ٹرمپ کا نیا ٹرمپ کارڈ اور تاریخی حقائق
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔اب امریکی سفارتخانہ جو تل ابیب میں تھا اگلے چھ ماہ کے اندر یروشلم منتقل کردیا جائے گا ۔1948 سے جب سے اسرائیل وجود میں آیا ہے ،امریکہ ایسا کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔مشرق وسطی ،یورپ ،روس ،اقوام متحدہ اور ایران سمیت دنیا کے کئی مہذب ملکوں نے ٹرمپ کو روکا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہ کرے ،اس سے خطے سمیت دنیا بھر میں آگ و خون کا بازار گرم ہوگا ،لیکن وہ ٹرمپ ہی کیا جو کسی کا مشورہ مان لے۔ٹرمپ نے آگ سے کھیلنے کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے ،اس پر پوری مہذب دنیا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔مسلم ممالک کا ایک ادارہ ہے جس کا نام ہے اسلامی کانفرنس اسے شاید او آئی سی بھی کہا جاتا ہے ،اس میں 57 اسلامی ملک ہیں ،انہوں نے اعلان فرمایا تھا کہ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تو وہ امریکہ سے سفارتی تعلقات ختم کردیں گے ۔اب دیکھتے ہیں یہ ستاون ملک کب امریکہ سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں؟امریکہ کی کچھ عیسائی کمیونٹی ،پوپ اور امریکہ کے کچھ تجزیہ کار بھی ٹرمپ کے اس فیصلے کی مزمت کررہے ہیں ۔ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کے حوالے سے آخری بارگینگ چپ کوبھی برباد کردیا ہے ۔امریکہ کے ایک صدر ہوتے تھے،جن کانام چھوٹے بش یا بش جونیئیر تھا ،انہوں نے اپنے دور میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک سیل بنایا تھا ،اس سیلکے لئے بیس ملین ڈالرز کا بجٹ بھی رکھا گیا تھا ،سیل کو یہ تحقیق کرنی تھی کہ آخر مسلم اور باقی دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت کیوں بڑھ رہی ہے ؟بش جونئیر صاحب ٹرمپ کے اہم اعلان کے بعد سمجھ جائیں گے کہ دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت کی وجہ کیا ہے؟ٹرمپ صاحب نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیونکہ میں نے یہودیوں سے الیکشن کمپین میں وعدہ کیاتھا آج وعدہ پورا کردیا ہے ،ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ اسرائیل ایک خود مختار ریاست ہے ،اسے اپنا دارالحکومت منتخب کرنے کا حق ہے،بھائی ٹرمپ قبضے کی زمین پر کیسے یہ حق دیا جاسکتا ہے؟ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ اسرائیل وہ ملک ہے جہاں تمام مذاہب کے انسانوں کو حقوق حاصل ہیں ۔اب بندہ ٹرمپ بھیا سے پوچھے ایسا اسرائیل کہاں ہے جہاں تمام مذاہب کے لوگ امن و آشتی سے زندگی گزار رہے ہیں ،ایسا اسرائیل کم ازکم اس زمین پر تو نہیں ،معلوم نہیں ٹرمپ بھیا کس اسرائیل کی بات کررہے تھے ۔ٹرمپ صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کے اس فیصلے سے خطے میں امن آجائے گا،معلوم نہیں یہ کیسا امن ہوگا؟اسرائیل کا رویہ تو یہ ہے کہ جو میرا ہے وہ تو میراہی ہے جو تیرا ہے وہ بھی میرا ہی ہے ۔ٹرمپ صاحب فرماتے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد اب وہ فلسطینیوں کے ساتھ ملکر امن کی راہیں تلاش کریں گے ۔