ٹرمپ، نیتن یاہو اور اسرائیلی دارالحکومت
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو سرکاری طور پر اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، اس فیصلے کو مدنظر رکھا جائے تو ان کے بارے میں متعدد باتیں سامنے آتی ہیں۔ یہ کہ وہ مایوس کن طور پر اپنی بنیاد مضبوط بنانا چاہتے ہیں جو کہ اُن عیسائی انتہاپسندوں پر مشتمل ہے جو اسرائیل کی بلاحجت کے حمایت کرتے ہیں۔ یہ کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان "The Ultimate Deal" میں ٹرمپ کو کوئی دلچسپی نہیں۔ انہیں امریکہ کے قریب ترین حلیفوں کی رائے کا بھی کوئی احترام نہیں۔ بین الاقوامی قانون کے متعلق انہیں کچھ علم نہیں۔ انہیں بیرون ملک امریکی عملے کے تحفظ کی کوئی پروا نہیں۔ وہ مشرقِ وسطیٰ کے حالات ومسائل کی پیچیدگیوں کا فہم رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے سمجھنے میں انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ تمام انسانوں کے برابر انسانی حقوق پر بھی اُنہیں کوئی یقین نہیں۔
ٹرمپ کے اس اعلان پر جن اقوام کے رہنمائوں نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اُن کی فہرست میں وہ ممالک تو شامل ہیں ہی جنہیں امریکہ ’’دشمن‘‘ خیال کرتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے اہم حلیف ممالک بھی اس میں شامل ہیں۔ اردن، مصر، سعودی عرب، ایران، شام، روس، ویٹی کن، ترکی، جرمنی، فرانس اور یورپی یونین سب نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ حتیٰ کہ امریکی حکومت کے ماہرین نے بھی اس کے نتیجے کے طور پر پوری دنیا میں شدت پسندی بڑھنے کا انتباہ کیا ہے، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں۔ ہر ذہن میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ اس تبدیلی سے سوائے اسرائیل کے، کسی کو بھی کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ خطے میں حالیہ تنائو میں محض اضافے کا سبب بنے گا، شدت پسندی کے خطرے کو بڑھائے گا، دو ریاستی حل کو مزید مشکل بنا دے گا، امریکہ مخالف دہشت گردوں کی بھرتیوں میں اضافہ کا باعث بنے گا، امریکہ کے حلیفوں کو اس کا مخالف بنائے گا اور امریکہ کی دنیا بھر میں پہلے سے بدتر ساکھ کو مزید بدتر کرے گا۔ اس امریکی فیصلے کو صرف اسرائیل میں ہی ایک اچھی خبر کے طور پر سنا گیا ہے۔
اور بین الاقوامی قانون کا کیا ہوگا؟ اسرائیل نے 1980ء میں یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا، جس کی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہتے ہوئے مذمت کی۔ سلامتی کونسل کی یہ قرارداد کبھی بھی فسخ یا تبدیل نہیں کی گئی۔یوں امریکی صدر ٹرمپ، اسرائیل کے 1980ء کے اعلامیے سے اتفاق کرکے امریکہ کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی طرف لے جارہے ہیں۔متعدد اسرائیلی لابیوں کے دبائو کے سامنے ہار مان کر امریکی کانگرس نے 1995ء میں یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن اس قانون سازی میں یہ بھی شامل تھا کہ امریکی صدر ہر چھے مہینے بعد اس اقدام کے التوا کے لیے ایک Waiver یعنی قانون کے نفاذ سے دستبرداری کے حکم پر دستخط کرے گا۔ تب سے ہر امریکی صدر، جارج بش، بل کلنٹن اور بارک اوباما۔۔۔ نے سیکیورٹی تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے Waiverپر دستخط کیے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ وہ تحفظات اب موجود نہیں، بلکہ وہ ایک غلط مشورہ دئیے گئے اقدام کی طرف پیش رفت کررہے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ اپنے اسرائیلی ہم منصب قاتل اعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرح کوئی پسندیدہ مقام نہیں رکھتے۔ ایک خصوصی پراسیکیوٹر نے ٹرمپ کے کچھ سابقہ کیمپین آفیشلز کو ملزم ٹھہرایا ہے اور ان کے سابقہ قومی سلامتی کے مشیر ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو بھی کئی قسم کے ممکنہ جرائم پر زیرتفتیش ہیں۔ ٹرمپ کی پسندیدگی کی شرح مسلسل 40فیصد سے کم ہے۔ ان دونوں بدعنوان اور اناپرست شخصیات کے لیے یہ اقدام وقتی طور پر لوگوں کی توجہ بٹانے کا باعث ہے، اور ایسا اقدام جو ان کے حامیوں کو پُرجوش کرے گا۔ نیتن یاہو کے لیے وہ حامی اسرائیل کی جنونی نسل پرست صیہونی آبادی ہیں۔ ٹرمپ کے لیے وہ نسل پرست بنیاد پرست عیسائی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ خدا یہودیوں کو کچھ مخصوص جائیدادیں بخشنے والا کوئی سٹیٹ ایجنٹ ہے ۔
