ٹرمپ کے نام ایک خط/گل نوخیزاختر
ٹرمپ صاحب!
بہت دُکھ ہوا یہ سن کرکہ آپ نے 33 ارب ڈالر کا قرضِ حسنہ واپس مانگ لیا ہے۔ محترم ! اتنی حقیرسی رقم کے لیے آپ نے اتنا واویلا مچا دیا۔ بے فکر رہیں ‘ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے آپ کو یہ رقم میں دوں گا‘ بس ذرا میرے حالات ٹھیک ہولینے دیں۔میں نے 3 کمیٹیاں ڈالی ہوئی ہیں جن میں سے دو کے متعلق مجھے پورا یقین ہے کہ درمیان میں ہی ٹوٹ جائیں گی تاہم تیسری کمیٹی مجھے لازمی ملے گی کیونکہ وہ میں نے ہی شروع کرائی ہے۔اگرچہ کمیٹی کی رقم تین لاکھ ہے لیکن میں پوری کوشش کروں گا کہ اس میں سے دس ہزار آپ کو ضرور دوں تاکہ آپ کو یقین آسکے کہ آپ کی رقم کی واپسی شروع ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ میں نے چھ پرائز بانڈ بھی خریدے ہوئے ہیں‘ میں وعدہ کرتا ہوں اگر سب پرائز بانڈز کا پہلا انعام لگ گیا تو میرا پہلا انعام نکال کے باقی پانچ آپ کے۔ مزید برآں میں نے چھ سال پہلے ایک پلاٹ میں انوسٹمنٹ کی تھی‘ آٹھ قسطیں جمع کرائیں اور کمپنی بھاگ گئی۔ میں تو وہ پیسے نہیں نکلوا سکا‘ آپ سپر پاور ہیں‘ آپ تھوڑی ہل جل کریں تو لامحالہ یہ پیسے بھی آپ ہی کے اکاؤنٹ میں ڈالوں گا۔ویسے ایک بات آپ کو ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ قرضِ حسنہ اُسی وقت واپس کرنا ہوتاہے جب بندے کی استطاعت ہو۔ اگرآپ چاہیں تو یہ قرض معاف بھی کرسکتے ہیں۔۔۔اللہ نے آپ کو بہت دینا ہے!
میرے لیے آپ کا قرض ادا کرنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں‘ میں چاہوں تو ایک دن میں ایک ارب ڈالر کماسکتا ہوں لیکن چھوٹی سی پرابلم ہے کہ مجھے اس کا کوئی طریقہ سمجھ نہیں آرہا۔اگر آپ کے دماغ میں امریکن بینک لوٹنے کی کوئی آسان ترکیب ہو تو شیئر کیجئے تاکہ ہم دونوں سرخرو ہوسکیں۔اگر ایسا ممکن نہیں تو ایک اور طریقہ بھی موجود ہے۔ ظاہری بات ہے جب میں پیسے کماؤں گا تو آپ کو واپس کروں گا ناں۔۔۔تو اس کے لیے ایک چھوٹی سی مہربانی فرمائیے‘ جہاں آپ نے 33ارب ڈالر کی نیکی کمائی ہے وہیں محض ایک ارب ڈالر خاکسار کو عنایت کیجئے اور تین سال کا وقت دیجئے‘ سارے پیسے بمعہ سود آپ کے منہ پر۔۔۔اوہ سوری۔۔۔آپ کے حضور پیش نہ کیے تو بے شک روزِ محشر میرا گریبان پکڑ لیجئے گا۔اب میرا پلان بھی سن لیجئے۔ ایک ارب ڈالر سے میں بیس پچیس پلازے بناؤں گا‘ ان کے فلیٹس اور دوکانیں کرائے پر چڑھاؤں گااور حاصل ہونے والا کرایہ ہر ماہ آپ کو بھجواؤں گا۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اس حساب سے تو تین سال میں 33 ارب ڈالر بمعہ سود واپس نہیں ہوسکتے۔۔۔آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں لیکن تین سال بعد کی بات ابھی سوچنے کی کیاضرورت ہے‘ بعد میں دونوں بھائی بیٹھ کر بات کرلیں گے‘ انشاء اللہ لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آئے گی۔
اگر آپ مالی مسائل کی وجہ سے مجھے ایک ارب ڈالر دینے سے قاصر ہوں توکرنسی پاکستانی روپوں میں بھی قابل قبول ہوسکتی ہے۔ ایک ارب ڈالر میں سے ’ڈالر‘ کی جگہ روپے کا لفظ شامل کردیں۔چونکہ رقم کافی کم ہوجائے گی لہذا اس سے میں پلازوں والا بزنس تو نہیں کر سکتا لیکن تھوڑی تگ و دو کے بعد ایسی مشین ضرور بنوا سکتا ہوں جہاں سے ایک گھنٹے میں 33 کی بجائے 40 ارب ڈالر کھٹاکھٹ پرنٹ ہوکر نکل آئیں گے۔اِنہیں چلانا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہوگا‘ کسی زمبابوے جیسے ملک کو دے دیجئے گا‘ انہوں نے کون سا نمبر نوٹ کرکے وصول کرنے ہیں۔ بعد میں اگر کوئی مسئلہ بھی ہو تو مُکر جائیے گا کہ ہم نے تو اصلی نوٹ دیے تھے۔ آپ کی بات کوبھلا کون رد کرسکتا ہے؟
