ٹرمپ کی نئی پالیسی؛
بھارت اور افغانستان کی مددسے پاکستان کو ٹارگٹ کرو؛
کامیاب نہیں ہو گی
آج امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان پاکستان پالیسی کا اعلان کرتے الزام لگایا کہ "پاکستان دھشت گردوں کو محفوظ پناگاھیں دے رھا ہے۔ ہم اربوں ڈالر دیتے ہیں اور یہ دھشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں، یہ اب ختم ہو گا اور امریکہ اب اسے برداشت نہیں کرے گا"۔ یہ ایک دھمکی امیز تقریر تھی۔
ٹرمپ نے افغانستان کو 4000 مزید فوجی بھیجنے کے احکامات بھی جاری کر دیئے ہیں۔
ٹرمپ کے یہ اعلانات اور پالیسی ماضی میں جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسیوں کی مکمل ناکامی کا کھلا اظہار ہے۔ امریکی سامراج نے جنوبی ایشیا میں مداخلت کا جو بیڑا اٹھایا ہوا ہے وہ ڈوبتا نظر اتا ہے۔ اور اب پاکستان کی حدود میں ڈرون حملوں میں تیزی آئے گی اور پاکستان کو ملنے والی "انسانی یا دوسری امریکی امداد" بھی کم یا بند ہو جائے گی۔
سوشلسٹ ایک ایسے رجعتی سیاست دان ٹرمپ جو عورتوں، محنت کشوں اور مائیگرنٹس یعنی تارکین وطن کے شدید خلاف ہے کی اس تقریر میں مزھبی جنونیت اور دھشت گردی کے خلاف اقدامات کی قطعا حمایئت نہیں کو سکتے اورسمجھتے ہیں کہ یہ امریکی سامراج کا ایک نیا ٹرن ہے جو عالمی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیاں کا اظہار ہے۔
خارجہ پالیسی ہمیشہ داخلہ پالیسی اور داخلہ پالیسی، خارجہ پالیسی کا ہی عکس ہوتی ہے۔
جو اپنے ملک کے اندر عوام کا دشمن ہو، عورتوں کے خلاف ہو، تارکین وطن کو نکالنا چاھتا ہو، عوام کے لئے صحت کی سہولیات کوختم کرنا چاھتا ہو، مسلم تارکین وطن کے لئے بلخصوص اور دیگر کے لئے بالعموم دشمنانہ ذھن رکھتا ہو اور ان کوامریکہ سے نکالنا چاھتا ہو، جو خود مزھبی جونی ہو، جو ایٹمی حملوں کی دھمکیاں دیتا ہو، جو نازیوں اور نازی مخالف گروھوں کو برابر سمجھتا ہو، اس کی خارجہ پالیسی عالمی سطح پر کیسے عوام دوست ہو سکتی ہے اور مزہبی جنونیت کا خاتمہ کیسے کر سکتی ہے؟
ہم مزہبی جنونیت کے شدید خلاف ہیں اس کو فورا ختم کرنا چاھتے ہیں۔ مزھبی جنونی اور دھشت گرد عوام دشمن، جمھوریت مخالف، عورت دشمن، اقلیتوں کے خلاف اور بادشاھت کے حامی ہیں۔ وہ تاریخ کا پیہہ الٹ گھمانا چاھتے ہیں۔ وہ سائنس مخالف ہیں۔ فاشسٹوں کی ایک نئی شکل ہیں۔ زبردستی اپنی بات منوانا چاھتے ہیں۔ خوکش دھماکوں اور بم کی زبان میں باتیں کرتے ہیں وہ خوف ھراس کی علامت ہیں۔
لیکن ان کو امریکی طریقہ کار سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو بموں اورڈرون حملوں سے اڑایا جا سکتا ہے مگر ان کی جڑوں کو تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی سامراج نے افغانستان پر 2001میں نیٹو افواج کی مدد سے قبضہ کر لیا۔ اپنی طرز کی جمھوریت بھی قائم کر دی اوریہ 16 سال بعد یہ عالم ہے کہ افغانستان کے 40 فیصد علاقے پر یا تو طالبان کا قبضہ ہے یا انکی واضح موجودگی ہے۔
جس طرح ماضی میں امریکی پالیسی ناکام ہوئی، ٹرمپ کی یہ پالیسی بھی کہ پاکستان کو ٹارگٹ کرواورانڈیا اور افغانستان کو ساتھ ملاؤ بھی کامیاب نہیں ہو ھو گی۔
مزھبی جنونیت کا حل فوجی نہیں سایسی ہے۔ ریاست کو اپنے تمام تر رشتے ناطے ان کے ساتھ توڑنےہوں گے۔ یہ سوچ ختم کرنی ہو گی کہ یہ ہمارا سٹریجک اثاثہ ہیں۔ یہ کوئی سیکنڈ لائین دفاع نہیں بلکہ عوام کو ہر وقت غیر محفوظ رکھنےکا زریعہ ہیں۔
یہ ضروری ہے مزھبی جنونی قوتوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے انُکا قبضہ ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں، مگر دیگر اقدامات کے بغیر یہ کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتے
مزھب اور ریاست کو علیحدہ کیا جائے۔ ریاست پاکستان میں رھنے والے تمام شہریوں کے لئے برابر کا درجہ رکھتی ہو۔
تمام تر بڑے مدرسوں کو سرکاری ملکیت میں لیا جائے۔ مددسوں کی سرکاری سرپرستی مکمل طور پر بند کی جائے۔
بڑے پیمانے پر عوامی اصلاحات کی جائیں۔ کم از کم تنخواہ میں اضافہ، تمام تر جمھوری حقوق اور ٹریڈ یونینز کی مکمل بحالی، تعلیم پر بجٹ کا کم از کم 10 فی صد اورصحت سہولیات پر 5 فیصد خرچ کیا جائے۔ فوجی اخراجات کم کئے جائیں اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر اور تجارتی تعلقات بحال کئے جائیں۔ پھر ہی مزھبی جنونیت کے خاتمے کی ٹھوس بنادیں رکھی جا سکتی ہیں۔ ۔
تبصرہ؛ فاروق طارق
[email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“