ٹرمپ کی تقریر دلپزیر سنتے جایئے اور ٹرمپ بھائی پر قربان ہوتے جایئے ۔ٹرمپ نے یہ بھی ارشاد کیا کہ اب اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوگا ؟ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا کیپیٹل تسلیم کرنا اور امریکی سفارتخانے کو وہاں منتقل کرنے کا ہر گز مقصد نہیں کہ امریکہ امن کی کوششوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ باونڈریز پر کوئی پوزیشن نہیں لے رہا ۔کہتے ہیں ان کے اس فیصلے کے بعد انہیں یقین ہے کہ علاقے کی ماڈریٹ قوتیں افہام و تفہیم پر یقین رکھتی ہیں ،وہ میچوریٹی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں گی۔ویسے یہ ماڈریٹ قوتیں کون سی ہیں ؟کیا فرانس ،یورپی یونین ،اقوام متحدہ ،پوپ ،ایران یہ ماڈریٹ قوتیں نہیں ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی مزمت کی ہے ۔کیا یہ ساری انتہا پسند قوتیں ہیں؟اقوامتحدہ نے یروشلم کو اپنی کئی قراردادوں میں قبضہ شدہ علاقہ ڈیکلئیر قرار دے رکھا ہے ۔اب اس فیصلے کے بعد بیچارے فلسطینیوں کے پاس زیرو بار گینگ پاور ہے ،نہ وہ اب نقصان دے سکتے ہیں اور نہ ہی فائدہ ۔اب بیچارے جلسے جلوس کریں گے ،تقریں کریں گے ،ان تقریروں ،ریلیوں اور مظاہرہ میں جوش و خروش کا مظاہرہ ہوگا ،اس کے علاوہ ان بیچاروں کی کیا اوقات؟یہ ردعمل ردعمل کی جو رٹ لگائی جارہی ہے کہ خوفناک ردعمل ہوگا ،کچھ نہیں ہوگا بھائی مسلم دنیا میں شدید مزمت کی جائے گی،مسلم دنیا میں ریلیاں اور جلسے جلوس ہوں گے ،اپنی ہی املاک کا جلاو گھیراو ہوگا ۔پھر ایک ہفتے کے بعد سب تھک جائیں گے۔مسلم دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔ٹرمپ نے اسرائیلی حکومت اور عوام سمیت سارے امریکہ اور یورپ کو کہہ دیا ہے کہ اسرائیل صرف یہودیوں کا ہے ۔آیئے اب یروشلم کی حقیقی اور تاریخی دعویداری کی بات کرتے ہیں ۔تاریخی اور سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو یروشلم کے تین دعویدار ہیں ،اور اس کے تین حصے ہیں ۔مسلمان ،عیسائی اور یہودی یہ تین دعویدار ہیں ۔مسیحی حصے میں چرچ آتا ہے ،کیونکہ مسیحوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت عیسی ؑ یہاں مصلوب ہوئے تھے ۔تمام دنیا کے مسیحی اس چرچ کا انتظام سنبھالتے ہیں جو یروشلم میں واقع ہے ۔لاکھوں مسیحی یہاں ہر سال زیارت کے لئے آتے ہیں ،ان کے لئے یہ معتبر ترین چرچ ہے۔یہودیوں کا ہیکل سلیمانی بھی یہی یروشلم میں ہے ،اس ہیکل سلیمانی کی اب دیوار گریہ بچی ہے ۔اسے ویلنگ وال بھی کہا جاتا ہے ۔یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کی تخلیق اسی جگہ یعنی ہیکل سلیمانی میں ہوئی تھی ۔یہودیوں کے مطابق حضرت اسحاق کو جو قربانی کے لئے حضرت ابراہیم نے تیار کیا تھا وہ بھی یہی پر تیار کیا گیا تھا ،واضح رہے کہ ہم مسلمان حضرت اسحاق کو حظرت اسماعیل کہتے ہیں کہ حظرت ابراہیم نے حظرت اسماعیل کو قربانی کے لئے تیار کیا تھا ۔مسجد اقصی کا ایک گنبد ہے جس کے بارے میں یہودیوں کا دعوی ہے کہ یہ گنبد ہیکل سلیمانی کا ھصہ ہے۔اس لئے وہ اس علاقے کو بھی قبضے میں لیں گے ۔مسلمانوں کے نزدیک مکہ اور مدینہ کے بعد بیت المقدس تیسرا مقدس ترین شہر ہے ۔