روح کی روشنی ، سمندر کی لہریں ، بادلوں کی گھٹائیں ، بجلی کا چمکنا، تتلیوں کا رقص اور پھولوں کا کھلنا، قوس و قضا کے رنگ ، یہ سب کچھ ہی ہے دراصل مست مست ۔ اس زات پاک ہمارے خالق کے تحت ۔ ہم انسان اشرف المخلوقات تو ہیں لیکن ہر زرہ اس divine dance کا حصہ ہے جہاں یہ رقص ہو رہا ہے اور ہمارے تابع تو نہیں لیکن ہماری روح ساتھ جُڑا ہوا ۔ ہم ایک دائرہ کے اندر اپنی یہ روح کی شمع کو جلائے ہوئے ہیں ۔ اسی پر اعتبار کریں ، اسی کو خدا مانیں اور اسی کو کائنات کا راز ۔ اکثر ہمارا دل کرتا ہے کے خوبصورت وقت ٹھر جائے ، حسین لمحات منجمد ہو جائیں ، لیکن قدرت کو ایسا نہیں منظور ، کیونکہ ہر آنے والا پل نے پچھلے پل کو مکمل کرنا ہے وگرنہ رقص میں بے ترتیبی آ جائے گی، ساری کائنات متاثر ہو گی ، لہٰزا ہمارا رب اس کو روکنے نہیں دیتا ۔ اگر رُکتا ہے تو روح جسم سے پرواز کر جاتی ہے اور اس روشنی باقی روشنیوں کے سنگم ساتویں آسمان پر واپس چلی جاتی ہے ۔
یہاں اس وقت امریکہ میں صبح کا سورج طلوع ہو رہا ہے ۔ میں جس کافی بار سے یہ بلاگ لکھ رہا ہوں وہاں آہستہ آہستہ لوگ اپنی منزلوں پر پہنچنے کے لیے کافی کے نشہ میں بہت پُر عظم اور خوش نظر آ رہے ہیں ۔ منگل کا دن ان کو کوئ بھی سنگل نہیں ڈال رہا بلکہ ان کو ایک عجیب نور سے منور کر رہا ہے ۔ میں نے امریکہ میں آ کر اس زندگی کو اپنی مرضی سے جینے کا ڈھنگ پایا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ آزادی ہے جو اور کوئ ملک بشمول پاکستان مجھے نہیں فراہم کر سکا ۔ ہم پر جگہ جگہ قدغن ہیں ۔ کہیں والدین خدا ، کہیں مولوی اور کہیں تھانیدار ۔ ۲۲ کروڑ ایک عجیب قید کی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ ہر کوئ ایک دوسرے سے آگے نکلنے اور گرانے کے چکر میں ۔ ہر کوئ شہنشاہ بننا چاہتا ہے ۔ کل ایک دوست کا بہت عرصہ بعد پاکستان سے فون آیا اس کو کسی نے امریکہ سے ہی میرا بلاگ شئیر کیا ۔ میں حیران ہوا کے امریکہ ہی سے میرے بلاگز کی شئیرنگ بھی ممکن ہو رہی ہے ، ویسے بھی ساری انٹرنیٹ ٹریفک اور ڈالر کی ترسیل امریکہ سے ہی جنریٹ ہوتی ہے اور نیویارک اسٹاک ایکسچئنج باقی دنیا کی اسٹاک مارکیٹس کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے ۔
پاکستان سے ہی میرے ایک دوست آرکیٹیکٹ مینیسوٹا میں رہتے ہیں ۔ انہوں نے دو عدد ٹاور Seattle میں ڈیزائن کیے اور اب سعودی عرب کا تیل ختم کرنے کے بعد میرے جیسی ویلی/فارغ زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ غلام عرف گامی ، نیّر دادا کے شاگرد تھے ۔ جب میں نیب پنجاب میں کام کرتا تھا تو میں ریس کورس میں واک کے بعد کرکٹ ہاؤس اس کے پاس بیٹھ جاتا تھا ۔ وہ کہتا تھا کے ہر خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر نیّر دادا کی زبان ٹائ بن جاتی ہے ۔ ہمارے ملتان سے نامور صحافی دوست میاں غفار نے اگلے دن لکھا کے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے سیمئسٹر سسٹم ختم کر دیں یا پھر استادوں کو پٹہ ڈالیں ۔ دونوں چیزیں ناممکن ہیں ۔ مجاہد کامران نے لاء کالج کی جونیر لیکچرر سے شادی کر کے اسے لاء کالج کا پرنسپل لگا دیا اور پہلی بیوی گلگت میں کراکرم یونیورسٹی کی وائس چانسلر بنوا دی وہ ادھر ۲۴ گھنٹہ گلگت کی وادی میں تنہائ کے گیت گاتی ۔ جب قدرت نے کامران مجاہد سے بدلہ کی ٹھانی تو ثاقب نثار اور نیب پنجاب کے ڈی جی کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں ۔ ہم پاکستانی چوروں ، ڈاکوؤں اور لٹیروں سے شدید محبت کرتے ہیں ۔ کرنی بھی چاہیے ، “گھسن نیڑے کے خدا” ویسے نیڑے تو گھسن ہی ہے ۔ پاکستانی واقعہ ہی بہت سمجھدار قوم ہے ۔ آجکل چھ لوگ پنجاب چلا رہے ہیں ، پنجاب نہ ہوا کوئ فرانسیسی آبدوز ہو گئ ۔ ویسے شہباز کو اس فلسفہ نے پاپولر کر دیا ۔ وہ تن تنہا پنجاب کو لُوٹتا تھا ۔ زرداری اور پرویز الہی سب کے حصہ کی بات کرتے ہیں ۔ “آؤ رل مل کے کھائیے جو بچ گیا اے “ اچھی سوچ ۔
فوج میں ہر کھڑی چیز کو رنگ کر دیا جاتا ہے اور چلتی کو سیلوٹ مارا جاتا ہے اسی طرح زمدگی گزاریں ۔ ہر خوبصورت چیز سے محضوض ہونا بھی عین عبادت ہے ۔ اس رقص کی عبادت جو جاری و ساری ہے ۔ جس کا قبلہ و کعبہ وہ خدائ ہے جس نے یہ رقص یا flow کو motion دیا ۔
یہاں اس وقت صبح کے سات بجے ہیں اور نزدیکی میز پر کسی بڑی کمپنی کے ایک درجن کے قریب ٹاپ ایگزیکٹو ایک میٹنگ میں مصروف ہیں ۔ بہت خوبصورت خواتین بھی اس گروپ میں شمال ہیں ۔ بزنس بھی ڈسکس ہو رہا ہے ۔ گپ شپ بھی لگ رہی ہے اور ناشتہ بھی جاری ہے ۔ یہ امریکی لوگ اس flow کو صیحیح سمجھے ہیں ۔ ہم ہیں کے بس اس میں رکاوٹیں ڈال کر خوبصورتی کو اپنے باجُو میں قید کرنا چاہتے ہیں ۔ نجانے کیوں ؟ ہمیں کیوں تتلیوں کو مسلنا اچھا لگتا ہے ؟ اقبال دیوان سے پوچھیں گے ۔ ایک دن ایک عورت باغ جناح میں پھول توڑ رہی تھی تو باغبان نے اسے روکا ، اس نے کہا میں نے اپنے جُوڑے میں لگانا ہے ۔ باغبان نے کہا آپ اپنی خوبصورتی کو بھی تباہ کریں گیں اور گلاب کی مہک اور پتیوں کو بھی ۔ میں نے باغبان کو گلہ لگایا ۔ باغبان نے کہا “بی بی جی اے ساب نوں گلے لاؤ ، اے روز پھلاں نوں سلوٹ مار دے نیں ۔ ان پڑھ لوگ بہت سمجھدار ہوتے ہیں ۔ تعلیم نے ہمارا اصل میں ستیاناس کیا ۔ مارک ٹوین نے ٹھیک کہا تھا
Never let school interfere in the education of your kid ..
آئیے کوش۔ کریں اس flow میں واپس چلے جائیں ، جو ہمارے مقدر میں لکھا ہے ۔ وہی سچ ہے ، وہی حقیقت وہی طلسمہ اور وہی نشہ ۔ لیکن ۔۔
یہ پیار بڑا ہے مست مست
نہیں تجھ کو ہوش ، ہوش
اس پر جوبن کا جوش ، جوش
نہیں تیرا کوئ دوش ، دوش
مدہوش ہے تو ہر وقت ، وقت
تُو چیز بڑی ہے مست مست ۔
جیتے رہیں ہر دم ہر پل ۔ میری بہت ساری دعائیں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...