ٹرمپ کا ٹرمپٹ
ٹرمپ کا ٹرمپٹ (ڈھول) تو اب پٹنے لگا ہے مگر اس سے پہلے پاکستان میں اس نفیری کی صدا سنائی دے رہی تھی کہ پاکستان کا رجحان امریکہ کی بجائے روس کی جانب ہو رہا ہے، چین تو ویسے ہی ہمالیہ سے اونچا اور سمندر سے گہرا دوست ہے۔ میں نے اس نفیری کے سوراخ بند کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی تھی کیونکہ یہ راگنی بے سری تھی۔ خیر نقار خانے میں توتی کی آواز بھلا کہاں سنائی دیتی مگر پھر ایک واقع ہو گیا کہ پاکستان کی فوج کے ایک سابق سربراہ سعودی عرب کے تحت امریکہ کی اعانت سے تشکیل کردہ عسکری اتحاد کے سربراہ مقرر ہو گئے۔ اس اتحاد نے اگرچہ فی الحال شام کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی لیکن شام میں بشارالاسد اور ان کی حکومت کے خلاف سعودیوں کی معاندت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ شام میں ہمہ نوع دہشت گردوں کے خلاف اگر کوئی جسم و جاں سے ڈٹا ہوا ہے تو وہ ایران کی بسیج (رضاکار دستے) ہے، جس کو فضائی مدد روسی جنگی طیارے فراہم کرتے ہیں۔ روس شام میں متمکن ہے اور کھل کر کہتا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت شام کی منتخبہ حکومت ہے اور کوئی منتخب حکمرانوں کو بزور مستعفی کروائے یا معزول کروانے کی سازش کرے وہ ایسا نہیں ہونے دے گا اس لیے وہ شام کی حکومت کی درخواست پر اس کی مدد کر رہے ہیں۔ روس کا یہ بھی موقف رہا ہے اور وہ اس پر اب تک قائم ہے کہ شام میں حکومت کی تبدیلی کا حق صرف وہاں کے عوام کو حاصل ہے، اس کے برعکس سعودی حکمران بشارالاسد کو حکمران ماننے سے منکر ہیں اور امریکی سیاستدان بارہا کہہ چکے ہیں کہ بشارالاسد کو جانا ہی ہوگا۔
اگرچہ پاکستان ابھی تک اس فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بنا جس کے سربراہ سابق پاکستانی آرمی چیف ہیں لیکن زود یا بدیر بہر طور وہ اس کا حصہ بنے گا۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ روس اس فوجی اتحاد کا مخالف ہے مگر یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ روس ایران کا حلیف ہے چنانچہ جو بھی ایران کی بزور مخالفت کرے گا، روس اس سے خوش نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ روس جس ملک سے خوش نہ ہو اس سے تعلقات نہیں رکھنا چاہے گا۔ اصل میں بین الاقوامی تعلقات یک سطحی اور یک جہتی نہیں ہوا کرتے بلکہ کثیر السطح اور کثیر الجہت ہوا کرتے ہیں تاہم ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جہاں کوئی کسی ایک سے خوش نہ ہو وہاں تعلقات میں گرمجوشی نہیں ہوا کرتی بس معمول کے تعلقات ہوتے ہیں جنہیں مختلف وجوہ کی بنا پر برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے دورے پر پہنچے ان کا نہ صرف فقیدالمثال استقبال کیا گیا بلکہ انہیں بین الاقوامی اسلامی کانفرنس سے خطاب کرنے کو بھی کہا گیا جس میں شرکت کی خاطر پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی وہاں پہنچے۔ سعودی عرب جس کی معیشت تیل کے کمترین نرخوں کے سبب ڈانوا ڈول ہو چکی ہے، نے امریکہ کے ساتھ ساڑھے تین سو ارب ڈالر کے معاہدے کیے جن میں ایک سو دس ارب کے ہتھیار خریدنا شامل ہے۔ ہتھیاروں کی خریداری ایک عمومی سرگرمی ہوا کرتی ہے۔ ہتھیار ضروری نہیں کہ استعمال کرنے کی خاطر ہوں۔ ہتھیار مشقیں کرنے کے لیے بھی ہوتے ہیں اور ہنگامی حالت سے نمٹنے اور ضرورت پڑے تو استعمال کرنے کے لیے بھی مگر مشرق وسطٰی میں جو صورت حالات ہے اس دوران اتنی مالیت کے ہتھیاروں کی فرمائش کیا جانا کچھ چبھتا ہے کیونکہ سعودیہ کی یمن میں شیعہ باغیوں سے ٹھنی ہوئی ہے اور شام میں شیعہ ملیشیا کی سرگرمیوں پر اسے رنجش ہے۔ خیر ہتھیار کوئی سبزی نہیں ہوا کرتے کہ منڈی سے اٹھائی اور ترسیل کر دی۔ ہتھیار بنتے، بھجواتے بھی وقت لگا کرتا ہے لیکن ایک بات واضح ہوئی ہے کہ امریکہ خطے میں ترکی کی بجائے سعودی عرب کا پشت پناہ بنا ہوا ہے ایران کو تو بقول ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ ویسے ہی دنیا میں تنہا کرنا چاہتا ہے۔