جب کعبہ کی جانب رخ کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا تو اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے ۔مسلمانوں کے مطابق معراج کا آغاز بھی بیت المقدس سے شروع ہوا تھا ۔یہ تو تھی وہ تاریخی حقائق جو یروشلم یعنی بیت المقدس کے متعلق ہیں ۔اب آتے ہیں انیس سو سنتالیس پر ،1947 میں اقوام متحدہ نے یروشلم کے حوالے سے پارٹیشن کمیشن بنایا تھا ،جس میں کہا گیا تھا کہ فلاں علاقہ یہودیوں کا ہے ،فلاں مسلمانوں کا اور فلاں مسیحوں کا ۔اس پارٹیشن کمیشن نے یروشلم کو ایک انٹرنیشنل سٹی قرار دیا تھا ،اسے کھلا شہر قرار دیا گیا کہ یہ تمام الہامی مذاہب کا مشترکہ شہر ہے ۔اسرائیل نے اس تجویز کو قبول کیا تھا ،جبکہ فلسطینیوں نے کہا تھا صدیوں سے یہ شہر ان کی ملکیت ہے وہ کیسے دوسرے کی ملکیت تسلیم کریں ؟1949 میں ایسا ہوا کہ یروشلم کے جس علاقے میں مسلمان تھے وہاں سے چار لاکھ فلسطینی نکالے گئے اور پھر وہاں یہودیوں کو آباد کیا گیا ۔اسی وجہ سے مغربی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا ۔ایسٹرن یروشلم اردن کے قبضے میں چلا گیا ،پھر انیس سو پچاس میں اسرائیل نے اعلان کیا کہ یروشلم اسرائیل کا دائمی دارالخلافہ ہوگا ۔اس کے بعد یہاں پر کچھ ممالک نے سفارتخانے کھول دیئے ۔پچاس کی دہائی میں سولہ ملکوں نے یروشلم میں اپنے سفارتخانے قائم کئے ،تین افریقی ،گیارہ لاطینی امریکی ملک تھے اور ایک یورپیملک ہالینڈ تھا ۔اس کے بعد جب انیس سو تھتر میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی ،تو اقوام متحدہ نے کہا جو ممالک اقوام متحدہ کے ممبران ہیں ،وہ یروشلم سے اپنے سفارتخانے ختم کریں تو تمام سولہ ملکوں نے اپنے سفارتخانے یروشلم سے تل ابیب منتقل کردیئے ۔انیس سو اسی میں اسرائیل نے ایک قرارداد منظور کی کہ متحدہ یروشلم اسرائیل کا مستقل کیپیٹل ہوگا ۔نوے کی دہائی میں اردن کے شاہ حسین نے یروشلم پر حق ملکیت کے دعوی سے ہٹ گئے ۔کہا کہ فلسطینی اتھارٹی مزاکرات کرے ،اس وقت کیمپ ڈیوڈ،اوسلو اور میڈرڈ معاہدے ہورہے تھے ۔ان تمام معاہدوں میں کہا گیا تھا کہ یروشلم کا اسٹیٹس ابھی طے ہونا باقی ہے ۔فلسطینی بھی یہی کہتے ہیں کہ جب اسرائیل کے ساتھ دائمی امن معاہدہ ہوگا تو اس علاقے کا حتمی فیصلہ ہو جائے گا ،لیکن ٹرمپ نے سب بلڈوز کردیا ۔سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ؟اس کی وجہ یہ ان کے انتخابی منشور کا وعدہ تھا ،دوسرا وہ ایوینجیکل عیسائیوں کو خوش کرنا چاہتے تھے ،یہ وہ عیسائی ہیں جو یہودیوں کو تو پسند نہیں کرتے ،لیکن انہیں اسرائیل سے محبت ہے ،کیونکہ ان کا ایمان ہے مسیحا کا اس وقت ظہور ہوگا جب ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر ہوجائے گا ۔یہودیوں انتہا پسندوں کی بھی یہی سوچ ہے ۔ایوینجیکل عیسائی کہتے ہیں جب مسیحا کا ظہور ہوگا سارے یہودی عیسائی ہوجائیں گے اور یہودی کہتے ہیں کہ سارے عیسائی یہودی ہو جائیں گے ۔ادھر ٹرمپ کے نیو نازی بھی یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں لیکن اسرائیل سے انہیں بھی محبت ہے ۔ٹرمپ کے اس فیصلے سے اب یہودی ووٹ بھی ان کے لئے پکا ہو گیا ۔