اسرائیلی لیڈرز ایک عرصے سے اس سفارتی اقدام کے متمنی تھے، نیتن یاہو اِسے اپنی کامیابی کے طور پر دیکھے گا۔ جبکہ یہ اقدام اسرائیل کے انتہائی اہمیت کا حامل تھا، امریکی صدر ٹرمپ نے اس کے بدلے میں اسرائیل سے کسی بڑی رعایتوں کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ گزشتہ پانچ برسوں میں کی گئی تمام تعمیراتی آباد کاریوں کا خاتمہ، غزہ کی پٹی کے محاصرے کا خاتمہ، مغربی کنارے سے تمام چیک پوائنٹس کا خاتمہ، ایسے مطالبات تھے جو امریکہ کرسکتا تھا لیکن اس نے نہیں کیے۔ امریکی صدر نے بار بار دہرایا کہ وہ Deal-makerہیں۔ آخر وہ کب ادراک کریں کے کہ نیتن یاہو نے انہیں دراصل اُلو بنایا ہے۔آگے جو ہوگا، اس کا اندازہ کوئی بھی کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے سفارت خانے تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کریں۔ان ممالک کے رہنما یہ سوچ سکتے ہیں کہ امریکہ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد بہتر یہی ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ یہ فلسطینیوں کے لیے ایک اور المیہ ہوگا۔ تاہم، بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے والے ممالک اس اقدام کے خلاف مزاحمت کرسکتے ہیں۔ لیکن دوسرے اقدامات اتنے ناموافق نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ عرب ممالک جو ابھی اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتے ہیں اور ایران مخالف انٹیلی جینس ان روابط کو ختم یا انتہائی کم کردے۔ ایسی پیش رفتیں اسرائیل کے لیے بے حد اہم ہیں، نہ صرف فوجی اور اقتصادی مقاصد کے لیے بلکہ پبلک ریلیشنز وجوہات کے باعث بھی۔ اسرائیل کو حاصل یہ فوائد ختم ہوسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں امریکی عملے اور تنصیبات کے خلاف شدت پسندی ابھر سکتی ہے جس پر ٹرمپ کو مسلمانوں کی مذمت کے مزید بہانے مل جائیں گے لیکن یہ امریکہ کے لیے عوامی روابط کی سطح پر ایک ڈرائونا خواب بھی ہوگا۔ اور ان سب ممکنہ واقعات کا سبب براہِ راست طور پر امریکی صدر ٹرمپ ہوں گے جنہوں نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف ٹرمپ کی نااہلی کو نمایاں کرتا ہے بلکہ ان کے اس یقین کو بھی کہ تمام برعکس ثبوت کے باوجود وہ سب کچھ جانتے ہیں اور خود ان کے مشیر اور دنیا بھر میں حلیف اُن کے نزدیک کوئی معانی نہیں رکھتے۔
امریکہ کبھی بھی فلسطین اور اس کے غاصب قابض اسرائیل کے درمیان ایک ایمان دار بروکر نہیں رہا۔ شاید اب باقی ممالک فلسطینیوں کو انصاف دلانے کی خاطر قدم آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے، ضرورت صرف اتنی ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کرے، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی اُن تمام زمینوں سے نکل جائیں جن پر 1948ء کے بعد غاصبانہ قبضہ کیا گیا، تمام چیک پوائنٹس کو ختم کریں، غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ختم کریں، تمام فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین پر واپس لوٹنے کا حق دیں اور مصر اور فلسطین کے درمیان سرحد کھول دیں۔ ایسے بہت سے ممالک ہیں جن کے رہنما آگے بڑھ کر وہ سب کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو امریکہ کبھی کرنا ہی نہیں چاہتاتھا، فلسطینیوں کے لیے انصاف کا حصول۔ اب وقت ہے کہ وہ رہنما آگے بڑھیں اور تاریخ میں اپنا مقام پالیں۔
“