری سن کر گریہ فرماتے تھے ۔
• آپ کا مزار کوٹ مٹھن شریف ضلع راجن پور میں واقع ہے ۔
• آپ کا سالانہ عرس مبارک 5،6،7ربیع الثانی ھ کو کوٹ مٹھن شریف میں منعقد ہوتاہے ۔
(بشکریہ مجاہد جتوئی)
(بہ حوالہ سہ ماہی شعوروادراک خان پور)