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ مجھے چالیس ارب ڈالر عنایت فرمائیں۔۔۔گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ پوری بات سن لیں۔ یقیناًآپ اتنی رقم نہیں دیں گے۔ فرض کیا ‘ بلکہ یقین کیاکہ آپ نہیں دیتے لیکن اتنا تو ہوسکتا ہے ناں کہ آپ کم ازکم کوئی لارا ہی لگا دیں۔ یعنی صرف اتنا کہہ دیں کہ جب ہوں گے تب دے دوں گا۔یہ چھوٹا سا جملہ آپ کی بہت بڑی مشکل حل کردے گا۔ چلیں فرض کرتے ہیں کہ آپ یہ جملہ کہہ دیتے ہیں‘ اب ہوگا کیا؟۔۔۔میں بتاتاہوں۔ ریاضی اور فیاضی کے اصول کے تحت جب آپ یہ وعدہ کرلیں گے کہ آپ مجھے چالیس ارب ڈالر دیں گے تو یہ رقم آپ پر واجب الادا ہوجائے گی۔ میں اسی وقت آپ سے کہوں گا کہ سب سے پہلے آپ اپنا 33 ارب ڈالر کاٹ لیں۔ باقی رہ گئے 7 ارب ڈالر۔۔۔اُس میں سے پندرہ سو روپے ابھی دے دیں‘ باقی جب آپ کی استطاعت ہو دے دیجئے گا۔یوں آپ کا قرضہ بھی ادا ہوجائے گا اورکوئی بدمزگی بھی نہیں ہوگی۔
چوتھا طریقہ توانتہائی شاندار ہے۔آپ نے مجھے صرف اپنے دستخطوں کے ساتھ ایک اجازت نامہ دیناہے جس میں لکھاہو کہ میں جب بھی کسی بندے کے لیے امریکہ کا ویزہ اپلائی کروں تو میرا کام ایک دن میں کر دیا جائے۔ پھر دیکھئے میں کیسے مارچ سے پہلے پہلے آپ کے33 ارب ڈالرتو کیا‘ پچاس ارب ڈالر واپس لاتا ہوں۔ اس طریقے سے آپ سو فیصد فائدے میں رہیں گے‘ بس اس ایجنٹی کے عوض میرا تین پرسنٹ کمیشن سائڈ پر رکھ لیجئے گا‘ باقی نوٹینشن۔۔۔!!!آپ کو یقیناًاس طریقے میں تشویش ہوگی کہ اتنے سارے لوگ امریکہ میں آگئے تو کیا ہوگا؟ ڈیئر اس کا بھی حل میں نے سوچ رکھا ہے۔ میرا کام صرف لوگوں کے ویزے لگوانا ہوگا‘ آپ بے شک ان کو ایئرپورٹ سے ہی ڈی پورٹ کردیں‘ کوئی مسئلہ نہیں۔
پانچواں طریقہ آپ کو بالکل بھی پسند نہیں آئے گا لیکن بتانا ضروری ہے۔ کرنا یہ ہے کہ آپ کسی کو بتائے بغیر قرضہ لینے کے لیے کسی دن چپکے سے خود پاکستان تشریف لے آئیں۔یہاں بہت سے لوگ آپ کا ’قرض‘ اتارنے کے لیے بے چین ہیں۔بے فکر رہیے آپ کا بال تک بیکا نہیں ہوگا‘ اگرچہ کچھ احباب نے پلان بنایا تھا کہ جب آپ یہاں آئیں تو آپ کو شیدے بدمعاش کے ذریعے اغواء کرکے دُنیا کے کسی اور ملک کو فروخت کردیا جائے۔اس حوالے سے دنیا کے مختلف ممالک سے گفت و شنید ہوئی لیکن صد افسوس ۔۔۔آپ کے عوض کوئی ایک پیالی بھی دینے کو تیار نہیں۔خود آپ کے مُلک کے سرکردہ افراد سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی ‘ خیال تھا کہ وہ آپ کے اغواء ہونے پر یقیناًتاوان کی مد میں بھاری سے بھاری رقم ادا کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے لیکن انہوں نے عجیب و غریب پیشکش کردی‘ وہ آپ کی رہائی کے لیے دس روپے بھی دینے کو تیار نہیں البتہ اغواء کے لیے پوری سٹریجک سپورٹ کے ساتھ ساتھ 100 ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں۔آپ سے پیچھا چھڑانے کے لیے آپ کے ملک کے لوگوں میں جتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اس سے تو ایسا لگتاہے آپ کو اغواء کرنے کے عوض نہ صرف100 ارب ڈالر مل سکتا ہے بلکہ آپ کو رہا کرنے کی دھمکی دے کر ہر ماہ اتنی ہی مزید رقم باآسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔اب آپ فیصلہ کرلیجئے کس طریقے پر عمل کرنا ہے۔براہ کرم اس خط کو صیغہ راز میں رکھیں اور مجھے اِن باکس میں بتا دیں کہ آپ کی کیا رائے ہے؟یاد رہے کہ اگرآپ نے سارے طریقے مسترد کردیے تو پھرمیری کوئی ذمہ داری نہیں۔شکریہ! ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“