ٹرمپ، یروشلم اور پاکستان
جلتی پر تیل ڈالنا کسے کہتے ہیں؟ دو چار ہفتوں پہلے کسی نے ایک وڈیو بھیجی جس کے اوپر لکھا تھا، ہندوستان میں لڑکی کو مسیحی چرچ جانے کی پاداش میں ہندو انتہا پسندوں نے زندہ جلا دیا۔ میں ایسی وحشت ناک وڈیو دیکھنے سے پہلے ہی ڈیلیٹ کر دیا کرتا ہوں مگر چونکہ تذکرہ ہندو انتہا پسندی کا تھا اسلیے کچھ روز انتظار کیا اور آنکھیں آدھی بند کرکے، دل مسوس کے دیکھ ہی لی۔ واقعی ہجوم میں موجود کچھ لوگوں نے سکرٹ میں ملبوس لڑکی پر تیل چھڑک کے آگ دکھا دی تھی۔ وہ زمین پر گری ہوئی بس مرنے کے نزدیک تھی مگر آگ مدھم پڑنے لگی تھی۔ ہجوم میں سے اٹھارہ بیس سال کا لڑکا تیل سے بھرا برتن لے کے بھاگا،جلتی لڑکی پر نزدیک جا کے پھینکا اور چشم زدن میں دور بھاگ گیا۔
کل جب امریکہ کے انوکھے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کرکے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت تسلیم کرنے کی ابتدا کی تو مجھے مسئلہ فلسطین جل کے مرتی ہوئی وہ لڑکی لگا جس کے بدن پر آگ مدھم پڑنے لگی ہو تو ڈونلڈ تیل کا گیلن پکڑے بھاگ کر آگ بھڑکانے کی خاطر اس پر تیل ڈال کر جلدی سے دور ہونے والا " پن " سمیٹتا لونڈا بن گیا ہو۔
ہفتہ عشرہ پہلے ڈونلڈ کے اس ارادے سے متعلق چرچا کیا جانے لگا تھا۔ روس سمیت کئی ملکوں نے اسے ایسا کرنے سے روکا تھا۔ او آئی سی، نے " اوہ آئی سی " کہنے کی بجائے شدید احتجاج کیا تھا اور صدر امریکہ کو ایسا کرنے سے روکا تھا۔
یاد رہے ہر برس ایران اور دنیا بھر میں ایران کے حامی شیعہ لوگ رمضان المبارک کے آخری ہفتے میں "یوم القدس" کے نام سے اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف احتجاج اور بیت المقدس کی آزادی کے حق میں مظاہرے کے طور پر مناتے ہیں۔ لبنان میں حسن نصراللہ کی قیادت میں پارٹی "حزب اللہ" کا عسکری ونگ بہت فعال ہے۔ نزدیک ہی شام میں ایران کے پاسداران نے شامی سرکاری فوج کے ساتھ مل کر شام کے کئی شہروں کو دہشت گردوں کے تصرف سے آزاد کروایا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جل کے مرتی لڑکی پر ٹھنڈی پڑتی آگ کی طرح مسئلہ فلسطین کو بھڑکا کر درحقیقت باقی سب مسلمانوں کی نسبت شیعہ برادری اور خاص طور پر ایران کو بھڑکانے کی سعی کی ہے۔ غزہ میں حماس والے، لبنان میں حزب اللہ والے، شام میں پاسداران و شامی حکمت اور ایران اس فیصلے پر آنکھیں موندے نہیں رہ سکتے۔ مشرق وسطٰی میں امریکیوں کے حامیوں کے خلاف مہمیں تیز تر ہو سکتی ہیں یوں امریکہ کو شام اور دیگر ملکوں میں شیعہ سنی مناقشہ بھڑکائے رکھنے کا جواز مل جائے گا۔
سب جانتے ہیں کہ امریکہ کا صدر اپنے طور پر کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ جو کچھ کرنا ہوتا ہے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے کیا جاتا ہے۔ شام کے ٹھنڈے ہوتے ہوئے مسئلے کو پھر سے گرم کرنے، ایران کے ساتھ اختلافات کو ہوا دینے، اسلاموفوبیا کو بڑھانے کی خاطر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام بہت سوچا سمجھا ہے۔ باقی اسلامی دنیا سے متعلق اندازہ تو یہی لگایا گیا ہوگا کہ کچھ ہنگامے ہونگے پھر تھوڑے عرصے بعد ماند پڑ جائیں گے۔ مگر بعض اوقات اندازے غلط بھی تو ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ دنوں میں سعودی عرب کے جانشین شہزادہ محمد اور اسرائیل میں شکر فہمی، یمن کے حوثیوں کو مزید فعال ہونے اور ایران کو یمن میں حوثیوں کی مدد پر اکسانے کا موجب بن سکتی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ بحرین میں شیعہ آبادی حکومتوں کے خلاف احتجاج کرے گی جن کو ایک بار پھر سختی سے دبانے کی کوشش منفی اثرات کی حامل ہوگی۔ یوں مشرق وسطٰی کے تقریبا" تمام ملکوں اور خاص طور پر سعودی عرب اور بحرین میں معاملات بگڑیں گے۔ اس سے بھی امریکہ کو فائدہ پہنچے گا۔ وہ ان ملکوں میں موجود اپنے فوجی اڈوں کو مزید مضبوط کر سکے گا۔ اس طرح یہ ایک گھن شروع ہوگا جو آئندہ چند سال میں مشرق وسطٰی کی سیاست بلکہ جغرافیے تک کو تبدیل کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
پاکستان کوئی خلا میں بنا ملک نہیں ہے۔ اس وقت یہ مذہب سے فائدہ اٹھانے والوں کی جنت بنا ہوا ہے۔ دھرنا دینا اور ایسی باتیں منوا لینا جو نہ مانے جانے والی ہوں، معمول بننے کو ہے۔ حکومت دکھائی نہیں دیتی۔ سعودی عرب اور امریکہ ایسے کمبل ہیں جنہیں اوڑھ کر یہ شور مچایا جاتا ہے کہ ہم تو کمبل کو چھوڑتے ہیں، کمبل ہی ہمیں چھوڑ کر نہیں دیتا۔ اس کمبل میں اسلامی ملکوں کی اتحادی فوج بھی ہے جو ایرانیوں، شامیوں، حوثیوں کے خلاف لڑ سکتی ہے۔ اس فوج میں پاکستان کے فوجی بھی ہونگے اور اس کی سربراہی شکریہ راحیل شریف کے پاس ہے۔ چنانچہ کمبل میں لگی آگ کی لپٹ ہی نہیں محسوس ہوگی بلکہ آگ لگ بھی سکتی ہے اور زور بھی پکڑ سکتی ہے۔ افغانستان میں امریکہ فوج بڑھا رہا ہے۔ امریکہ کے ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ملک میں عدم استحکام ہوگا تو پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف بھی سرگرمی ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی کام دنوں میں نہیں ہوا کرتا لیکن ملک کو دنیا سے کاٹ کر دیکھنا بھی شترمرغ کی طرح ریت میں سر دھنسا دینے کے مترادف ہوگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“