اس وقت ٹرمہ مشکل میں ہے ،اس پر کئی اقسام کی تحقیقات چل رہی ہیں ،اب یہودی لابی اور اسرائیلی لابی ہمیشہ ہمیشہ ٹرمپ کا ساتھ دے گی ۔ادھر سعودی عرب کی پوزیشن بھی واضح ہے ،ایران دشمنی کی وجہ سے وہ مجبورا اسرائیل کے ساتھ ہے ۔شام تباہ و برباد ہو چکا ،مشرق وسطی میں خانہ جنگی ہے ،لبنان کی صورحال سب کے سامنے ہے ،قطر کمزور ہوچکا ،ایران سعودی عرب تنازعات میں گھرے ہیں ،ادھر سے یروشلم کی حقیقت تبدیل ہو گئی ہے ۔ایک بات یاد رکھیں نام نہاد عالم اسلام میں نظریات کچھ نہیں ہیں ،سب کے سب مفادات اور مقاصد کی جنگ لڑ رہے ہیں ،اس لئے بیچارے فلسطینی ایسے یتیم ہی رہیں گے ۔ٹرمپ کے اس فیصلے سے صرف یہ ہوگا کہ مسلم دنیا میں انتہا پسندی کو فروغ ملے گا ،انتہا پسند قوتیں اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر اس کارڈ کو استعمال کریں گی ،داعش ،القاعدہ اور دوسری انتہا پسند قوتوں کی ریکروٹمنٹ بڑھے گی ۔امریکہ اور اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ ہیں اور ایران کے خلاف ،اس لئے اس ایشو پر سعودی خاموش رہیں گے ۔ٹرمپ کے اس فیصلے سے امریکہ شاید غیر محفوظ ہو جائے لیکن اسرائیل محفوظ ہوگا اور مسلم دنیا میں کشیدگی پھیلے گی ۔یورپ اور امریکہ میں انتہا پسندی بڑھے گی ،حملوں میں اضافہ ہوگا اور معصوم انسان مارے جائیں گے ۔خود ٹرمپ بھی اس کا شکار ہوسکتا ہے ۔بیچارے فلسطینی یتیم تھے ،یتیم ہیں اور یتیم رہیں گے ۔کیونکہ مشرق وسطی کی ہر ریاست یا ہر ملک نے فلسطینیوں کو استعمال کیا ،جب مقاصد پورے ہوئے تو فلسطینیوں کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔ناصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں فلسطینیوں کے ساتھ جو کیا ،وہ سب کے سامنے ہے ؟ادھر فلسطینی بھی پی ایل او ،حماس اور کئی دھڑوں میں ایک سازش کے زریعے تقسیم کئے جا چکے ہیں ۔فلسطینی بھی تقسیم ،نام نہاد عالم اسلام بھی تقسیم ،تو ٹرمپ کے ٹرمپ کارڈ کو کچھ نہیں ہونے والا ؟انیس سو انھتر کا سال سب کو یاد ہوگا جب مائیکل روحان نامی ایک آسٹریلوی شخص نے مسجد اقصی کو آگ لگائی تھی ،غم غصے کی لہڑ دوڑی تھی ،مسلمانوں نے اپنی ہی جائدادیں جلادی ،خوب مظاہرے کئے ،جلاو گھراو کیا ،پھر کیا ہوا اسی سال یعنی انیس سو انھتر میں رباط میں او آئی سی بنی ،اٹھتالیس سال ہو گئے اس تنظیم نے کیا اکھاڑ لیا ہے ؟بے حسی کا مظاہرہ دیکھیں انیس سو بیاسی میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا ،صابرہ اور شتیلہ میں دو ہزار فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا ،انیس اٹھاسی میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے ،کسی نے مدد کی ؟بھیا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ،اب ٹرمپ کے اعلان کے بعد سے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کے نعرے لگیں گے ،کہا جائے گا مسلمانوں کو ایوبی کی ضرورت ہے ،محمد بن قاسم کی ضرورت ہے ،پھر خاموشی ؟یہ ساری مرثیہ خوانی کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھیا سب سیاست ہے ،فلسطینی یتیم ہیں ،بس
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