ژاں سارتر کے قلمی نام سے لکھنے والے ایک صحافی دوست نے سوشل میڈیا پر ایک بات کہی ہے کہ خاطر جمع رکھیں آئندہ بیس برس تک ایران اور سعودی عرب کے مابین ایک گولی بھی براہ راست نہیں چلنے والی!۔ ۔ ۔ ان کے منہ میں گھی شکر۔ گولیاں چلنا تو ویسے بھی اچھی بات نہیں ہوتی۔ تاہم ایک بات ضرور ہے کہ ایران ہرگز نہیں چاہے گا کہ خطے میں سعودی عرب کی بالا دستی ہو چنانچہ براہ راست چاہے تصادم نہ ہو لیکن اتحادی فوج کوئی چاند ضرور چڑھا سکتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ آئندہ دو ڈھائی برسوں میں کہیں ایسا ہو گیا تو یہ بہت ہی خطرناک بات ہوگی۔
روس چاہے گا کہ شام کا معاملہ بخوبی طے ہو اور ایران شانت رہے۔ مخالف قوت یا قوتوں کو ایسا کوئی موقع فراہم نہ کرے جس سے وہ مشتعل ہوں یا جو ان کے لیے بہانہ بن جائے مگر امریکہ کی کھلے عام چاہے نہ سہی مگر درون خانہ کوشش رہے گی کہ خطے میں جنگ کا میدان سجا رہے۔ اس کا اسلحہ بکتا رہے، اس کی چودھراہٹ چلتی رہے۔ اس سے چھوٹا چودھری تھک جائے، اکتا جائے یا کوئی کچی گولی کھیل لے تاکہ وہ خطے میں من مرضی کر سکے۔
روس نے صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب سے متعلق کوئی سرکاری بیان نہیں دیا کیونکہ یہ دو آزاد ملکوں کا دوطرفہ معاملہ ہے۔ سعودی عرب میں ٹرمپ کی آمد سے روس دل ہی دل میں خوش ہوا ہوگا کیونکہ اس پر سے داغ دھلتا ہے کہ ٹرمپ کو جتوانے میں روس کی معاونت شامل تھی۔ اگر روس کی حکومت انتخابات جتوانے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی اعانت کرتی تو تیل کی فروخت کے میدان میں روس کا حریف ملک ٹرمپ کی آمد پر اس قدر سرخوشی کا اظہار نہ کرتا۔ سعودی عرب نے امریکہ کی انگیخت پر روس کو معاشی طور پر مٹی چٹوانے کی پوری کوشش کی تھی۔ تیل کی قیمتیں گراتے وقت یہ تک کہا تھا کہ ہم مزید پچاس برسوں تک قیمتیں کم کرتے رہیں تب بھی معاشی طور پر ہمارا بال بھی بیکا نہیں ہوگا مگر عیاں ہے کہ سعودی عرب کی معیشت دھول چاٹنے کو ہے۔ معاشی طور پر کمزور ملک خود کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو چوبند کرنے کی خاطر اسلحے کے ڈھیر لگایا کرتے ہیں بلکہ جوہری بم بنانے تک کی کوشش کیا کرتے ہیں۔ ایسا ماضی میں کیا گیا ہے مستقبل میں بھی ایسی کوششیں کی جائیں گی۔
ساڑھے تین سو ارب ڈالر کے معاہدے ہو جانا کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔ سعودی حکمران گذشتہ پچاس برس سے زیادہ عرصے سے دولت کے ڈھیر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہاں لوگوں کے لیے سہولیات کم کی جا رہی ہیں اور ہمسایہ ملکوں کو ڈرانے کی خاطر اسلحہ زیادہ جمع کیا جا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی فوج کوئی بہت زیادہ پیشہ ورانہ فوج نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کے ہمسایہ ملکوں کی فوجوں کا پیشہ ورانہ معیار بہتر ہے۔ ایران کی فوج تو دنیا کی اچھی فوجوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اتحادی فوج تشکیل دیے جانے کو ترجیح دی ہے۔
سعودی عرب کے سابق فرماں روا دوسرے ملکوں سے تعلقات کے ضمن میں عموما" پرامن رہے ہیں لیکن موجودہ شاہ کے فرزند اور ولی عہد، سعودی عرب کے وزیر دفاع محمد بن سلمان جوان شخص ہیں۔ انہیں اپنی اور اپنے ملک کی دھاک بٹھانے کا شوق ہے۔ یہ دھاک درحقیقت وہ اپنے اندرونی مدمقابل افراد اور مخالف عناصر پر بھی بٹھانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے پہلے یمن پر چڑھائی کی، حلیف ملکوں کی فضائی افواج کا اتحاد قائم کیا اور اب اتحادی فوج کا ڈول ڈالا ہے۔ امریکہ کے نئے صدر کی اشیرواد لینا بہت زیادہ اہم تھا کہ کہیں اندرونی طور پر قوت کا "بیک فائر" نہ ہوجائے۔
بظاہر یہی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی معاونت، اسلحے کی خریدارای اور اتحادی فوج کا قیام دہشت گردی سے لڑائی کی خاطر ہے مگر ساتھ ہی باور کرا دیا جاتا ہے کہ ایران خطے میں دہشت گردی کروانے کا موجب بن رہا ہے یا یہ کہ یمن کے باغی دہشت گرد ہیں چنانچہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان جس ملک کا حلیف ہے اس کے ارادے ان ارادوں سے مختلف ہیں جو روس کے اس خطے میں ہیں کہ شام کا مسئلہ پرامن طریقے سے ختم ہو، فلسطین کی آزاد ریاست تشکیل پا جائے، ایران کو پرامن بقائے باہمی کا حق حاصل ہو۔ اس کے برعکس امریکہ ان میں سے ایک بھی بات کو ویسے نہیں ہونے دینا چاہتا جیسے خطے میں ہیجان زدہ ملکوں کے لوگ چاہتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ٹرمپ کا ٹرمپٹ ٹھس ہو جائے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“